ویسے تو 50 ریا ستوں کے مجموعے کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اکثر افراد امریکہ کی ریاستیں 52 شمار کرتے ہیں مگر سرکاری طور پر امریکہ کی ریاستیں پچاس ہیں اور امریکی جھنڈے میں پچاس ستارے پچاس ریاستوں ہی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پچاس‘ باون کی بحث سے ہٹ کر‘ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی تین ریاستیں ایسی ہیں جو دیکھی تو نہیں جا سکتیں لیکن محسوس ضرور کی جاتی ہیں۔ کہنے کو تو امریکہ میں ایک کانگریس بھی ہے اور ایک سینیٹ بھی‘ سب سے بڑھ کر امریکہ سمیت دنیا بھر پر حکومت کرنے والا ایک وائٹ ہائوس بھی ہے‘ جہاں ایک سال تک جاری رہنے والی ہنگامہ خیز انتخابی مہم کے بعد کبھی چار برس تو کبھی آٹھ برسوں کیلئے ریپبلکن تو کبھی ڈیمو کریٹ کا نامزد شخص منتخب ہو کر امریکہ کا صدر بن جاتا ہے اور وہ امریکہ پر کم اور دنیا پر زیادہ حکمرانی کرتا ہے۔ مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی ان دیکھی اور محض محسوس کی جانے والی اور بھی ریاستیں ہیں‘ جہاں عوامی رائے شماری تو نہیں ہوتی لیکن وہ اس کا انتظام ضرور کراتی ہیں وہ ریاستیں سی آئی اے، ایف بی آئی اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے ادارے ہیں۔
گزشتہ ایک‘ ڈیڑھ عشرے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں ہلچل اور شور و غل اب بڑھتا جا رہا ہے جس سے لگتا ہے کہ عوام میں اب دونوں پارٹیوں کی کارکردگی جانچنے اور پرکھنے کی صلاحیت بڑھتی جا رہی ہے؛ تاہم ایسا نہیں ہے! جس طرح ہمارے مشرق میں نریندر مودی نے پاکستان اور مسلم دشمنی کی آگ بھڑکا کر ہندو انتہا پسندی کے شعلے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا کر پہلے گجرات اور پھر پورے بھارت کے انتخابات میں فتح حاصل کی ہے‘ اب اسی قسم کی انتہا پسندی کے ایجنڈے کو امریکہ میں بھی پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ امریکی عوام زیادہ تر ووٹ نعروں کے بجائے کارکردگی پر دیتے ہیں‘ اب وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ جذباتی نعروں سے امریکی عوام کو اپنی جانب کھینچا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ریپبلکن اور ڈیمو کریٹ‘ دونوں پارٹیوں کا میڈیا سیل رائے عامہ کو اپنی اپنی جانب کھینچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن یہ سب ہاتھی کے دانت ہیں جو صرف دنیا کو دکھانے کیلئے ہوتے ہیں جبکہ اصل دانت‘ جن سے دنیا کی ہر قوم اور مفاد کو اپنے مطلب کی خاطر چبانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا وہ مذکورہ تین اَن دیکھی ریاستیں ہیں۔ وہی رائے عامہ کو اپنی تشہیری اور انتہائی سائنٹیفک طریقے سے چلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم سے موڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور اپنے اگلے صدر کا انتخاب کراتی ہیں۔ امریکہ کے اندر اور باہر‘ ہر جگہ یہی دکھائی نہ دینے والی تین ریاستیں کارفرما نظر آتی ہیں جن کے سامنے امریکی صدر اور امریکی حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ امریکہ اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ان تین علیحدہ علیحدہ ریاستوں کے راجا ہی اپنی اپنی جگہ پر مہاراج ہوتے ہیں۔
امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ جوزف سنوڈن (Edward Joseph Snowden) نے ''سنوڈن لیکس‘‘ میں امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی طاقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کس طرح سینیٹ اور کانگریس کے طاقتور اراکین کی سرویلنس کرتی ہیں یہی نہیں بلکہ سی آئی اے وائٹ ہائوس کے اندر تک گھسی ہوئی ہے اور امریکی صدر کی مکمل سرویلنس کرتی رہتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دبی دبی زبان میں کہنا شروع ہو گئے تھے کہ سی آئی اے ان کے ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سی آئی اے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کے اہلکاروں کو Sick People کا نام دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا اکھڑ اور بد مزاج شخص بھی بے بسی سے یہ کہہ اٹھا تھا کہ سی آئی اے اسے اپنے گرد لپیٹنے کیلئے گھیر رہی ہے تاکہ جس طرح اس نے امریکہ کی سیاست اور ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ اس کی یہ گرفت کبھی ڈھیلی نہ پڑے۔ ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ امریکی صدر تو صرف ایک مہرہ ہے جسے وائٹ ہائوس کے دلفریب‘ خوبصورت‘ بڑے اور کھلے پنجرے میں گھومنے پھرنے کے لیے قید کیا ہوتا ہے اور اس پر کچھ اس طرح نگران اور دربان مقرر کیے جاتے ہیں کہ وہ امریکی صدر کا یہ احساس منتشر یا متزلزل نہیں ہونے دیتے کہ ''تم ہی امریکہ کے صدر ہو اور یہاں جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں یہ کوئی اور نہیں بلکہ سب آپ کی مرضی اور خواہش کے مطا بق ہی کیے جا رہے ہیں‘‘۔ حالانکہ یہ سب سے بڑا مذاق ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ شاید گزشتہ چالیس برسوں میں امریکہ کے واحد صدر تھے جو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ امریکی سٹیٹ کے علاوہ بھی ایک سٹیٹ ہے‘ جسے امریکی صدر کے بجائے ''Sick People‘‘ چلا رہے ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا نظر نہ آنے والا طریقہ کار اور ان کا امریکی سیاست اور ریاستی اداروں پر کنٹرول کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر بھی ماننے پر مجبور ہو گیا کہ سی آئی اے ایک خفیہ ادارہ نہیں بلکہ ریا ست کے اندر ہی ایک طاقتور ریاست ہے۔ سی آئی اے، ایف بی آئی اور امریکہ کی ہوم لینڈ سکیورٹی جیسے اداروں کی جڑیں اس قدر مضبوط اور امریکہ کے ہر ادارے جیسے میڈیا، یونیورسٹیز، سیاسی جماعتوں، معاشی اور عسکری اداروں، تھنک ٹینکس، تنظیمی اور پالیسی امور سے وابستہ اداروں کی گہرائیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اداروں سے وہی کچھ تیار ہو کر نکلتا ہے جو انہوں نے سوچا ہوتا ہے۔
امریکہ کی پالیسیوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس بجٹ کی جانب کبھی نہیں دیکھنا چاہئے جو اس نے اپنی سرکاری دستاویزات اور ہر سال پیش کیے گئے بجٹ میں ظاہر کیا ہوتا ہے اور جو چین، روس اور بھارت جیسے بڑے دفاعی ملکوں کے کُل بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ جو بجٹ امریکی کاغذات میں دکھایا جاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ‘ غیر اعلانیہ اور خفیہ بجٹ امریکی خفیہ ایجنسیوں اور اداروں کی دسترس میں دیا جاتا ہے اور یہ کسی سے مانگ کر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا سے برطانیہ اور ایشیا سے افریقہ تک ہر جگہ یہ ایجنسیاں آپریٹ کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں روس اور چین جیسے ممالک کے اداروں کا بجٹ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ 2018ء کے امریکی ایجنسیوں کے بجٹ کے لیے امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس نے 639.1 بلین ڈالرز کی رقم مختص کی تھی، اس میں سے 80 بلین ڈالر کی رقم کچھ قومی ایجنسیوں کے لیے وقف کی گئی تھی۔
آج سے کوئی دس سال پہلے‘ اگست 2013ء میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں ایڈورڈ سنوڈن نے سی آئی اے کے ملٹی بلین ڈالرز کے غیر اعلانیہ بجٹ کو Black Budget کا نام دیتے ہوئے جو ہوشربا انکشافات کیے تھے‘ انہیں سننے کے بعد تھنک ٹینکس اور ماہرین معاشیات کے علاوہ عالمی معاملات پر نظر رکھنے والے افراد بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ 16 دیگر خفیہ ایجنسیوں کے 52.6 بلین ڈالرز کے مقابلے میں صرف سی آئی اے کے لیے 14.7 بلین ڈالر کی اعلانیہ منظوری دی گئی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کی لگ بھگ چار سال قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی دو خفیہ ایجنسیوں کا اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کہ وہ ہمہ وقت غیر ملکی کمپیوٹر نیٹ ورکس کی ہیکنگ میں مصروف رہتی ہیں۔ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی‘ جس کا اعلانیہ بجٹ ہر سال یہ کہتے ہوئے بڑھایا جاتا ہے کہ اس سے ہیومن انٹیلی جنس آپریشنز پر کام کیا جائے گا‘ سینکڑوں ملین ڈالرز دنیا بھر میں اپنے خفیہ ایجنٹس اور جاسوسوں کیلئے مختص کرتی ہے۔ کیوبا، روس، ایران، اسرائیل اور چین میں اس نے اپنے بے شمار ایجنٹوں کو کائونٹر انٹیلی جنس کیلئے رکھا ہوا ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر وِلیم جے کیسی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: CIA confronting undeclared war۔ سی آئی اے کے کنٹریکٹرز اور ایجنٹس‘ جو دنیا بھر میں تفویض کیے گئے مشنز میں مصروفِ عمل ہیں‘ کیلئے رقوم ایڈ، فنڈ اور ڈونیشن نامی مختلف حیلے حربوں سے فراہم کی جاتی ہیں اور مختلف تھنک ٹینکس اس مقصد کے لیے کھڑے کیے جاتے ہیں جو ہمہ وقت امریکی بیانیے میں ہوا بھرتے رہتے ہیں۔