"MABC" (space) message & send to 7575

گیارہ ستمبر اور… (2)

سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے پہلی مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے بعد جب کولن پاول کے ذریعے فلسطین سے متعلق سابق امریکی صدر کلنٹن کے شروع کیے گئے پلان پر عمل شروع کیا تو اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور اس دوران پے درپے واقعات میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے امریکی انتظامیہ اور اسرائیل کی مابین ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔
مسلم دنیا یا خود امریکی سینیٹرز کی ایک بڑی تعداد نائن الیون سے متعلق کیا کہتی ہے‘ اس سے ہٹ کر اگر یورپ کی جانب دیکھیں تو وہاں بھی کئی اہم شخصیات اس سانحے پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کر چکی ہیں۔ اٹلی کے سب سے مقبول اخبار Corriere della Sera نے دسمبر 2007ء کے پہلے ہفتے میں اٹلی کے سابق صدر فرانسیسکو کوسیگا (Francesco Cossiga) کا ایک بیان شائع کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ نائن الیون دراصل ایک اندرونی کام (Inside Job) ہے اور اس کی اصل ذمہ داری امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد پر آتی ہے۔ فرانسیسکو کوسیگا کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ایک نہ ایک دن پوری دنیا کے سامنے آکر رہے گی۔ اٹلی کے سابق صدر کے بیان کے بنیادی نکات تھے کہ اسامہ بن لادن نے مفروضے کے طور پر نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملے کا اعتراف کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ نائن الیون کے حملے کا ذمہ دارہے جبکہ امریکہ اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ صہیونی دنیا کے تعاون سے امریکی سی آئی اے اور موساد نے اس تباہ کن حملے کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل کیا تاکہ عرب ممالک پر الزام لگایا جا سکے اور مغربی دنیا کو عراق اور افغانستان پر حملے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔
اٹلی کے سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ بحیثیت صدر اٹلی ان کو یہ علم تھا کہ یورپ، امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں کس طرح ہر دور میں مختلف افراد اور ممالک کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب کرتی رہی ہیں اور کس طرح ان کے ذریعے ان حکومتوں نے اپنے مخصوص سیاسی اہداف حاصل کیے۔ اس سلسلے میں فرانسیسکو کوسیگا نے نیٹو کے ایک کارنامے Operation Gladio کا حوالہ دیا‘ جس کے بارے میں اٹلی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے 2000ء میں سارے حقائق رکھے گئے تھے اور جن سے یہ ثابت ہوا تھا کہ یہ سارا آپریشن امریکی خفیہ ایجنسی کی سرپرستی میں نیٹو نے انجام دیا تھا۔ فرانسیسکو کوسیگا جولائی 1983ء میں اٹلی کی سینیٹ کے صدر اور 1985ء میں اٹلی کے صدر منتخب ہوئے تھے اور ان کا شمار یورپ کے دانشمند اور صاحبِ نظر سیاسی اکابرین میں کیا جاتا تھا۔
نامور امریکی مصنف Webster Tarpley نے اپنی کتاب (9/11 Synthetic Terror: Made in USA) میں لکھا ہے کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ایک انتہائی منظم اور اعلیٰ درجے کا ذہن ہونا چاہیے جس کو فدائیوں بلکہ انتہائی خصوصی تربیت یافتہ عملے کے بھرتی کرنے کے وافر مواقع حاصل ہوں۔ اس کے علاوہ نائن الیون کے حملے ریڈار اور فضائی سلامتی کے ذمہ دار عملے میں سرایت کیے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔ صرف امریکہ میں نائن الیون سے متعلق ڈیڑھ سو سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں، جن میں Towers of Deception: The Media Cover-up of 9-11، 9/11 the Inside Job- Real Evidence، The Mysterious Collapse of World Trade Center 7، Inside Job: Unmasking the 9/11 Conspiracies اور Terror Act Or Inside Job: Conspiracy Theories on 9/11 قابلِ ذکر ہیں۔ بیشتر کتب میں نہایت سنجیدہ قسم کے سوالات اٹھائے گئے مگر کبھی امریکی ایجنسیوں، محکمہ دفاع یا انتظامیہ کی جانب سے ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اسی حملے سے جڑا ایک نہایت قابلِ غور واقعہ بلڈنگ سیون کا انہدام ہے۔ ورلڈ ٹریڈ کے جڑواں ٹاورز کے قریب ہی ایک 47 منزلہ فلک بوس عمارت‘ بلڈنگ سیون تھی۔ اس عمارت میں سی آئی اے، ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اور آفس آف ایمرجنسی مینجمنٹ کے دفاتر تھے۔ جڑواں ٹاورز کے تباہ ہونے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد یہ عمارت از خود منہدم ہو گئی تھی حالانکہ اس کو کسی طیارے نے ٹکر نہیں ماری تھی‘ نہ ہی اسے براہ راست نشانہ بنایا گیا تھا۔ فوری طور پر اس کے انہدام کی وجوہات بھی سامنے نہیں آ سکیں۔ 2008ء میں امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی نے تین سالہ تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ عمارت شدید اور بے قابو آگ کی وجہ سے گری تھی۔ یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلی کثیر المنزلہ عمارت تھی جو قریبی عمارت کے ملبے میں آگ کی وجہ سے گر گئی۔ اس عمارت سے جڑی ایک اور دلچسپ داستان یہ ہے کہ بلڈنگ سیون کے گرنے کی خبر بی بی سی کی رپورٹر جین سٹینلے نے اپنی لائیو رپورٹ میں دی حالانکہ اس وقت بھی یہ عمارت رپورٹر کے پیچھے کھڑی نظر آ رہی تھی۔ یہ وڈیو کلپ آج بھی انٹرنیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بی بی سی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ رپورٹر نے غلطی سے عمارت کے گرنے کی خبر دی اور صرف انہوں نے ہی نہیں‘ نیوز ایجنسی رائٹرز نے اس عمارت کے منہدم ہونے کی اطلاع دی تھی جسے سی این این سمیت سبھی بڑے اداروں نے چلایا تھا۔ بعد میں رائٹرز نے بھی اس خبر کی تردید کر کے اپنی غلطی تسلیم کی، لیکن سوال پھر وہی ہے کہ نیوز ایجنسی کی جانب سے یہ خبر ہیڈ آفس یا نیوز روم کو ملی ہو گی‘ فیلڈ رپورٹر نے یہ خبر کیوں دی جبکہ ٹاور اس کے پیچھے بالکل صحیح سلامت موجود تھا۔ بہرکیف آج بھی ذہنوں میں اس سانحے کے حوالے سے کچھ سوالات ہیں جو اس حملے کے پیچھے چھپے کچھ کرداروں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ان طیاروں کو مقررہ روٹ سے ہٹ کر ورلڈ ٹریڈ سنٹر تک پہنچنے میں لگ بھگ چالیس منٹ لگے‘ دنیا بھر کے چپے چپے کی نقل و حرکت سے آگاہ امریکی فضائیہ اور دنیا کا طاقتور اور حساس ترین سیٹلائٹ سسٹم انہیں ٹریس کیوں نہیں کر سکا؟ یہ کیسے ممکن تھا کہ پنٹاگون کو تباہ کرنے والا ڈیلاس سے آنے والا طیارہ‘ جسے لاس اینجلس جانا تھا‘ اپنا راستہ بدل کر واشنگٹن پہنچ جائے‘ وہ بھی ایسی صورت میں کہ ایک گھنٹہ قبل ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو دو جہازوں کے ذریعہ تباہ کیا جا چکا تھا‘ اس طیارے کو راستے میں ہی تباہ کیوں نہیں کر دیا گیا؟ اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی نے اپنی سوانح عمری میں انکشاف کیا کہ ٹوئن ٹاورز پر حملے کے بعد انہوں نے حکم دیا تھا کہ کوئی بھی تجارتی ہوائی جہاز اگر ہائی جیک ہو تو اسے مار گرایا جائے۔ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ کے مطابق: ان حملوں کے بعد ایسا انتشار پھیلا کہ نائب صدر کا حکم لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں تک نہیں پہنچایا گیا۔ کیا یہ ممکن ہے؟ یہ امریکہ کی جنگی صلاحیتیوں پر بہت بڑا سوال نہیں؟ ایک طیارہ بوسٹن سے لاس اینجلس‘ دوسرا واشنگٹن سے لاس اینجلس اور تیسرا نیویارک سے نیو جرسی جا رہا تھا مگر ان جہازوں کو روٹ بدلنے پر کسی نے چیک نہیں کیا لیکن ہوسٹن سے شکاگو جانے والے طیارے نے جب اپنا رخ بدلا تو لڑاکا طیاروں نے اس کو فوری مار گرایا۔ ایک طیارے کا پائلٹ جارج برلیگم امریکی محکمہ دفاع کے شعبہ انسداد دہشت گردی کا سابق اہلکار تھا جسے نامعلوم وجوہ کی بنا پر کچھ عرصہ قبل نوکری سے نکال دیا گیا تھا‘ اسے پائلٹ جیسی اہم پوسٹ پر دوبارہ کیوں بھرتی کیا گیا؟
1963ء سے 2001ء تک امریکی اداروں پر 23 حملے ہو چکے تھے‘ 19 اپریل 1995ء میں فیڈرل بلڈنگ اوکلے ہاما سٹی میں بم دھماکا ہوا تھا جس میں 182 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری اولاً اسامہ بن لادن ہی پر ڈالی گئی لیکن ایف بی آئی کی تحقیقات سے علم ہوا کہ اس حملے کا ذمہ دار ''مشی گن ملیشیا‘‘ کا دہشت گرد ''ٹموتھی مانکی‘‘ تھا جس کی تنظیم موساد کی ذیلی تنظیم سمجھی جاتی تھی۔ سب سے اہم سوال‘ کیا دنیا کی واحد سپر پاور کے انتہائی ذہین سراغ رساں، کہنہ مشق صحافی، دانشور اور تجزیہ کار یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی تمام اندرونی سکیورٹی اور ایئر ٹریفک سسٹم کو چند عربوں نے بغیر کسی اندرونی سپورٹ کے اکیلے ہی تاراج کرتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹاگون پر حملہ کر دیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں