دنیا بھر میں زرعی انقلاب لانے اور انسانوں سمیت حیوانوں اور پرندوں کے لیے وافر اناج اگانے کے لیے نہریں ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتی ہیں۔ ایک‘ ایک نہر لاکھوں ٹن اناج اگانے اور روزگار کے لاتعداد مواقع فراہم کرنے کی ضمانت ہوتی ہے لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ان نہروں کا استعمال گھروں اور خاندانوں کی تکالیف اور بھوک اور فاقوں سے روتے بلکتے بچوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے گردن میں پھندا ڈال کر پنکھے سے لٹک کر خود کشی کرنے کا رواج تھا‘ پھر زہر کا استعمال بڑھا لیکن جب سے مہنگائی کی شرح آسمان کو چھونا شروع ہوئی ہے‘ غربت اور افلاس کی دلدل میں دھنسے ہوئے گھرانوں میں ایک ہی پنکھا چلایا جاتا ہے‘ اس لیے سب کے سامنے پنکھے سے لٹکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، جبکہ اب زہر بھی خاصا مہنگا ہو چکا ہے‘ لہٰذا یہ طریقہ بھی قابلِ استعمال نہیں رہا، اس لیے اب فاقہ کش بیماری سے لڑتے لڑتے تھک ہار کر گھر کا ہر سامان بیچ چکنے کے بعد اپنی تمام مصیبتوں کا علاج ڈھونڈنے کے لیے گہری نہروں‘ جو لگ بھگ ہر شہر اور قصبے کے قریب سے گزرتی ہیں‘ میں چھلانگ لگانے کا طریقہ سب سے آسان سمجھتے ہیں۔ اب یہ طریقہ مہنگائی کی رفتار کی طرح تیری سے بڑھتا جا رہا ہے۔
کوئی ایک ایسا دن نہیں گزرتا جب مجبوریوں اور فاقوں سے ادھڑے ہوئے جسم نہروں میں اپنے دکھوں سمیت غرق نہیں ہوتے۔ چند روز قبل پاکپتن نہر کے اردگرد شام کے وقت ایک مجمع لگا ہوا تھا۔ جانثار ریسکیو اہلکار نہر کے پل پر کھڑے ایک برقع پوش لڑکی کو نہر میں کودنے سے روکنے کی کوششیں کر رہے تھے مگر اچانک لڑکی نے خود کو ختم کرنے کے لیے تیز بہائو والی گہری نہر میں چھلانگ لگا دی۔ دو ریسکیو اہلکاروں بھی اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے فوراً نہر میں چھلانگ لگا دی اور کچھ تگ و دو کے بعد اس لڑکی کو بچا لیا گیا۔ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اس لڑکی نے فاقوں اور غربت سے تنگ آ کر خود کو ختم کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو اس لڑکی کی چھلانگ ہمارے معاشرے اور طرزِ حکمرانی کو ہر روز‘ بلاناغہ لگنے والے طمانچوں میں سے ایک طمانچہ ہے جس کی شدت اور گونج تو دور دور تک سنائی دیتی ہے لیکن جب ضمیر مردہ ہو جائیں‘ جب احساس ختم ہو جائے‘ جب حکمرانی ظلم و جبر کے ریکارڈ توڑنے میں لگ جائے‘ جب طاقت کا استعمال آئین و قانون پر غالب آ جائے تو پھر یہ طمانچے حکمران طبقات کو محسوس بھی نہیں ہوتے بلکہ شاید پھر یہ ان کے لیے کسی نشے کی سی صورت اختیار کر لیتے ہیں جن کے بغیر انہیں چین نہیں پڑتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایسا اقدام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے عوام مزید مشکلات و تکالیف اور مصائب کا شکار ہوں۔ اسی نہر میں چند ماہ قبل بھی ایک خاتون نے اپنے شیر خوار بچے سمیت چھلانگ لگائی تھی جبکہ گزشتہ ماہ بھی ایک خاتون نے اس نہر میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی تھی۔
سیلابی لہروں کی طرح بے بس قوم پر حکومتی بے اعتنائی کے برستے کوڑے ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ لگتا ہے کہ ماضی کے سبھی ریکارڈ توڑکر ہی دم لیا جائے گا۔ کہنے کو ہم آج بھی زندہ قوم ہیں مگر اس قوم میں زندگی کی کوئی رمق دکھائی نہیں دیتی۔ سچ پوچھئے تو یہ اب اس حد تک بے حس و حرکت ہو چکی ہے کہ آئے دن سیاسی غاصب اس کے منہ کا نوالہ چھینتے جا رہے ہیں اور یہ چپ چاپ تماشا دیکھتی جاتی ہے۔ تھوڑی دیر تک بڑبڑانے کے بعد کسی کو کچھ یاد ہی نہیں رہتا کہ صحت، تعلیم اور روزگار کے نام پر مختص بجٹ کون چٹ کر گیا؟ اگر گزشتہ پچھتر برسوں کی بات کی جائے تو ہمارے سامنے ہے کہ جو جو لوگ اس قوم کی رہنمائی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں ان کا اپنا بیک گرائونڈ کیا تھا۔ معمولی معمولی گھروں سے اٹھ کر ارب‘ کھرب پتی بن جانے کی تمام داستانیں پوی قوم کو ازبر ہیں۔ یہی وہ جونکیں ہیں جنہوں نے پوری قوم کی گردنوں میں اس طرح اپنے دانت گاڑ رکھے ہیں کہ ان کے اثاثے کھٹملوں کی افزائش کی طرح بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ خود وہ اور ان کی نسلیں کئی کئی ملکوں کی شہریت جیب میں ڈالے پوری دنیا گھوم رہی ہیں اور جب ان کا دل چاہتا ہے‘ تاجِ برطانیہ کی طرح ہم پر اپنا حق حکمرانی جتانے کے لیے ہمارے وطن پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ سب نے دیکھا کہ کیسے پورا پنجاب اور کے پی آٹے کے دس کلو تھیلے کے لیے سڑکوں پر نکل آیا اور کیسے بدنظمی سے درجنوں افراد پائوں تلے آ کر کچلے گئے۔ پاکپتن کی اُس خاتون کو تو بچا لیا گیا لیکن اب تک ہزاروں بچوں کو ان کے والدین اپنے ہاتھوں سے نہروں کے گہرے پانیوں میں پھینک کر غرق کر چکے ہیں۔ روٹی مانگنے کے جرم میں لاکھوں غریبوں کے ارمان ذبح ہو چکے ہیں۔ وہ بھی تو بچے ہی ہیں جو لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کے پوش علاقوں کے مہنگے ترین ریستورانوں میں پیزے اور برگر کھا رہے ہیں اور ایک طرف یہ خاتون جو اپنے معذور باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کرگھر سے نہر میں کودنے کے لیے نکل پڑی تھی۔
کچھ عرصہ قبل میانوالی کے ایک گائوں میں گھر میں آٹا نہ ہونے پر غریب اسد اللہ نے بھوک سے بلکتے ارشاد اور ارمان کو چھری سے ذبح کر دیا تھا۔ بہاولپور کے ایک گائوں میں باپ نے اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد جب بچوں کو دفنانے کا معاملہ آیا تو وہ گھر جہاں آٹا تک نہیں تھا‘ وہاں کفن دفن کا انتظام کیسے ہوتا۔ غربت‘ محرومی اور افلاس و بھوک نے ہی تو ان بچوں کو قتل کیا تھا۔ ایسے میں کسی فقیر نے آواز لگائی کہ غریب کا کوئی قبرستان‘ کوئی وطن‘ کوئی گھر نہیں ہوتا۔ جہاں جگہ ملے‘ اسے وہیں دبا دو‘ وہی اس کا وطن ہے‘ وہی اس کا گھر ہے‘ وہی اس کا قبرستان ہو گا۔
