دانشور اشفاق احمد اکثر فرمایا کرتے تھے ''کبھی غور سے دیکھنا‘ جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو سائے بڑے ہونے لگتے ہیں‘‘۔ جب بھی ان کی یہ باتیں سنتے تو ہمیں اپنا بچپن یاد آ جاتا جب گائو ں میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کود کے بعد گھروں کو واپس لوٹتے ہوئے اپنے سایوں کو خود سے بڑا دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے اس پر با قاعدہ مقابلہ بازی ہوتی تھی کہ کس کا سایہ سب سے بڑا ہوتا ہے لیکن اسے نادانی اور بچپن کہہ لیجئے یا خود ستائی سمجھ لیں‘ یہ سمجھ ہی نہیں تھی کہ سایوں کا لمبا ہونا سورج کے غروب ہونے کی نشانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سورج عین نصف النہار پر ہوتا ہے تو انسان کا سایہ سرے سے غائب ہو جاتا ہے۔ پھر ذرا دوپہر ڈھلے ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جب انسان کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جاتا ہے مگر سورج مسلسل زوال پذیر ہوتا ہے۔ جیسے جیسے سورج مغرب کا رخ کرتا جاتا ہے‘ سایہ قد سے بڑھنا شروع کر دیتا ہے اور کچھ لوگوں کے لیے یہ بڑے سایے کھیل تماشے کا سبب بن جاتے ہیں حالانکہ وہ سورج جو غروب ہو رہا ہے‘ وہ تو اس کا عارضی زوال ہوتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اس نے اگلے دن پھر طلوع ہوکر چاروں جانب اپنی روشنی بکھیرتے ہوئے نباتات و حیوانات کو زندگی بخشنی ہے۔ جو اس کے غروب ہونے کی خوشی میں اپنے بڑھتے سائے سے سینہ پھلاتے ہیں‘ وہ عارضی اور ناپائیدار خوشی کا شکار ہوتے ہیں۔ طلوع ہونے والے اگلے دن کے سورج نے بڑھے ہوئے مصنوعی سایوں کو پھر سے مختصر کر دینا ہوتا ہے۔ اگر اس سے سبق لینا چاہیں تو جان لیجئے کہ سوائے رب ذوالجلال کی ذاتِ اقدس کو‘ کسی کو اس دنیا میں ثبات نہیں ہے۔بچپن اور لڑکپن کی حدوں سے نکل کر جب پختہ عمر کو پہنچے تو بابا جی اشفاق احمد کی ان باتوں کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی کہ انہوں نے یہ بات کس پیرائے میں کی تھی۔ سننے والوں کو یہ مثال دے کر وہ کیا سمجھانا چاہتے تھے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ درویش کی ایک پل کی صحبت انسان کو برسوں کی دانائی کا سبق دے جایا کرتی ہے۔ اُن کی کہی ہوئی اس بات کو آج بھی یاد کرتا ہوں تو ایسے ایسے سائے سامنے آ نا شروع ہو جاتے ہیں جوخود تو کچھ بھی نہ تھے لیکن غروبِ آفتاب اور ڈھلتی شام کے سایوں سے وہ سمجھ بیٹھے کہ اب قد کاٹھ میں ان جیسا کوئی نہیں۔ذوالفقار علی بھٹو اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی اچانک شہادت کی صورت میں غروب ہو جانے والے سورج نے نجانے کتنے ہی سایوں کے قد اس قدر بڑھا دیے کہ وہ اب اپنے قد میں ہی نہیں آ رہے۔
