28ستمبر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی دو تصاویر نے قانونی اور غیرقانونی کا فرق بتایا ہے۔ ان تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ اپنا کون ہے اور پرایا کون۔ یہ تصاویر ہمارے موجودہ ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے چلے آ رہے نظام کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان تصاویر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہاری‘ کھیت مزدور اور مزارع کون ہے اور اصلی مالک کون ہے۔ ان میں سے ایک تصویر میں ایک صوبے کی پولیس وہاں ہونے والے جلسۂ عام کے دوران حفاظتی انتظامات یقینی بنانے کے لیے بغیر تھکاوت بھاگ دوڑ کرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ دوسری تصویر میں پولیس بھاگ دوڑ کرتی دکھائی تودیتی ہے لیکن اس بھاگ دوڑ کا انداز پہلی تصویر سے بہت مختلف ہے۔ پہلی تصویر میں پولیس کے اہلکاروں نے بڑے آرام سے ہاتھوں میں لاٹھیاں پکڑی ہوئی ہیں جبکہ دوسری تصویر میں وہ ان کا بے دریغ استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے۔اُس دن عجب نظارے دیکھنے میں آئے کہ وہ جلسہ جو ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں اور اس کی معاونت سے کرایا جا رہا تھا اس میں حاضرین کی تعداد چند سو سے بھی زیادہ نہ تھی اور اس جلسے میں بارہ سے پندرہ سیاسی جماعتوں کے لوگ بڑے آرام سے پنکھوں کی ٹھنڈی ہوا ئوں میں مزے سے بیٹھے تقریروں اور ٹھنڈے پانی سے سیراب ہورہے تھے جبکہ دوسری جانب گرمی اور ریتلے میدان میں بیٹھے لوگ پولیس اہلکاروں کی لاٹھیوں کا مزہ چکھ رہے تھے جن کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے اور جن کے لیے نہ تو پینے کا پانی تھا اور نہ ہی پہلے والے جلسے کی طرح چھولداریوں اور پنکھوں کا انتظام۔ پولیس اور اس جلسہ کے شرکا کے درمیان یہ آنکھ مچولی کب تک جاری رہی اور اس کا انجام کیا ہوا‘ یہ عوام سے بہتر کون جانتا ہے ۔ان دونوں تصاویر نے محکمہ پولیس میں اصلاحات سمیت اس کے سیاسی استعمال پر بھی سوال اٹھا دیا ہے۔ اگر اس محکمے کی کارکردگی پر کوئی سوال ہوتا ہے تو اسے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ پولیس معاشرے کا ایک عکس ہے۔ میرے خیال میں اس محکمے میں مسائل کی بنیادی وجوہات میں بیرونی مداخلت اور میرٹ کے بغیر بھرتی‘ تربیت کا فقدان‘ وسائل کی کمی اور افسر شاہی کا سرخ فیتہ شامل ہے۔ یہ اچھنبے کی بات ہے کہ پولیس سمیت بیشتر محکموں میں اکثر باپ بیٹا اور خاندان کے بیشتر افراد ایک ہی دفتر میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جونہی بھرتی شروع ہوئی منظورِ نظر لوگوں کی لسٹ پہلے سے ہی آجاتی ہے‘ چاہے وہ معیار پر پورے اُترتے ہوں یا نہیں۔سیاسی سفارشوں پر بھرتی ہونے والے انہی افراد سے دوران سروس ان کے سفارشی اپنے کام نکلواتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم واقعی پولیس نظام میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں؟ عوام تو شاید ایسی تبدیلی کے متمنی ہوں لیکن جن کی اصل میں یہ ذمہ داری ہے وہ ایسا نہیں چاہتے۔ وہ شاید اس لیے کوئی ایسا سسٹم رائج کرنے میں مخلص نہیں کیونکہ پھر اُن کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا اور عوام الناس اپنے جائز و ناجائز کاموں کیلئے اُن کے ارد گرد طواف کرنا بند کردیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاداور اب 27ستمبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستوں کے اجرا کے بعد ملک میں نئے انتخابات کا بگل بجتا دکھائی دیتا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے موجود بے یقینی کسی حد تک ختم ہونے باوجود ان کی شفافیت کے حوالے سے تحفظات اب بھی موجود ہیں۔ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے نگران حکومتوں کے قیام کا نظام رائج ہے مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں بننے والی نگران حکومتیں ایک پارٹی کی جانب تھوڑا بہت جھکاؤ ضرور رکھتی تھیں لیکن اب جس قسم کی عبوری حکومتیں دیکھنے کو مل رہی ہے‘ اس قسم کی نہ تو پہلے دیکھیں اور نہ ہی دوبارہ دیکھنے کی خواہش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان حکومتوں کا جو ترازو ہے اس کا صرف ایک ہی پلڑا ہے۔ نومبر 1996ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو ساتھ ہی نوے دنوں میں عام انتخابات کرانے کے لیے جو نگران حکومتیں تشکیل دی گئیں ان کے دور میں آصف علی زرداری لاہور کے گور نر ہائوس سے گرفتار ہوئے۔ پھر جب اُن عبوری حکومتوں کے زیر انتظام انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہر جانب مسلم لیگ (ن) کا طوطی بول رہا تھا۔میاں نواز شریف کی جماعت ان انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی جبکہ پیپلز پارٹی کے 90 فیصد امیدواروں کی ضمانتیں ہی ضبط ہو گئیں جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بہت سے امیدوار اُس وقت سیاست کے اتار چڑھاؤ سے واقف نہیں تھے۔ ان انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے آج کے تین سینئر اینکر پرسنز سمیت پانچ صحافیوں سے بھوربن میں ملاقات میں میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ ہماری حکومت آنے والی ہے‘ ہم سے وعدہ کریں کہ تین ماہ تک آپ ہم پر ہاتھ ہولا رکھیں گے۔ اس میٹنگ میں چودھری نثار کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی دو اور اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔اب سوال یہ ہے کہ الیکشن سے قبل ہی میاں نواز شریف کو کیسے علم تھا کہ ان کی حکومت آنے والی ہے۔ انہی پانچ سکہ بند صحافیوں میں سے ایک صحافی اور اینکر پرسن نے اب اپنے ایک پروگرام میں ایک عجب کہانی سنادی ہے جس پر یقین کرنے کو دل مان ہی نہیں رہا لیکن عقل کہتی ہے کہ اگر انہی پانچ صحافیوں میں سے ایک نواز لیگ کے انتہائی اہم اور سینئر لیڈر سابقہ فیڈرل منسٹر کا نام لے کر یہ بات کہہ رہا ہے تو اس پر فوری یقین کر لینا چاہئے کہ میاں نواز شریف کی تو منتیں کی جا رہی ہیں کہ جلدی پاکستان پہنچ کر ملک کاا قتدار سنبھالو لیکن ہم کہہ رہے ہیں کہ تھوڑاسا اور انتظار کر لیں کیونکہ ہمیں اپنے معاملات درست کرنے کے لیے کچھ وقت چاہئے۔یہ معاملات کیا ہیں اور کیسے درست کیے جانے ہیں یہ ہر کسی کو معلوم ہے ۔
مختلف طبقات آئندہ عام انتخابات کو ملک کو درپیش مشکلات کا حل قرار دے رہے ہیں لیکن یہ انتخابات اسی صورت ملکی مشکلات کا حل ثابت ہو سکتے ہیں جب یہ منصفانہ اور شفاف بنیادوں پر منعقد کروائے جائیں۔ان انتخابات میں جانبداری کا شائبہ‘ جس کا بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں‘ پورے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ان انتخابات کو لے کر ہر سیاسی جماعت لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات بھی کر رہی ہے لیکن یہ لیول پلیئنگ فیلڈ صرف اس کی حد تک محدود ہے اور جب کوئی دوسری سیاسی جماعت لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے ڈیل یا این آر او قرار دیا جانے لگتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ملک کو موجودہ حالات میں پہنچانے میں کس سیاسی جماعت اور کس سیاستدان نے کتنا کردار ادا کیا ہے‘ اس وقت ملک کی سیاسی جماعتوں اور ان جماعتوں کی قیادت کے نزدیک یہ سوال اہم ہونا چاہیے کہ وہ ملک کو اس بھنور سے نکالنے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن‘ جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے‘ اور نگران حکومت کوبھی آئندہ عام انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی جماعتوں کی طرف سے جس لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی جا رہی ہے ‘ اس کی فراہمی بھی ضروری ہے لیکن یہ لیول پلیئنگ فیلڈ کسی ایک سیاسی جماعت تک محدود نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں شفاف انتخابات کا انعقاد محض ایک خواب ہے۔