وہ لوگ جو دوسرے کے آنسوئوں کو اپنے آنسو نہیں سمجھتے‘ مت بھولیں کہ وقت ان کے قہقہوں میں بھی دوسروں کے قہقہے شامل نہیں ہونے دیتا۔ وہ ایک دن ساری دنیا سے بچھڑ کر رہ جاتے ہیں اور ان کا غم بھی پھر 'تنہا‘ ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے کسی نے پاکپتن کی غریب لڑکی‘ ارشاد اور ارمان کے ماں باپ کے آنسو نہیں دیکھے ہوں گے۔ انہوں نے یقینا اپنے آس پاس‘ اپنے محلے میں‘ کسی صاحبِ ثروت کے سامنے ایک پل کے لیے ہاتھ پھیلایا ہو گا۔ یہ جو ہر روز نہروں میں چھلانگ لگا کر اور زہر کی پڑیوں میں عافیت ڈھونڈ رہے ہیں‘ کیا یہ ہم سب سے پوشیدہ ہیں؟ یہ کسی غار میں تو چھپ کر نہیں رہتے‘ کیا کبھی ان کے دائیں بائیں‘ آگے پیچھے رہنے والے کسی انسان کو ان کے رونے یا فریاد کرنے کی آوازیں سنائی نہ دی ہوں گی؟ ہم اگر خود کچھ نہیں کر سکتے‘ تو اپنی ایک وقت کی آدھی روٹی اپنے آگے سے اٹھا کر تو ان کو دے ہی سکتے ہیں ۔ ان کے لیے آواز اٹھانے میں شرم کیسی؟ بس نیت صاف رکھیں اور باقی خدا پر چھوڑ دیں۔ مجھے جب بھی کسی بے بس‘ مجبور اور فاقہ کش کی خبر ملتی ہے تو یہ سوچ ایک طرف رکھ دیتا ہوں کہ سننے والا کیا کہے گا؟ میرے بارے میں کیا سوچے گا؟ میں اپنے خدا کو گواہ بنا کر دستِ سوال دراز کرتا ہوں‘ اور شکر ہے رب کریم کا کہ اس نے کبھی میرا دست سوال خالی نہیں لوٹایا۔ چند روز ہوئے ایک لاوارث خاتون جب پتّے میں پتھریوں کی وجہ سے درد سے تڑپ رہی تھی تو جلدی میں اسے نجی کلینک لے جایا گیا، اس کا آپریشن کر کے پتے سے26 پتھریاں نکالی گئیں جو اس ہسپتال کے ریکارڈ میں اس کی فائل کے ساتھ موجود ہیں۔ جس نے بن دیکھے محض ایک آواز پر اس خاتون کی زندگی بچائی‘ درد سے چیختی خدا کی اس مخلوق کو سکون اور آرام دیا‘ اس کا اجر رب کریم کے پاس محفوظ ہو چکا ہو گا۔ اپنے اردگرد دیکھتے رہا کریں کیونکہ کل جب ہم اپنے پرودگار کے سامنے پیش کیے جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اسی سبب ہماری طرف نظرِ کرم کر لے کہ ہم اس کی مخلوق کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔
غریب، مفلس، بیوہ، یتیم، نادار، بے یار و مدد گار، بیمار اور اپاہج کا حق مارنے والے اور سب کچھ ہوتے ہوئے ان کی مدد سے بھاگنے والوں کے سامنے جب حقیقت کھلے گی، جب انہیں اپنا انجام نظر آئے گا تب وہ اپنی ساری جمع پونجی خرچ کرنے کو تیار ہو جائیں گے مگر افسوس کہ اس وقت ان کی مہلت ختم ہو چکی ہو گی، تب ان کی فریادیں سننے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