"MABC" (space) message & send to 7575

کنکریاں

سوشل میڈیا پر وائرل ایک وڈیو میں دیکھا کہ فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران شیطان کو کنکر یاں مارتا ہوا ایک حاجی شیطان کو جی بھر کے سنانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑے جوتے پوری طاقت اور بھرپور جوش سے نشانہ باندھ باندھ کر جمرات کی جانب پھینک رہا تھا۔ لگتا تھا کہ حاجی صاحب جمرات یعنی شیطان کی اس علامت کو ڈھیر کر کے ہی دم لیں گے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاتھ میں رسی اور چھری لے کر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں‘ اللہ کے حکم کی تعمیل میں قربان کرنے کی نیت سے گھر سے نکلے تو راستے میں تین مقامات پر شیطان مردود نے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کو بہکانے کی کوشش کی۔ آپ علیہ السلام نے ہر مقام پر شیطان کو سات‘ سات کنکریاں مار کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ جن تین مقامات پر شیطان نے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی‘ وہاں آج شیطان کی تین علامتیں قائم ہیں جہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں‘ ہر ملک سے آنے والے مسلمان کنکریاں مارتے ہوئے شیطان اور اس کے اختیار کیے گئے حربوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ فریضہ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارنا ایک واجب رکن ہے۔ ماضی میں کنکریاں مارنے کے دوران متعدد مرتبہ بھگدڑ مچتی رہی جس کے سبب بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ شیطان کو چند کنکر یاں مارنے پر ہی بات ختم نہیں ہو جاتی، حج کے دوران تین دن تک یہ عمل دہرایا جاتا ہے اور اس عمل کو دہرانے والا ہر حاجی عہد کرتا ہے کہ آئندہ زندگی میں‘ کسی بھی صورت میں‘ کسی بھی وقت‘ کسی بھی راہ پر سامنے آنے والے شیطان کو وہ اسی طرح ختم کرے گا۔ شیطان کو تاک تاک کر کنکریاں مارتے ہوئے ہر حاجی کو دل میں اس بات کا پکا ارادہ کرنا ہوتا ہے کہ شیطان کو کنکری مارنا دراصل ایک علامت ہے اور اپنی عملی میں شیطان کو مارنا‘ اس سے دور بھاگنا‘ اس کو جھٹلانا اور اس کو شکست دینا ہی اب اس کی زندگی کا اولین مقصد ہو گا۔ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے یہ عہد بھی کیا جاتا ہے کہ اب میں شیطان کے دعوے کو باطل ثابت کر کے دکھائوں گا‘ اس کے ہر ارادے کو ناکام بنا کر ثابت کروں گا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور شیطان میرا کھلا دشمن ہے‘ میں اس سے نفرت کروں گا اور اپنے کسی بھی عمل سے‘ کسی بھی بات سے شیطان کے ایجنڈے کی تقویت کا باعث نہیں بنوں گا۔ یہی عہد حج کے اس عظیم رکن کی اصل روح اور اساس ہے۔
اب ذرا اپنے معاشرے پر نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ کیا عملی طور پر ایسا ہوتا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو اب تک نجانے کتنے کروڑ افراد حج کی سعادت حاصل کر چکے ہوں گے۔ کروڑوں مسلمانوں نے شیطان کو کنکریاں ماری ہوں گی‘ ان میں سے لاکھوں‘ کروڑوں کی تعداد میں ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے کئی کئی مرتبہ حج کی سعادت سے فیض یابی حاصل کی ہو گی اور انہوں نے ہر بار شیطان کو یہ سوچ کر کنکریاں ماری ہوں گی کہ اب وہ سب سے بڑے شیطان یعنی اپنے نفس کو بھی شکست دیں گے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں یہ خیال کیوں نہ کیا جائے کہ انہوں نے شیطان کے ورغلانے کے ہر سحر اور ہر حربے کو ناکام بنا دیا ہو گا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہمیں عملاً ایسی کوئی مثال کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں‘ اپنے معاشرے میں‘ اپنے اردگرد ایسے افراد پہ نظرڈالیں اور جائزہ لیں تو کیا ہم اطمینان سے اور فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ شیطان کو کنکریاں مار کر آنے والوں نے شیطنیت کو شکست دے دی ہے؟ ان کے ہاتھوں سے‘ ان کے اعمال سے ان کے پڑوسی محفوظ ہو گئے ہیں۔ کسی بھی غرض سے ان کے پاس آنے والے لوگ‘ ان سے کسی بھی قسم کا کاروبار کرنے والے‘ ان کے پاس گاہک یا سائل بن کر آنے والوں سے یہ لوگ قاعدے و ضابطے اور قرآن میں دیے گئے سبق اور رسول خداﷺ کی سنت اور تعلیمات کے مطابق سلوک کرتے ہیں؟
بات صرف فریضہ حج ادا یا پنج وقتہ نماز اد اکرنے والوں کے لیے ہی نہیں ہے۔ شیطان کو کنکریاں مارنے والوں سمیت ہر مسلمان کو بلاتفریق یہ حکم ہے کہ تم نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے لیکن ہوا یہ کہ ہر ایک نے اپنی اپنی رسی بنا کر اسے ہی مضبوطی سے تھام لیا اور وہ رسی جو ہمیں محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفیﷺ نے تھمائی تھی‘ اسے چھونے سے احتراز برتنا شروع کر دیا۔قصص الانبیاء پڑھ کر دیکھ لیں‘ تاریخ کی کتابیں کھنگال لیں‘ ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملے گا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کسی نبی کی امت نے اپنے نبی کے وصال کے بعد اس کی آل اولاد کے ساتھ وہ سلوک کیا ہو جو اس امت نے کیا۔ کوئی لاکھ انکار کرے مگر یہ تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے‘ وہ تلخ حقیقت ہے‘ وہ روح فرسا واقعات ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت امام حسینؓ کے جد امجد تھے اور جب انہیں اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ملا تو تاریخ شاہد ہے کہ اللہ کے خلیل کا رتبہ پانے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری پھیرنے سے پہلے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی کہ کہیں بیٹے کی محبت خدا کے حکم کی تعمیل میں حائل نہ ہو جائے۔ خلیل اﷲ کے پوتے سیدنا حسینؓ نے اسی قربانی کی تکمیل کربلا میں 61ھ کو عاشورہ کے روز کی تھی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے اٹھارہ سال کے کڑیل جوان بیٹے کے سینے میں گھونپی گئی برچھی کونکالتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے میرے خالق! میرے اس بیٹے کی تیری راہ میں دی جانے والی یہ قربانی قبول فرما۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ
جو کچھ سویڈن میں ہوا‘ ہر مسلمان کا دل اس پر چھلنی ہے۔ 28جون کو جب سعودی عرب سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں عیدالاضحی منائی جا رہی تھی‘ سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ملعون شخص نے اس مذموم عمل کے لیے مقامی عدالت سے باقاعدہ اجازت حاصل کی تھی اور دارالحکومت سٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے باہر اس مذموم منصوبے کو عملی شکل دی۔ سویڈن میں غالباً چوتھی مرتبہ ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی مسلم ممالک نے احتجاجاً سویڈن سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کے بعد بھی محض عالمی برادری سے ایسے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو مذہبی منافرت کو روکیں۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک اس دلخراش واقعے کی زبانی مذمت پر اکفا کیے ہوئے ہیں۔ آج ہر طرف امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سب کچھ ہونے کے باوجود انہیں در بدر جھکتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ جب تک ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں پکڑیں گے‘ کبھی یکجان ہو کر ایک روح اور ایک دوسرے کے بھائی نہیں بن سکتے۔ اپنی اپنی رسیاں بنا کر انہیں ہم ایک دوسرے کی گردنوں کے گرد جکڑ تو سکتے ہیں مگر کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے۔ ان حالات میں ہم ایک دوسرے سے ہی برسر پیکار رہیں گے۔ ایک دوسرے کو ماریں گے بھی اور دوسروں سے ماریں کھائیں گے بھی۔ اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ ہم سب کمزور ہو چکے ہیں۔ ظاہری نمود و نمائش اور دولت کی فراوانی کے باوجود اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ مسلم دنیا کو آپس میں الجھا کر بھلا فائدہ کون لے رہا ہے؟ ان کو استعمال کون کر رہا ہے؟ یہ وہ ہیں جو اپنی اپنی رسی تھامنے والوں کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں‘ ان کے خزانوں سے استفادہ کر رہے ہیں اور انہیں کمزور سے کمزور تر بنا رہے ہیں۔ انہوں نے ہی ہمارے ہاتھوں میں جھوٹ اور تفرقے کی رسیاں تھما رکھی ہیں۔ اگر کبھی غور سے ہم نے ان رسیوں کی جانب دیکھنا شروع کر دیا تو ان رسیوں پر اپنے حقیقی دشمنوں کی انگلیوں کے نشانات صاف دکھائی دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں