ابھی وزیراعظم شہباز شریف کے کھڈیاں خاص کے جلسے کے خطاب کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ بجلی کے پہاڑ جیسے نرخوں میں ایک بار پھر سے اضافے کی سمری ارسال کر دی گئی۔ خبروں کے مطابق بجلی صارفین پر 144 ارب 68 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاری کر لی گئی ہے اور ''سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی مد میں قیمت میں اضافے کے لیے نیپرا کو سمری ارسال کر دی گئی ہے۔ محض دو ہفتے قبل ہی بجلی کی قیمت میں دو بار اضافہ کیا گیا اور پہلے تین روپے اور دوسری بار ساڑھے سات روپے تک فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اگر مختلف سمریوں کو جوڑا جائے تو اصل میں عوام پر 721 ارب روپے کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے اور بجلی کا بنیادی ٹیرف چھ روپے مزید بڑھ جائے گا اور اس طرح ایک یونٹ بجلی کی قیمت 59 روپے تک پہنچ جائے گی۔ بھولے عوام کو شاید یہ علم نہیں کہ جب بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ظاہر ہے کہ صرف شدہ بجلی کی قیمت تو بڑھتی ہی ہے مگر ساتھ ہی مزید کوڑے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دوسرے دیدہ و نادیدہ ٹیکسوں کی صورت میں برسنا شروع ہو جاتے ہیں‘ لہٰذا سمجھ لیجئے کہ یہ اضافہ قیمت65 روپے فی یونٹ تک پہنچا دے گا۔ چند روز قبل ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں بیس روپے فی لیٹر کے اضافے کا بم بھی اس قوم پر گرا یا جا چکا ہے۔ نجانے وہ کون سے مشیر ہیں جو حکومت کو اطلاعات پہنچا رہے ہیں کہ ابھی عوام کی سانسیں چل رہی ہیں لہٰذا ان پر مزید بوجھ لادا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز مہنگائی کے نئے تازیانے عوام پر برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب وزیروں‘ مشیروں کی حالیہ تقریروں سے لگتا ہے کہ وہ غریبوں کے غم میں شریک ہو کر نجانے کیا طوفان برپا کر دیں گے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے قصور تو بلاول بھٹو زرداری نے اندرونِ سندھ کے دیہات میں مختلف جلسوں سے خطاب کیا جہاں دونوں رہنمائوں نے الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک ہی بیان دیا کہ ''غریبوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی‘‘۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کی ایک وڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ''اگر ملک کو بچانا ہے تو پٹرول پانچ سو روپے لیٹر اور بجلی سو روپے فی یونٹ کر دیں‘‘ ویسے تو یہ وڈیو چند ماہ پرانی ہے مگر بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ ہوشربا اضافوں کے بعد عوامی سطح پر یہ کہا جا رہا ہے کہ لگتا ہے کہ حکومت کو مخدوم احمد محمود کا مشورہ پسند آ گیا ہے اور یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ کسی ضابطے کے بغیر آئے روز بجلی اور تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ کچھ ادھ موے یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ اسی میثاقِ معیشت کا شاخسانہ تو نہیں جو ایک ماہ قبل دبئی میں سائن کیا گیا؟ کھڈیاں خاص کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے جہاں اور بہت سی باتیں کیں‘ وہیں یہ بھی اعلان کیا کہ ''اگر آپ نے چوتھی مرتبہ بھی نوازشریف کو وزیراعظم بنایا تو وہ ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے‘‘۔ لوگ اس بیان کے حوالے سے سے سوال کر رہے ہیں کہ ایک ہی بار کیوں نہیں بتا دیا جاتا کہ ملکی تقدیر بدلنے کے لیے کُل کتنی حکومتیں درکار ہوتی ہیں۔ حالیہ سولہ ماہ کی حکومت میں کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوا تو فوری طور پر نئی قانون سازی کر لی گئی‘ اس کے بعد کس قسم کی آزادی چاہیے؟
دس اپریل 2022ء سے دس اگست 2023ء تک کے سولہ ماہ نے پوری قوم کی چیخیں نکال دی ہیں۔ آٹا‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ دالیں‘ سبزیاں‘ غرض کون سی ایسی شے ہے جس کی قیمت میں تین گنا تک اضافہ نہیں ہوا؟ آج بھی مسلم لیگ نواز کی جانب سے جلسوں میں کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی حکومت تھی تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اور نہ ہی بجلی کی قیمت بڑھائی گئی تھی۔ حالانکہ تاریخ تو کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ یہ نواز شریف دور ہی کی بات ہے کہ جب بڑھتی لوڈشیڈنگ پر میڈیا کے سوالات پر تنک کر اُس وقت کے وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا تھا کہ یہ لوگ جو بجلی‘ بجلی کا شور مچا رہے ہیں، اگر انہیں بجلی چاہئے تو بجلی کے دُگنا بل ادا کرنا شروع کر دیں‘ ہم بلا روک ٹوک بجلی مہیا کرنا شروع کر دیں گے۔ اس سے بھی پیچھے جائیں تو علم ہوتا ہے کہ وہ یکم اپریل 1991ء کی ایک دوپہر تھی اور بجلی کے بلوں میں یکایک 12 فیصد اضافہ کیا گیا، آٹھ ماہ بعد جنوری 1992ء میں بجلی دوبارہ 50۔2 فیصد مہنگی کر دی گئی‘ صرف ایک ماہ بعد فروری میں دوبارہ بجلی 2.50فیصد مہنگی کر دی گئی، پھر اپریل 92ء میں 16 فیصد اور مارچ 93ء میں 2.50فیصد اضافہ کیا گیا۔نومبر 94ء میں 24.3 فیصد اور جولائی 95ء میں 21.5 فیصد اضافہ ہوا۔ محض تین‘ چار سالوں میں بجلی کی قیمتیں چار سے پانچ گنا تک بڑھ گئیں۔ اب اگر 91ء سے 95ء تک کی حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ غم خوار ہی بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی رِیت ڈالتے نظر آتے ہیں۔ سب کو یاد ہو گا کہ 2013ء میں مسلم لیگ نواز کی حکومت آتے ہی 480 ارب کے گردشی قرضے یکمشت ادا کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے جس کے لیے کابینہ یا کمیٹی کی منظوری بھی ضروری نہیں سمجھی گئی۔
معروف امریکی مصنف گریگ پیلاسٹ (Greg Palast) جنہیں دنیا بھر میں بیسٹ سیلر کتابیں لکھنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے‘ کا ایک مضمون ہمارے ملک میں مہنگی بجلی کی بنیاد رکھنے کے بہت سے رازوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ گریگ پیلاسٹ کے مطابق: سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کمپنیاں مختلف ملکوں کے ساتھ اپنی پسند کی شرائط پر بجلی کی فروخت کے معاہدے کرتی ہیں۔ بدلے میں کک بیکس میں شکل میں بھاری رقوم بیرونِ ملک فراہم کی جاتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے تیسری دنیا کے سیاستدان ہائیڈل پاور سٹیشن منصوبوں کو شجرِ ممنوعہ قرار دے دیتے ہیں اور ایسا واویلا کرتے ہیں جیسا پانی سے بجلی پیدا کرنا یا ڈیم بنانا انتہائی نقصان کا سودا ہے اور آئی پی پیز ہی مسیحا ہیں۔ 1997ء میں جب نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو ایک برس بعد ہی حکومت پاور پلانٹس سے خریدی گئی بجلی کے واجبات ادا کرنے میں ناکام ہو گئی تھی اور نتیجہ سود کی بلند ہوتی شرح کی صورت میں برآمد ہوا۔ ساتھ ہی ان پلانٹس سے خریدی جانے والی نئی بجلی کے بلوں کا بوجھ بھی بڑھنا شروع ہو گیا اور پھر ان انٹرنیشنل کمپنیوں نے دبائو ڈال کر حکومت سے زبردستی ادائیگیاں کروائیں اور 1998ء میں 36 ہزار عسکری افسر اور جوان واپڈا میں بھیجنے کا آرڈر کسے یاد نہیں ہو گا کہ جن کی یہ ذمہ داری لگائی گئی تھی کہ وہ ہر گھر سے بجلی کا بل اکٹھا کریں۔ مارچ 2021ء میں تحریک انصاف حکومت کی جانب سے بجلی مہنگی کرنے کے ایک نئے آرڈیننس کا مسودہ سامنے آیا تو اس پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا‘ اس آرڈیننس کے مطابق 2021ء سے 2024ء تک‘ تین سال کے عرصے میں وقفے وقفے سے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں تقریباً ساڑھے چار روپے اضافہ ہونا تھا۔ پی ٹی آئی نے جب وقت حکومت سنبھالی تھی تو اس وقت فی یونٹ قیمت لگ بھگ 12 روپے تھی جو ساڑھے تین سال میں 21 روپے پر پہنچی مگر فروری 2022ء میں بجلی اور پٹرول پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا تو پٹرول 150 روپے فی لیٹر اور بجلی کی قیمت میں پانچ روپے کمی کے بعد 16 روپے فی یونٹ ہو گئی‘ جو گزشتہ سولہ ماہ میں پچاس روپے سے بھی اوپر جا چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر بجلی کے بھاری بلوں کے حوالے سے جہاں بہت جذباتی اور دلگیر مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہیں کئی لطائف بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ بجلی کے بل دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو کی فیس کے بعد حکومت نے آسمان پر کڑکنے والی بجلی کا بل بھی ہمارے بلوں میں شامل کر دیا ہے جبکہ دوسرے کا کہنا تھا کہ جو بجلی کی حالت ہے‘ جس طرح سارا دن آنکھ مچولی جاری رہتی ہے‘ لگتا ہے کہ عوام کو اپنے بجلی کے تار آسمانی بجلی ہی سے جوڑنے پڑیں گے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ حکومت ویسے اس بات پر داد کی حقدار تو بنتی ہے کہ اس نے بجلی کے نرخ آسمان پر پہنچا کر عوام کو گھر بیٹھے ہی آسمانی بجلی کا مزہ چکھا دیا ہے۔