عیدِ قربان کے دوسرے روز گورنر ہائوس لاہور میں بلائی گئی پریس کانفرنس میں بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ اس کے آخر میں ملکی سکیورٹی معاملات بارے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے فرمایا ''جب ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے میں آگ ہو تو پھر‘‘۔ یہ مختصر اور نامکمل لیکن سمجھنے والوں کیلئے جامع جواب کیا دبئی میں تیار کیے گئے میثاقِ معیشت کی روشنی میں دیا گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان اور اس کے عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے حکومتی وزرا کے دبئی کے سفر اور آئی ایم ایف سے لٹکے ہوئے معاہدے کی یکدم منظوری کی وجہ بھی میثاقِ معیشت کی اسی قسم کی کوئی تحریری یقین دہانی بنی ہو اور وہ بھی صرف 9ماہ تک تاکہ نو ماہ بعد جب انتخابات ہوں اور ملک دشمن عناصر اپنے من پسند کھیل کیلئے مرضی کی وکٹ اور اپنے امپائرز تیار کر لیں تو میثاقِ معیشت کے خفیہ ایجنڈے کی جانب سفر شروع ہو سکے۔ اس وقت تک ان کے رستے کی وہ رکاوٹ بھی‘ جو ان کے مذموم مقاصد کی راہ میں حائل ہے‘ دور ہو چکی ہو گی۔
جون کے آخر میں پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے درمیان تین ارب ڈالر کا جو سٹاف لیول سٹینڈ بائی معاہدہ طے پایا ہے‘ ابھی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے اس معاہدے کی منظوری باقی ہے۔اس معاہدے کی منظوری رواں ماہ کے وسط میں دیے جانے کا امکان ہے لیکن اس منظوری سے قبل آئی ایم ایف کا وفد ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ حکومتی تبدیلی کی صورت میں بھی یہ معاہدہ طے شدہ شرائط کے مطابق پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے۔ یہ سٹینڈ بائی معاہدہ ملک کی حالیہ بیرونی دباؤ کی شکار معیشت کو استحکام کی طرف لے جانے میں مدد دے گا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اگر ہم اس معاہدے کے ملکی معاشی حالات پر اثرات کی بات کریں تو اس معاہدے سے درآمدات میں ہوشربا اضافہ متوقع ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی طرف سے حکومت کی جانب سے درآمدات پر عائد پابندی ہٹانے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔ یہ پابندی زرِ مبادلہ کے کم ترین ذخائر کے پیش نظر لگائی گئی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے نئے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے پر پابندیوں کے سبب چین سے سولر پینلز اور انورٹرز کی گزشتہ مالی سال 2023ء کے دوران درآمدات صرف ایک ارب ڈالر رہیں‘ جو مالی سال 2022ء کے دوران 2.4 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔ دیگر درآمدی شعبے بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار رہے۔ چینی درآمدات میں کمی کے اثرات چین کو پاکستان کی برآمدات میں کمی کی صورت میں سامنے آئے۔ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی گیارہ مہینوں کے دوران چین کو پاکستانی برآمدات میں 26فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی۔ جب آپ کسی ملک کی پروڈکٹ نہیں خریدیں گے‘ اس کی درآمدات پرپابندی لگائیں گے تو وہ آپ کی پروڈکٹ کیونکر خریدے گا۔ ایسے تو معیشت کو استحکام کی راہ پر گامزن نہیں کیا جا سکتا۔ اب درآمدات پر پابندی ہٹانے سے کاروباری سرگرمیوں میں بہتری تو آئے گی لیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھے گا‘ مہنگائی بھی زیادہ ہو گی کیونکہ آئی ایم ایف نے مالیاتی پیکیج کی بحالی کیلئے جو شرائط عائد کی ہیں وہ براہِ راست عام آدمی کو ہی متاثر کریں گی۔ درآمدات میں اضافہ پھر سے ڈالر بحران پیدا کرے گا۔ ڈالر کی قدر کو پھر سے پر لگ جائیں گے اور حکومت‘ جو پیر کے روز ڈالر کی قدر میں دس روپے کمی کے بعد شیخیاں بھگار رہی ہے پھر سے منہ چھپاتی پھرے گی۔ دوسری طرف اگر آئی ایم ایف کے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا تو بھی یہ معاہدہ نقصان کا باعث بنے گا۔ ایک طرف آئی ایم ایف آئندہ ہمیں کوئی قرضہ نہیں دے گا اور دوسری طرف دیگر عالمی مالیاتی ادارے حتیٰ کہ دوست ممالک بھی ہماری مدد سے ہچکچائیں گے جس سے ملک کے ڈیفالٹ کرنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت بالخصوص وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے وزرا آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی معاہدے کے بعد پھولے نہیں سما رہے کہ جیسے ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کر دیا ہو۔ اسی آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے ملک میں شرح سود نہ صرف ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی سب سے زیادہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے 2013ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد بھی ملک کیلئے لیے گئے قرضوں پر شرحِ سود جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے زیا دہ رکھی تھی۔ پہلے سے جو سود بیرونی قرضوں پر ادا کیا جا رہا ہے‘ اسے بڑھا کر کس کی خدمت کی گئی ہے؟ شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے جمع شدہ ٹیکسوں کا بہت بڑا حصہ صرف سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ کار بھی اپنے کاروبار کو پھیلانے سے پیچھے ہٹتا ہے کیونکہ اتنے زیادہ شرح سود کے ساتھ وہ بینکوں کا رُخ ہی نہیں کرتا۔ یہ عوامل بھی حکومتی توجہ کے متقاضی ہیں۔
ادھر ملک کے کسی ایک نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں کی عادت بن چکی ہے کہ وہ ببانگِ دہل ملکی اور غیرملکی میڈیا کے سامنے ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے ملک کا قومی تشخص اور قومی غیرت متاثر ہوتی ہے۔ جب بھارتی جاسوس اور پاکستان میں دہشت گردی کے سرخیل کلبھوشن یادیو کا مقدمہ عالمی عدالت میں پیش ہونے جا رہا تھا تو ہمارے سیاستدانوں کی طرف سے کہا گیا کہ 26/11 کو ممبئی میں دہشت گردی میں ملوث شدت پسندوں کا تعلق پاکستان سے تھا جس پر بھارت میں پاکستان مخالف بیانوں کا ایک طوفان اٹھ گیا۔ تبھی کسی نیک خاتون نے ٹویٹر پر یہ کہہ کر پاکستان پر لگنے والے دہشت گردی کے لیبل کو ہٹانے کی کوشش کی کہ ایسے ہی لوگ پاکستان میں آرمی پبلک سکول پر حملوں کے ذمہ دار بھی ہیں۔ کیا کوئی بھی غیرت مند اور ایسا پاکستانی جس کے آباؤ اجداد نے آزاد وطن کے حصول کیلئے اپنی مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیاں دی ہوں‘ جن کے جوان بچے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہوں‘ وہ اپنے پاک وطن کی حمیت اور غیرت پر اس قسم کا سمجھوتہ کر سکتا ہے؟ کیا عوام کو ایسے بیانات سن کر اور پڑھ کر خاموش رہنا چاہیے؟ کیا یہی قومی غیرت کہلاتی ہے؟ کیا یہی وطن سے عشق کا معیار رہ گیا ہے؟ جنہیں پاک دھرتی کی عزت کا پاس نہیں‘ ایسے لوگ کبھی بھی وطن کے وفادار نہیں ہو سکتے۔
آج محترمہ بے نظیر بھٹو اس دنیا میں موجود نہیں لیکن چونکہ ان کے افکار کو ان کے سیاسی اور خاندانی جانشین اپنی سیاست کیلئے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اس لیے ان کی سیاست پر بات کرنا معیوب نہیں ہو گا۔ کسی بھی ملک کے سیاستدان کیلئے اپنے ملک کا وقار اور اس کا قومی تشخص سب سے اہم ہوتا ہے اور وہ اقتدار میں ہو یا اقتدار سے باہر‘ ملک کا قومی تشخص اس کی اولین ترجیح ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدان ملکی وقار اور حمیت کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کے نتائج اس ملک کیلئے کیا ہوں گے۔ ملک کے اندر اور باہر موجود اس کے شہریوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ماضی میں ملکی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے ایسے کئی بیانات سامنے آچکے ہیں۔ انسانوں کی زندگی کی طرح قوموں کی زندگی میں بھی بحران اور تکالیف آتی رہتی ہیں لیکن غیرت مند اقوام کبھی اپنی عزت اور وقار کا سودا نہیں کرتیں اور ان تکالیف کا ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کر تی ہیں۔ ایک اہم سیاسی شخصیت‘ جو آج اس دنیا میں نہیں ہے لیکن بیرونی قرضوں اور مہنگائی کے خاتمے کیلئے ان کے خیالات پر مبنی تین ستمبر 1997ء کو دو قومی جریدوں میں شائع شدہ ان کا ریکارڈڈ انٹرویو آج بھی محفوظ ہے۔ اس پینل انٹر ویو میں انہوں نے بیرونی قرضوں اور مہنگائی کے خاتمے کا جو حل بتایا تھا وہ آزاد اور خود مختار پاکستان کی موت کے برابر تھا۔ ان کے نزدیک ان مسائل کا حل اسرائیل کو تسلیم کرنا اور اپنے قیمتی اثاثے بیرونی قوتوں نگرانی میں دینا تھا جو بہرصورت قابلِ عمل اور قابلِ قبول نہیں تھا۔موجودہ آئی ایم ایف معاہدے کے پیچھے بھی تو کوئی ایسی سوچ کارفرما نہیں؟جو طاقتیں اس ملک کی عظمت اور حرمت کیلئے ہمہ وقت اپنی جانیں ہتھیلی پر لیے ہوتی ہیں‘ انہیں محتاط رہنا ہو گا۔