پی ڈی ایم حکومت کے سولہ ماہ عوام کو بہت مہنگے پڑے ہیں۔ ان سولہ ماہ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ویسے تو تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں روز افزوں ہیں لیکن آٹے اور گندم کی قیمت کو تو جیسے پر لگے ہوئے ہیں۔ رواں برس پنجاب اور سندھ میں گندم کی فی من سرکاری قیمت چار ہزار روپے مقرر کی گئی تھی لیکن متعلقہ حکام کی بد انتظامی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف ان دونوں صوبوں بلکہ ملک بھر میں فی کلو آٹے کی قیمت ڈیڑھ سو روپے سے زائد ہو چکی ہے۔ آٹے کے یہ ہوشربا نرخ دیکھ کر بے اختیار صدر ایوب خان کا زمانہ یاد آگیا۔ اُس زمانے میں آٹھ سال تک اشیائے صرف کی قیمتیں مستحکم رہیں‘ ان میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ آٹا 18روپے فی من کے حساب سے فروخت ہو رہا تھا اور آٹھ سال تک اس کی یہی قیمت رہی۔ آٹھ سال بعد آٹے کی قیمت میں دو روپے فی من کا اضافہ ہوا تو پورے ملک میں بے چینی پھیل گئی۔ لوگ دبے منہ مہنگائی کی شکایت کرنے لگے تاہم اس بے چینی نے عوامی احتجاج کی شکل اختیار نہ کی اور بالعموم پورے ملک میں خاموشی طاری رہی لیکن اس پر انقلابی شاعر حبیب جالب تڑپ اُٹھے۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ایک نظم لکھی جس کے کچھ اشعار یوں ہیں:
بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
بیس گھر ہیں آباد
کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ باد
وہ کیا ہی اچھا زمانہ تھا جب ملک میں مہنگائی کو یوں پر نہیں لگے تھے اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کے لیے کچھ پابندیاں بھی موجود تھیں۔ وہ پابندیاں یہ تھیں کہ چونکہ جون کا مہینہ بجٹ کا مہینہ تھا‘ اس لیے صرف اسی مہینے میں یا نئے بجٹ میں ہی تیل کی قیمتیں بڑھتی تھیں‘ جون ہی میں نئے ٹیکس اور مہنگائی کے احکامات جاری کیے جاتے تھے یعنی یہ سب قومی بجٹ کی کرامات ہوتی تھیں۔ اس لیے اس ماہِ بجٹ میں مہنگائی کے طمانچوں کے بعد عوام کا باقی سارا سال اپنے گال سہلاتے ہوئے گزر جاتا تھا۔ لیکن اب ایسی نئی رسم چل نکلی ہے کہ عوام کے لیے ہر مہینہ بجٹ کا مہینہ ہے بلکہ اب تو ہر دوسرے روز قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ تو کوئی عام آدمی ہی بتا سکتا ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتوں کا ان دنوں کیا عالم ہے۔ دو وقت کی روٹی کے حصول کی کوشش نے عوام کی ایسی کمر توڑی ہے کہ اب ان میں سکت ہی نہیں کہ کوئی احتجاج کر سکیں‘ سڑکوں پر آ سکیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی قیادت ہی موجود نہیں جو عوام کے دکھ کو سمجھ سکے۔ ملک آج جس تباہ کن صورتحال سے دو چار ہے اس کی ذمہ دارپی ڈی ایم ہے۔ پی ڈی ایم سولہ ماہ اقتدار میں رہ چکی ہے‘اس اتحاد میں تیرہ جماعتیں شامل تھیں تو پھر اب ان میں کون سی جماعت احتجاج کرے گی اور وہ بھی عوام کی خاطر‘ کون یہ گھاٹے کا سودا کر سکتا ہے‘ کون اپنے خلاف احتجاج کر سکتا ہے؟
گزشتہ تین سال کے دوران ملک میں آٹے کی قیمتوں میں تقریباً300 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ دسمبر 2018ء میں 15کلو آٹے کے تھیلے کی سرکاری قیمت 488روپے (32روپے فی کلو) تھی جو جولائی 2019ء میں بڑھ کر 650روپے (43روپے فی کلوگرام) تک جا پہنچی۔جنوری 2020ء میں 15کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 690روپے تھی جو جون 2020ء میں بڑھ کر 810 روپے (54روپے فی کلو)‘ جنوری 2021ء میں 900روپے (60روپے فی کلو گرام)‘ جون 2021ء میں 975روپے (65روپے فی کلوگرام)‘دسمبر2021ء میں 1100روپے (73روپے فی کلوگرام) ‘ جنوری 2022ء میں 1080 روپے (72روپے فی کلوگرام) اور جون 2022ء میں 1210روپے (81روپے فی کلوگرام) ہو گئی۔سرکاری دستاویزات اور ریکارڈ کے مطابق دسمبر 2021ء سے دسمبر 2022ء کے دوران 15کلو آٹے کا تھیلا1100 روپے(73روپے فی کلو) سے بڑھ کر 1920روپے(128روپے فی کلو) ہو گیا جبکہ اب 15کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 2250روپے سے بھی زائد ہو چکی ہے۔
پی ڈی ایم حکومت کا سولہ ماہ کا عرصہ عوام دہائیوں تک یاد رکھیں گے کیونکہ اس عرصہ دوران ہونے والی ہوشربا مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ نچلے اور مڈل کلاس طبقے کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ بنیادی اشیائے صرف عوام کی دسترس میں نہیں رہیں۔ رواں برس فروری تک چینی کی فی کلو قیمت 80سے 85روپے تک تھی جو اب 165 سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ آٹے کی رُوداد تو آپ سن ہی چکے ہیں۔ گھی 470روپے فی کلو سے تجاوز کرکے 600روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔ چکن 800روپے فی کلو تک فروخت ہو چکا۔ یوریا کھاد کی بوری 2000سے بڑھ کر 4000روپے تک پہنچ چکی ہے۔ کھاد اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد سستی غذائی اجناس کی توقع عبث ہے۔ پٹرول 150 روپے سے 290 روپے اور ڈیزل 150 روپے سے 293 روپے فی لٹر پر جا پہنچا ہے۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں کم از کم 18روپے فی یونٹ تک اضافہ ہو چکا ہے جبکہ نیپرا اس میں مزید اضافے کا متمنی ہے۔ مہنگائی کی مجموعی شرح 13فیصد سے بڑھ کر 29فیصد پر چلی گئی ہے جبکہ پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے مالی سال 2023ء کے لیے مجموعی مہنگائی کا تخمینہ 13فیصد لگایا گیا تھا۔ اس روز افزوں مہنگائی نے عوام کا ذہنی سکون بر باد کرکے رکھ دیا ہے۔ ذرا اُن غریب افراد کا سوچئے جو روزے کی حالت میں دس کلو آٹے کے تھیلے کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں لگے رہے اور پھر باری نہ آنے پر خالی ہاتھ گھروں کو واپس لوٹ گئے۔ نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو یوں سسک سسک کر جینے سے تنگ آ کر بچوں سمیت خود کشیاں کر رہے ہیں۔ کیا پاکستان صرف امیروں کے لیے معرضِ وجود میں آیا تھا؟ ساڑھے سات دہائیوں کے دوران بھی یہاں کا غریب طبقہ حکمرانوں کی ترجیح کیوں نہیں بن سکا؟ شاعرِ انقلاب حبیب جالب اگر آج زندہ ہوتے تو وہ صدر ایوب سے معافی معاف ضرور مانگتے۔حبیب جالب تو آٹے کی فی من قیمت 20روپے ہونے پر احتجاج کرنے نکل پڑے تھے اور آج آٹا ساڑھے چھ ہزار روپے فی من ہونے کے بعد بھی لیکن کسی کی ہمت نہیں ہو رہی کہ اُٹھ کر حکمرانوں سے کوئی سوال کرے۔ صدر ایوب خان کے دور کے آخری سالوں میں جب چینی کی قیمت ایک روپے فی کلو سے بڑھ کر ایک روپیہ چار آنے ہو گئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف چینی چور کے نعرے لگوا دیے تھے لیکن آج بھٹو کے جانشینوں کے حکومت میں ہوتے ہوئے چینی 170روپے تک جا پہنچی اور وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔
تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں جب چینی یکدم ساٹھ روپے سے پچاسی روپے فی کلو تک جا پہنچی تو پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف بھرپور مہم چلائی لیکن اپنے دور میں ہونے والی ہوشربا مہنگائی پر ہر طرف سکوت طاری ہے۔اب اگر چینی 85کے بجائے 185روپے فی کلو تک بھی پہنچ جائے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کا مطمح نظر عوامی بہبود نہیں بلکہ صرف اقتدار کی راہداریوں میں گھومنا ہے۔