اگر کوئی پرانے اور استعمال شدہ کپڑوں کی دکان یا لنڈا بازار جیسی کسی مارکیٹ سے کسی بڑی شخصیت کی اترن پہن کر خود کو اس شخصیت جیسا سمجھنا شروع کر دے تو لوگ اس پرسوائے ہنسنے اور اس کا مذاق اڑانے کے اور کیا کرسکتے ہیں؟ فٹ بال کے عظیم کھلاڑیوں میسی اور رونالڈو جیسی شرٹ پہننے کے بعد آپ ان جیسے عالمی شہرت یافتہ فٹ بالر تو نہیں بن جاتے۔ اسی طرح اگر کوئی بندہ یہ سمجھ لے کہ وہ عمران خان یا جاوید میانداد کا بلا یا گیند پکڑ کر ان جیسی بیٹنگ اور بائولنگ کر سکتا ہے یا وہ سمجھے کہ خان صاحب کی وضع قطع کی کاپی کر کے کرکٹ کے میدان میں ان جیسی کپتانی کرسکتا ہے تو اس طرح کی سوچ رکھنے والوں پر کوئی پابندی تھوڑی لگا سکتا ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کسی چھوٹے سے بس سٹینڈ پر کھڑی خالی بس میں مسافروں کو اس طرح ورغلا کر بٹھایا جاتا ہے کہ انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ یہی بس سب سے پہلے اڈے سے نکلے گی‘ کئی مسافر اس جھانسے کا شکار ہو کر اس بس میں جا بیٹھتے ہیں مگر جیسے ہی وہ دیکھتے ہیں کہ بس سٹینڈ میں ابھی ابھی ایک اور بس داخل ہوئی ہے جو سواریوں سے بھری ہوئی ہے تو وہ فوراً اس بس سے اتر کر اس دوسری بس میں جا بیٹھتے ہیں اور یہ پہلے والی بس دوبارہ خالی ہو کر سواریوں کی راہ تکنے لگتی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کو گھر کی سجاوٹ اور شان و شوکت دکھانے کا بہت شوق ہوتا ہے اور اس کیلئے وہ مانگے تانگے کے سامان سے گھر کو بھر لیتے ہیں مگر اس مانگے تانگے سامان سے مہمانوں یا ملنے جلنے والوں کو کچھ دیر تک تو متاثر کیا جا سکتا ہے مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ چیزیں آپ کے پاس نہیں رہ سکتیں۔ ویسے بھی کچھ اشیا ایسی ہوتی ہیں جن کی شان بڑے گھروں اور کھلی جگہوں پر ہی نظر آتی ہے، اگر انہیں ایک چھوٹے یا درمیانے گھر میں رکھ دیں تو وہاں نہ صرف جگہ تنگ ہونے لگتی ہے بلکہ گھٹن کا بھی احساس ہونے لگتا ہے، ایسے میں گھر کا مالک خود ہی ان چیزوں سے جان چھرانے کی تدبیر کرنے لگتا ہے۔
کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے کہ میر ظفر اللہ جمالی کو پاکستان کا وزیراعظم بنانا اس قدر دشوار ہو گیا تھا کہ پیپلز پارٹی سے بڑے قد کاٹھ کے لوگوں کو 'ضمیر کی خلش‘ نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا روپ دے دیا، یہ سارا گروپ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے باوجود پرویز مشرف کے کیمپ میں چلا گیا اور اہم وزارتوں میں بھی حصہ دار بن گیا، مگر چار دن کی اس چاندنی کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟ کیا ان وزارتوں کے لمبے سایوں سے ان کے قد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بڑھ گئے؟ فیصل صالح حیات اور آفتاب شیر پائو سمیت بیس‘ بائیس ''قد آور‘‘ لوگوں کا وہ گروپ آج کدھر ہے؟ کیا زمانہ ان سب کو پھر سے نواز لیگ اور اُسی پیپلز پارٹی میں پناہ ڈھونڈتے نہیں دیکھ رہا؟ مسلم لیگ (ق) جو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے غروب ہوتے ہوئے سورج اور ڈھلتی شام میں اپنے قد سے باہر ہو چلی تھی‘ آج کدھر کھڑی ہے؟ وہ سائے جن کو دیکھ دیکھ کر چودھریوں اور ان کے ساتھیوں کے پائوں زمین پر ٹکنے کا نام نہیں لیتے تھے‘ آج دیکھ لیجئے کہ وہ اپنے سایوں کی تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھر رہے ہیں۔
پرویز خٹک نے نو مئی کے سانحے پر ضمیر کی خلش کے باعث تحریک انصاف سے راہیں جدا کر کے پی ٹی آئی پارلیمینٹیرین کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ اپنے ساتھ پی ٹی آئی کے تیس سے زائد سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی وہ اپنی نوزائیدہ جماعت میں لے گئے ہیں۔ پرویز خٹک جیسا گھاگ اور تجربہ کار سیاستدان کچی گولیاں تو نہیں کھیلا ہو گا۔ یقینا آئندہ کے سفر کیلئے ہر قسم کا ضروری سامان بھی مہیا کیا گیا ہو گا یا مکمل یقین دہانیاں کرا دی گئی ہوں گی کہ اس سفر میں ہر طرح سے خیال رکھا جائے گا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ پانچ برس تک کے پی میں بلاشرکت غیرے وزیراعلیٰ رہنے کی وجہ سے سایہ قد سے کافی بڑھ چکا ہو اور غروبِ آفتاب کے اس ممکنہ پس منظر میں اپنے لمبے ہوتے سائے نے انہیں اس احساسِ تفاخر سے دو چار کر دیا ہو کہ آگے کے سفر میں ان کی ذاتی رفتار اور ان کا اپنا قد کاٹھ کسی سے کم نہیں لہٰذا نو مئی کے سانحے نے انہیں وہ موقع فراہم کر دیا ہو جس کی وہ کافی عرصے سے تلاش میں تھے۔ ان سے پہلے بھی کچھ اور لوگ اس زعم کا شکار ہو کر اپنی نئی راہوں کا تعین کر چکے ہیں مگر زمینی سطح پر جو عوامی پذیرائی دیکھنے کو ملی‘ اس کا حال بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا نام‘ بقول راجہ صاحب‘ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کی رخصتی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بطور اپوزیشن لیڈر بھی ان کا کردار ملکی تاریخ میں منفرد مقام کا حامل رہے گا اور لمبے ہوتے سایوں کا گواہ!
چاہیے تو یہ تھا کہ سورج کے ہمیشہ کیلئے غروب ہو جانے کی پختہ امید ان سب کو قدم سے قدم ملا کر چلاتے ہوئے ان کے ارادوں اور خواہشوں کو استحکام بخشتی لیکن اب نجانے کس نے کس کے سائے کو اس قدر بڑھا دیا کہ ہر ایک نے اپنی کرسی کے پائے دوسرے کے مقابلے میں بلند رکھنے کی ضد شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر کسی نے اپنے سائے کو دوسروں سے بڑا سمجھ کر باقی سایوں کو کچلنا شروع کر دیا ہے۔ شاید اس ڈر سے کہ یہ مصنوعی سائے کہیں انہیں ہی کچلنا نہ شروع کر دیں۔ اب یہی امکان نظر آ رہا ہے کہ جیسے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی میں غروبِ آفتاب کے اوقات ایک جیسے نہیں ہوتے اور ان میں کئی منٹ کا فرق ہوتا ہے‘ اسی طرح کوشش کی جائے گی کہ پنجاب اور سندھ میں سائے کا قد کے پی میں نظر آنے والے سائے سے کم ہو۔ بلوچستان کے غروب آفتاب کا نظارہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہاں بلند پہاڑی سلسلے سورج کی روشنی کے آڑے آتے ہیں لہٰذا یہاں سائے قد سے بڑے نہیں ہوا کرتے، اس لیے وہاں غروبِ آفتاب کا منظر کسی کیلئے زیادہ اہمیت بھی نہیں رکھتا۔ دوسرا‘ وہاں مشہور ہے کہ سردار ہی سورج ہے‘ جس کی روشنی میں لوگ جیتے اور مرتے ہیں۔