نومبر 1996ء میں جب بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت ان کے اپنے ہی نامزد کردہ صدر فاروق لغاری نے کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے ختم کی تو نگران وزیراعظم کے لیے قرعہ فال ملک معراج خالد کے نام نکلا۔ چھ برس میں یہ تیسری حکومت تھی جو آئین کی دفعہ 58 (ٹو)( بی) کا نشانہ بنی تھی۔اپنی حکومت کے خاتمے کے خلاف بے نظیر بھٹو نے بھرپور قانونی چارہ جوئی کی لیکن ان کی حکومت بحال نہ ہو سکی اور ملک نئے انتخابات کی جانب گامزن ہو گیا جن میں مسلم لیگ (ن) کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد میاں نواز شریف دوسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ انتخابات کے بعد سابق نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد اور ان کی کابینہ میں مرکزی وزیر رہنے والے شاہد جاوید برکی نے سینیٹ میں یہ بیان دیا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں کو انتخابات سے قبل ہی بے نظیر بھٹو کی حکومت بحال نہ ہونے کی یقین دہانی کروا دی گئی تھی۔دنیا میں مقروض حکومتیں بنانے اور بگاڑنے میں عالمی مالیاتی اداروں کا کردار سب سے اہم ہے اور اس کے پیچھے کون ہے‘ وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ پس پردہ کردار سامنے بھی آتے ہیں اور اس طرح آتے ہیں کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔
ملک معراج خالد اور شاہد جاوید برکی کے اس بیان سے یہ بات بخوبی سمجھ آ گئی تھی کہ بے نظیر بھٹو قانونی چارہ جوئی کے باوجود اپنی حکومت کیوں نہ بحال کروا سکی تھیں اور بعد ازاں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں ان کی جماعت کیوں کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی بحالی کیلئے کی جانی والی قانونی چارہ جوئی کے دوران اُن کے وکلا نے نہ جانے کتنے دلائل دیے ہوں گے‘ نہ جانے کتنی قانونی کتابیں پڑھ کر سنائی ہوں گی اور نہ جانے ماضی کے کتنے فیصلوں کے حوالے دیے ہوں گے لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور نئے انتخابات میں کامیابی کے بعد میاں نواز شریف1997ء میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔ ائر مارشل اصغر خان مرحوم کی پٹیشن میں تو صرف 1990ء کے انتخابات کا ذکر ہی ملتا ہے لیکن کیا کبھی کوئی ملک معراج خالد اور شاہد جاوید برکی کے 1997ء کے انتخابات کے حوالے سے سینیٹ میں دیے گئے بیانات کی روشنی میں بھی فیصلہ سناسکے گا ؟ ملکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے نظامِ انصاف کو زیر کرنا ہمیشہ ہمارے حکمرانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے اور اس کا آغاز پاکستان میں 1950ء کی دہائی سے اس وقت ہوا جب جسٹس محمد منیر کو سینئر جج اے ایس ایم اکرم پر ترجیح دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا گیا۔ پھر جب 70ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت وجود میں آئی تو اس وقت کے وزیراعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا اور سینئر ججوں کو نظر انداز کرکے چیف جسٹس کیلئے جونیئر ججوں کا انتخاب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت کے سینئر ترین جج مولوی مشتاق حسین سے ناراض تھے۔ بعد میں سب نے دیکھا کہ بلوچستان میں بھی سینئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے باہر سے آئے ایک وکیل کو بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس جج مقرر کر دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے دوسرے دورِ حکومت میں سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ جب تک نواز شریف کے خلاف فیصلے دیتے رہے‘ کے پی (اُس وقت کے صوبہ سرحد)میں (ن) لیگی حکومت کے وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ کی حکومت کو لٹکاتے رہے‘ وہ پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے منظورِ نظر رہے لیکن چیف جسٹس بننے کے بعد جب انہوں نے عدلیہ کی آزادی کیلئے چند فیصلے کیے تو وہ پیپلز پارٹی کیلئے ناقابلِ برداشت ہو گئے اور میاں نواز شریف کیلئے ہیرو۔ پھر جب سید سجاد علی شاہ نے مارچ 1996ء کو اس وقت کی پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف فیصلہ سنایا تو شریف برادران نے سید سجا دعلی شاہ کے اس تاریخی فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو سلام‘ سپریم کورٹ کی حفاظت کیلئے ہم پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جا ئیں گے۔ لیکن پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ مسلم لیگی قیادت جب انہی سید سجاد علی شاہ سے ناراض ہوئی تو لیگی کارکن سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے۔ دراصل فروری 1997ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی سمیٹنے کے بعد ہی میاں نواز شریف کے اُس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے ساتھ اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔تب شاید وہ بھول گئے تھے کہ اس نظامِ عدل سے سب سے زیادہ وہی مستفید ہوئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آٹھویں ترمیم کے استعمال کا نتیجہ ہمیشہ نواز شریف کے حق میں کیوں نکلتا ہے‘ یہ کیسا نظامِ عدل ہے جو 1990ء میں ہماری حکومت کی برطرفی کو جائز اور 1993ء میں نواز شریف کی برطرفی کو ناجائز قرار دیتا ہے؟ اور پھر 1996ء میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کی بر طرفی کو جائز قرادے دیتا ہے۔
سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ 4جون 1994ء کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھاتے ہیں اور ساڑھے تین سال تک کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ جونیئر جج تھے لیکن ساڑھے تین سال بعد اچانک چند افراد سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بننے کا کوئی حق نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس اجمل میاں اور جسٹس فضل الٰہی‘ جنہوں نے سید سجاد علی شاہ کے خلاف فیصلہ دیا‘ وہ چار سال تک خاموش کیوں رہے؟ سینئر وکیل اکرم شیخ صاحب کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل11نومبر 1997ء کو ایک اردو جریدے میں شائع ہوا تھا‘ اس کا ایک پیرا میاں نواز شریف کی عدلیہ سے محبت کے حوالے سے پیش خدمت ہے‘ جس میں لکھا تھا ''حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ دو بے حد اہم آئینی ترامیم 13اور14 کی گئی ہیں اور یہ دو ترامیم دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں قومی اسمبلی سے منظور کرا لی گئیں‘ اگر کوئی شخص پارلیمنٹ کے استحقاق شکنی کی تاریخ لکھے تو مجھے یقین ہے کہ سوائے مسلم لیگ(ن) حکومت کے کسی اور کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جائے گا‘‘۔ 2023ء میں پھر وہی کچھ کیا گیا اور ایک مرتبہ پھر (ن)لیگ کی سرکردگی میں چلنے والی پی ڈی ایم حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کیا جس کے خلاف دائر درخواستیں اب سپریم کورٹ سے بھی مسترد ہو چکی ہیں۔
جب پرویز مشرف کے دور میں آزاد عدلیہ کی تحریک چلائی گئی تو ان سے یہ سوال کیا جاتا رہا کہ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو آرمی ہائوس کیوں بلایا تھا؟ کیا کسی نے کبھی یہ پوچھنے کی کوشش بھی کی کہ سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو 8اگست 1997ء کو لاہور میں کہاں اور کیوں بلایا گیا تھا؟ حکومت اور سپریم کورٹ میں یہ رسہ کشی اس وقت تک چلتی رہی جب تک کہ سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کی تعیناتی کا خودکار نظام سامنے نہیں آ گیا مگر آج کے سیاسی حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ وطنِ عزیز قانون اور آئین کی تمام پابندیوں سے آزاد ہو چلا ہے‘ لیکن سب جان لیں کہ عدلیہ کی حقیقی آزادی میں ہی پاکستان کا روشن مستقبل پوشیدہ ہے۔