"MABC" (space) message & send to 7575

اگر خواہی حیات اندر خطر زی

تاریخ عالم کی ایک حیرت انگیز سچائی یہ ہے کہ کسی شخصیت کو سرخرو کرنے سے پہلے گاہے گاہے یہ آزمائشوں اور ابتلا کی کسوٹی پر غیر متوقع طور پر مگر بیدردی سے اسے پرکھ رہی ہوتی ہے۔ اس وقت کسی کو اس عمل کی حکمت کا علم اور احساس تک نہیں ہوتا اور یوں لگتا ہے کہ اب مذکورہ شخص کا وجود ختم ہو گیا اور اس کا ذکر جلد قصہ پارینہ بن جائے گا لیکن حالات کے نشیب و فراز اس شخصیت کے قد و قامت کی اہمیت کو پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھا کر اسے یوں اجاگر کر دیتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں اور یہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر آزمائشوں اور ابتلا کا دور اس پر نہ گزرا ہوتا تو شاید اس کے جوہر کبھی کھل کر سامنے نہ آتے۔ ایسے تاریخ ساز افراد کو آزمائش کے امتحانات اور چکی کے پاٹوں کے حوالے کرنے والوں کو اس کا ادراک تک نہیں ہو پاتا اور وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ان گھن چکروں میں پھنسا شخص اب سانسوں کی ڈوری کا بھی محتاج ہو چلا ہے حالانکہ یہی تو وہ رگڑ ہوتی ہے جس سے وہ روشنی پھوٹتی ہے جس سے زندگانی کی شمع جلانے کے لیے آگ حاصل کی جاتی ہے۔ یہی تو وہ آگ اور اس کی حدت ہے جو کاروبارِ حیات چلانے اور معاشرے کا رنگ و روپ سنوارنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ یہی حرارت تو ہر جاندار کے لیے خوراک کا حصول ممکن بناتی ہے۔ اسی آگ سے پھر چاروں جانب عمارات اور شاہراہیں روشن ہوتی ہیں اور ذرائع آمد و رفت حرکت میں آتے ہیں اور اسی آگ سے پیدا ہونے والی حدت زندگی کو برقرار رکھنے کے کام آتی ہے۔ اسی حدت سے نیم جان انسانی وجود زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔
حکیم الامت‘ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کے کلام میں ہمیں جا بجا یہ نصیحت مختلف انداز سے ملتی ہے۔ کہیں ایک ہرن دوسرے ہرن سے دنیا کی مشکلات سے تنگ آ کر حرم شریف میں جا کر آباد ہونے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو دوسرا ہرن اسے سمجھاتا ہے کہ ''اگر خواہی حیات اندر خطرزی‘‘ یعنی اگر (لطفِ) حیات چاہتا ہے تو خطرات سے نبرد آزما ہو کر زندگی بسر کر، خطرات سے بھاگنا کسی طور زیبا نہیں۔ اسی طرح پیامِ مشرق میں ''پند باز با بچہ خویش‘‘ یعنی باز کی اپنے بچے کو نصیحت نامی نظم میں علامہ لکھتے ہیں:
نکو شیوہ و پختہ تدبیر باش
جسور و غیور و کلان گیر باش
نیک اطوار اور پختہ تدبیر کرنے والا بن۔ دلاور اور غیرت والا اور بڑے شکار پر جھپٹنے والا بن۔ تیتر اور چکور اور مینا کے ساتھ میل جول نہ رکھ سوائے اس کے کہ تو ان کے شکار کی خواہش رکھتا ہو۔
آگے چل کر آپ لکھتے ہیں کہ
بسا شکرہ افتادہ بر روی خاک
شد از صحبت دانہ چینان ہلاک
کتنے ہی شکرے دانہ چگنے والوں (چڑیوں) کی صحبت سے ہلاک ہو گئے کہ (دانہ چگنے کی خاطر) زمین پر گر گئے۔
عقاب نے اپنے بیٹے سے کیا خوب کہا کہ (اپنے شکار کردہ پرندے کی) ایک بوند لہو اچھوتے خالص یاقوت سے بہتر ہے۔ اس لیے ہرن اور بھیڑ کی طرح آرام دہ زندگی تلاش نہ کر بلکہ اپنے بزرگوں کے مانند تنہائی کی طرف میلان رکھ۔ اپنا نوالہ کسی دوسرے کے ہاتھ سے نہ لے، خود اپنا شکار کر۔ نیک بن اور اچھوں کی نصیحت سن۔
کلامِ اقبال میں شاہین کا جو استعارہ ملتا ہے وہ شاعرانہ تخیل نہیں بلکہ ایک مکمل فلسفہ ہے۔ روایت ہے کہ علامہ نے ایک مکتوب میں لکھا کہ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں۔ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ خوددار اور غیرت مند پرندہ ہے اور کسی دوسرے کا شکار نہیں کھاتا۔ یہ دنیا سے بے تعلق و بے رغبت ہے کہ اپنا کوئی آشیانہ نہیں بناتا۔ یہ بلند پرواز ہے، خلوت پسند ہے اور تیز نگاہ ہے۔
اس وقت وطن عزیز کی فضا میں عجیب نفسانفسی، یاسیت اور مایوسی گھلی ہوئی ہے اور کوئی بھی اس کی تطہیر اور اصلاح کے لیے کھڑا نہیں ہو رہا بلکہ جن سے یہ امید تھی وہ خود اس دلدل میں دھنسے نظر آتے ہیں۔ آج پورا معاشرہ گروہی، لسانی، مسلکی، علاقائی اور سیاسی عصبیتوں میں دھنس چکا ہے اور ہجومِ معاشرہ میں افرادِ معاشرہ تنہا اور لاتعلق ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مگر دوسری جانب مہنگائی، لاقانونیت، بے یقینی، جبر اور انجانے خوف کے باعث معاشرے کی جڑوں میں جو اضطراب سرایت کر چکا ہے‘ اب وہاں سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ سینوں میں ایک آتش فشاں کھول رہا ہے جو آہستہ آہستہ پھٹنے کو ہے۔ ویسے تو یہ دہائیوں کی ناانصافی اور جبر کا ردعمل ہے مگر بالخصوص گزشتہ ڈیڑھ برس بحیثیت قوم سب نے جس بے یقینی‘ کرب‘ تکلیف اور دکھ میں گزارے ہیں، یہ دور ایک ڈرائونے خواب کی طرح ہمیشہ ڈراتا رہے گا۔ دکھ یہ ہے دیمک کو وطن کی بنیادوں کو چاٹتا ہوا دیکھ کر ہر طبقے کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی بلکہ جب سب کچھ تباہ کیا جا رہا تھا، ادھ کھلے شگوفوں کو مسلا جا رہا تھا، گندم کے وہ خوشے جنہوں نے ابھی سنہری ہونا تھا، انہیں چارے کے طور پر کاٹا جا رہا تھا تو اس وقت کسی نے اف تک نہ کی، کسی نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تک نہ روکا۔ کاش اس وقت ان ہاتھوں کو ٹوک دیا جاتا۔ ستم ظریفی کہ یہی ہاتھ ہمیشہ دل پسند اور من پسند سمجھے جاتے رہے۔ ایک جانب یہ چند دل پسند ہیں تو دوسری جانب وطن کی مٹی کے ایک ایک ذرے سے والہانہ عشق و محبت کرنے والے، جو اپنے جذبۂ سرفروشی کی لو جلائے ہوئے ہیں۔ جو حب الوطنی کے نام پر خود کو اس قدر محدود کر لیتے ہیں کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا ملک کی عظمت اور طاقت کے لیے وقف ہو جاتا ہے۔ جو ہر طرح کے نتائج سے بے پروا ہو کر صرف اپنا کام کرنا جانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو معاشرے میں دیوانہ کہہ کر پکارا جاتا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ خود جل کر دنیا کی تاریکیوں میں انہی دیوانوں نے روشنی کی ہے۔ اپنے کردار کی نفی کرتے ہوئے وہ دھرتی کے ایک ایک ذرے اور ایک ایک پیسے کی حفاظت کو اپنا اولین مقصد سمجھتے ہیں۔ یہی کردار معاشرہ ساز اور تاریخ ساز سمجھے گئے۔
یہ اب راز کی بات نہیں رہی کہ جن علاقوں میں بارشوں کا گزر نہیں ہوتا‘ وہاں ریاستیں اپنے سائنسی اور مالی وسائل سے مصنوعی بارشوں کا انتظام کر رہی ہیں۔ ان بارشوں کے دم پر زراعت کو ایک نئی جہت دی جا رہی ہے۔ لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم مصنوعی بارشوں سے پانی کی کمی کو پورا کر لیں گے اور تخمینے کے مطابق پیداوار حاصل کر لیں گے تو یہ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ دو چار بار کی بارشوں سے وہ فصل حاصل نہیں کی جا سکتی جو قدرتی موسمیاتی سائیکل کی پیداوار ہوتی ہے۔ ہر طرف ہریالی اور سال بھر کی فصلوں کے لیے اصلی اور حقیقی بارشوں اور موافق موسم کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔
اس وقت پاکستان کی معیشت جس نہج پر ہے‘ وہ ڈھکا چھپا معاملہ نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جو اس کے ذمہ دار ہیں ان سے کسی نے کبھی یہ تک پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ جناب! آپ نے بائیس فیصد شرح سود کس امید پر نافذ کی۔ کیا یہ بات سمجھنا کوئی راکٹ سائنس ہے کہ شرحِ سود جس قدر زیادہ ہو گی‘ کاروبای ماحول اسی قدر دشوار ہو گا۔ کروڑوں کی آبادی والے ملک میں اس قدر بلند شرحِ سود سے صرف انہی چند طبقات کو فائدہ ہو سکتا ہے کہ جو بینکوں میں پیسہ رکھوا کر ماہانہ سود لیتے رہیں۔ وگرنہ اس سے نہ تو کوئی نیا کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی صنعت بڑھانے کا سوچا جا سکتا ہے بلکہ اس سے تو الٹا صنعتیں بند ہو جاتی اور پیداواری عمل جمود کا شکار ہو جاتا ہے لیکن اس ملک کی قسمت کے فیصلے کرنے والے وہ خوش نصیب ہیں کہ جو بھی وہ چاہیں اور جس طرح چاہے کریں‘ انہیں نہ تو کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی جاتے ہوئے کوئی روکنے والا کیونکہ وہ جب چاہتے ہیں اپنے اگلے پچھلے سارے حساب کتاب پورے کرنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ دنیا کا ہر وہ شخص‘ جس کا معاشیات اور اقتصادیات سے واجبی سا بھی تعلق ہے وہ دل پسندوں کی سولہ ماہی حکومت میں ریاست پاکستان کی معیشت اور تجارت کے ساتھ کیے جانے والے کھلواڑ کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ جس طرح عجلت میں یہ حکومت کی گئی اور جس طرح جلد بازی میں دھڑا دھڑ فیصلے کیے گئے، اس پر بہت سے افراد یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ انہیں کوئی خاص ایجنڈا دے کر بھیجا گیا تھا۔ تاہم یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اب ایک‘ دو ماہ سے حالات بہتری کی جانب پلٹنا شروع ہوئے ہیں۔ اب فیصلہ سازوں نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر چلانا شروع کیا ہے تو بہتری کے آثار نظر بھی آ رہے ہیں۔ کیا سولہ ماہی حکومت کے دوران معاملات کو اس طرح نہیں چلایا جا سکتا تھا؟ کیا چوبیس کروڑ عوام کے اس ملک کو اپنا گلشن سمجھ کر نہیں برتا جا سکتا تھا؟ کیا یہ ملک ان کا اپنا نہیں تھا یا وہ اپنا بدلہ اس ملک اور اس کے عوام سے لے رہے تھے؟ بہرحال تاریخ کا ہر طالبعلم یہ پوچھے بغیر نہیں رہے گا کہ ان ہاتھوں کو یہ گلشن اجاڑنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ شیشے کے اس محل میں انہیں لائو لشکر سمیت داخل ہی کیوں ہونے دیا گیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں