"MABC" (space) message & send to 7575

ریکو ڈک کی راہ میں رخنہ ڈالنے والے

جولائی 2019ء میں عالمی بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس نے ریکوڈک ہرجانہ کیس میں پاکستان پر تقریباً 6ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ فیصلے کے مطابق پاکستان کو ہر جانے کی یہ رقم چلی اور کینیڈا کی مائننگ کمپنی ٹیتھیان کو ادا کرنا تھی۔ یاد رہے ٹیتھیان کمپنی کو 1993ء میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا لیکن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 2011ء میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے لیے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو دیا جانے والا لائسنس منسوخ کرکے پروجیکٹ کالعدم قرار دے دیا گیا۔ کمپنی نے اس فیصلے کے خلاف عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل سے رجوع کیا تھا اور پاکستان سے 16ارب ڈالر ہرجانہ وصول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔پاکستان نے اکسڈ کے اس فیصلے کے خلاف نومبر 2019ء میں اپیل داخل کی جس پر جرمانے کی ادائیگی کے خلاف عبوری حکم امتناع جاری ہوا۔اس عبوری حکم امتناع کو مستقل کرنے کے لیے پاکستان کی اپیل پر 20 اپریل 2020ء کو وڈیو لنک کے ذریعے سماعت ہوئی اور 16ستمبر 2020ء کو اکسڈ نے پاکستان کے حق میں مستقل حکم امتناع جاری کرنے کا فیصلہ دیا۔یہ حکم امتناع پاکستان کے لیے بہت بڑا ریلیف تھا کیونکہ اکسڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف 6 ارب ڈالر جرمانے کی رقم آئی ایم ایف کے پاکستان کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کے مساوی تھی۔ایک طرف 6 ارب ڈالر جرمانہ نے ہوش مند اور درد مند پاکستانیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن دوسری طرف اس ملک کی بیشتر آبادی اس سنگین صورتحال سے بے خبر تھی۔ سمجھ لیجئے کہ انہیں اس مسئلے سے کوئی غرض نہیں تھی۔ لیکن اگر یہ چھ ارب ڈالر پاکستان کو ادا کرنا پڑتے تو اس ملک اور عوام پر کیا گزرنا تھی‘ اس گمبھیر صورتحال کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے ایک سال تک جس طرح جوتے گھسائے گئے ‘ جس طرح منت ترلے کیے گئے ‘ یہ ذلت ہی سب کچھ بتانے کے لیے کافی ہے۔ شکر کریں کہ اُس وقت کی حکومت نے کمال مہارت اور اچھی سفارتکاری نے ملک کو اس مشکل صورتحال سے نکال لیا‘ لیکن آج قوم ان خدمات کو بھلا چکی ہے۔ کاش کہ ایک ایسا اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بھی وجود میں آئے جو 1993ء سے اب تک ریکوڈک پراجیکٹ کی راہ میں رخنہ ڈالنے والوں‘ اس کے تمام کنٹریکٹ منسوخ کرانے والوں اور ذاتی مفادات کے لیے اس قومی منصوبے کو التوا میں ڈالنے والوں کے خلاف نہ صرف شفاف تحقیق کرے بلکہ اس کی سفارشات پر ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں آ سکے۔ ملکی معیشت کو زک پہنچانے والے ایسے ہی عناصر کی وجہ سے آج ملک کی ہر سڑک اور ہر ادارہعالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھوانا پڑ رہاہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ریکوڈک بارے بتایا گیا کہ یہ منصوبہ130ارب ڈالر تک کے سونے اور کاپر کے ذخائر اپنے اندر سمائے ہوئے ہے تو بدحال قوم نے مستقبل کے سہانے خواب دیکھنا شروع کر دیے لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا‘ کس آسیب کا سایہ اس وطن عزیز کی قسمت پر پڑا کہ وہ تمام منصوبے‘ وہ تمام خواب کسی گہری کھائی میں پھینک دیے گئے۔ دنیا نیوز نے 30جون 2014ء کو یہ خبر دیتے ہوئے آنکھیں کھول دیں تھیں کہ ارسلان افتخار چوہدری کو بلوچستان کے سونے کی رکھوالی بھی سونپ دی گئی ہے اور یہ وہی سونے کی کانیں ہیں جن کے مختلف کمپنیوں کو دیے جانے والے حکومتی کنٹریکٹ افتخار چوہدری نے بحیثیت چیف جسٹس سو موٹو لیتے ہوئے منسوخ کر دیے تھے۔
افتخار چوہدری کا سوموٹو نیویارک میں پاکستان کی پہچان روز ویلٹ ہوٹل‘ فرانس میں ایک ہوٹل اور ورجن آئی لینڈ میں پی آئی اے کے چالیس فیصد شیئرز ضبط کرا چکا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سمیت کچھ یورپی ممالک میں ہمارے سفارت خانوں کی عمارتیں بھی اس دور کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ کر ضبط کی جا چکی ہیں۔آسڑیلوی کمپنی نے ریکو ڈک کنٹریکٹ کی افتخار چوہدری کے حکم سے ہونے والی منسوخی کے بعد ریاستِ پاکستان کے خلاف معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر عالمی عدالت میں درخواست دائر کر دی اور دسمبر 2020ء میں آسٹریلوی کمپنی کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے عالمی عدالت نے پاکستان پر چھ بلین ڈالر جرمانہ عائد کر دیا اور اس کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر پاکستان کے اثاثے ضبط کرا دیے۔ واضح رہے کہ یہ جرمانہ آئی سی ایس آئی ڈی کے ذریعے جاری کیا جانے والا اب تک کا دوسرا سب سے بڑا جرمانہ ہے اور یہ پاکستان کی سالانہ مجموعی ملکی پیداوار کا 2 فیصد اور مجموعی لیکویڈ فارن ایکسچینج کا 40 فیصد ہے۔ یہ ہے تیزاب کا وہ چھینٹا جس نے پاکستان کے پہلے سے کمزور اور بیمار جسم کو جگہ جگہ سے جلا کر رکھ دیا۔
تیزاب کا دوسرا بڑا چھینٹا پاکستان سٹیل مل کراچی کی تباہی کی صورت میں اس وطن عزیز کے جسم کو اس طرح جھلسا گیا کہ اس سے وابستہ ملازمین اور کاروباری حضرات کے ہزاروں خاندان اور لاکھوں لوگوں کا وسیلہ روزگار تار تار کر گیا۔سٹیل مل کا قصہ یہ ہے کہ مئی 2006ء میں ایک عرب ملک کے ایک بہت بڑے صنعتی گروپ نے پاکستان سٹیل مل کے 75 فیصد حصص کی نجکاری کیلئے 362 ملین ڈالر کی سب سے زیادہ بولی لگاتے ہوئے 21.6 ملین ڈالر حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیے‘ اس طرح کراچی سٹیل مل کی زمین کے بغیر سٹیل مل کراچی کو 13 ملین ڈالر منافع پر بیچنے کی تیاریاں کر لی گئیں۔ اس صنعتی گروپ‘ جو کراچی سٹیل مل کے حصص خرید رہا تھا‘ نے روس کے ساتھ بھی ایک معاہد ہ کیا کہ وہ پاکستان میں ایک نئی سٹیل مل لگائے گا‘ اس سلسلے میں روسی کمپنی کے لوگ کراچی میں آ گئے اور اس گروپ نے نئی سٹیل مل کیلئے بھی ملکی بینکوں میں کروڑوں ڈالر جمع کرا دیے لیکن جیسے ہی افتخار چوہدری نے سٹیل مل کی نجکاری کے خلاف فیصلہ سنایا تو اگلے ہی لمحے اس صنعتی گروپ نے اپنی تمام جمع پونجی پاکستانی بینکوں سے نکال لی۔ صدر مشرف نے اس گروپ کے چیئرمین کو ذاتی طور پر کئی فون کئے کہ ہم ریویو پٹیشن سے معاملات سلجھا رہے ہیں لیکن اس کا کہنا تھا: جنرل صاحب اب گیم آپ کے ہاتھ نکلنے والی ہے‘ آپ اپنا بچائو کیجئے۔
وہ سٹیل مل جسے 360 ملین ڈالر میں فروخت کیا جا رہا تھا‘ کو ایک میڈیا ہائوس اور افتخار چودھری کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہ کہہ کر جہنم میں جھونک دیا گیا کہ جس قیمت میں یہ سٹیل مل بیچی جا رہی ہے‘ اس سے زیادہ تو اس زمین کی قیمت ہے۔پس پردہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ روس ایک نئی سٹیل مل کی تنصیب کیلئے مذکورہ صنعتی گروپ کی معاونت کرنے کیلئے اپنے فنی ماہرین پاکستان بھیجے۔ 2006ء سے اب تک پاکستان سٹیل مل کس قدر نقصان میں گئی‘ کتنے کھرب روپے اس بند سٹیل مل کے اخراجات اور اس کے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں پر خرچ ہوئے‘ ان سب کا حساب کون لے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں