1950ء کی دہائی کے اوائل میں جب وفاق اور مضبوط مرکز کے نام پر چھ یونٹس یعنی پانچ صوبوں اور ایک ریاست (مغربی پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان، مشرقی بنگال اور ریاست بہالپور) کو دو حصوں یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان کی شکل میں ڈھالنے کیلئے ''ون یونٹ‘‘ کا نظام متعارف کرایا گیا تو بنگال اور سندھ کے منتخب اراکین اسمبلی کی اکثریت اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔ اس پر محمد ایوب کھوڑو‘ جنہیں مردِ آہن کے نام سے پکارا جاتا تھا‘ کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور انہیں مکمل فری ہینڈ دیتے ہوئے ہدایت دی گئی کہ انہوں نے ہر صورت سندھ سے منتخب اراکین اسمبلی سے ون یونٹ کے حق میں ووٹ لینے ہیں اور اس کیلئے بطور وزیراعلیٰ انہیں ہر قسم کی آزادی ہو گی کہ جو چاہے کریں‘ بس کسی طرح ون یونٹ کے حق میں ووٹ حاصل کرے۔
ایوب کھوڑو نے جیسے ہی وزیراعلیٰ سندھ کا حلف اٹھایا تو ان کے سامنے ون یونٹ کے مخالف اراکین اسمبلی کی فہرست پیش کی گئی اور ساتھ ہی بتایا گیا کہ ان سب کا لیڈر میر غلام علی تالپور ہے۔ چونکہ میر تالپور سندھ اسمبلی کے سپیکر بھی تھے‘ اس لیے خدشہ پیدا ہوا کہ ان کے بلائے گئے اجلاس میں گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ اس لیے اگر تالپور کو راضی کر لیا جاتا تو پھر ان کے تمام ساتھی بھی ون یونٹ کے حق میں ووٹ دے دیتے۔ ایوب کھوڑو نے میر غلام علی تالپور کو ملاقات کیلئے بلا بھیجا لیکن میر تالپور نے ون یونٹ کے حق میں ووٹ دینے سے صاف انکار کر دیا جس پر پاکستان کی تاریخ کی پہلی سیاسی گمشدگی کا واقعہ عمل میں آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ میر غلام علی تالپور جیسے ہی 11 دسمبر 1954ء کو اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرنے کے لیے گھر سے دربار ہال جانے کیلئے نکلے تو ان کو نامعلوم افراد نے اٹھا کر ایک پک اَپ میں ڈالا اور پھر کئی گھنٹے بعد تھر لے جا کر انہیں اونٹ پر بٹھا کر مَٹھی کے صحرا میں چھوڑ دیا۔ سپیکر سندھ اسمبلی میر غلام علی تالپور کو اس وقت تک صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا جب تک سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کے حق میں اکثریتی ووٹ حاصل نہ کر لیے گئے۔ یہ ذہن میں رکھئے کہ یہ آج کے مَٹھی نہیں بلکہ 69 برس پہلے والے صحرا کی بات ہو رہی ہے، اس لیے تصور کیجئے کہ سپیکر صاحب چوبیس گھنٹے تک وہاں کیسے رہے ہوں گے۔ یہ پاکستان کی سیاست کا وہ باب ہے جسے تاریخ سے کسی طور بھی مٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ اسے پاکستان میں پہلی سیاسی گمشدگی کے حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ صحرائے تھر میں مَٹھی کا علا قہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کا آبائی علاقہ ہے؛ تاہم اس کی شہرت میر غلام علی تالپور کی جبری گمشدگی اور مٹھی کے صحرا میں ان کی گمشدگی کے سبب ہے۔
ایوب خان اور یحییٰ خان کے آمرانہ ادوار کو قوم پرستوں اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کوئٹہ کا کلی کیمپ، مچھ‘ میانوالی اور ملتان کی جیلوں، فورٹ سنڈیمن اور بالا حصار کے مراکز کی داستانیں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور جگہ بھی ہے جو تھر کے بے آب و گیاہ صحرا کی طرح ویران تو نہیں مگر اسے ہمیشہ ویرانیوں کے حوالے ہی سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جگہ کشمیر کی ایک انتہائی دل فریب اور خوبصورت وادی ہے جو دلائی کیمپ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی فضا بیشک دلفریب اور خوش کن ہے لیکن دلائی کیمپ سے منسوب ہونے کی وجہ سے اس پر ایک ایسا دھبہ ہے جو مٹائے نہیں مٹ سکتا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو، پیپلز پارٹی کے نظریاتی لیڈران اور مخالفین کو محبوس رکھا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ وہاں جو خوفناک اور ظالمانہ سلوک کیا گیا اس کی تفصیلات اس قدر ہولناک تھیں کہ اس کے متاثرین کو جب 32 ماہ بعد سورج ا ور دن کی روشنی دیکھنا نصیب ہوئی تو ان کی آنکھیں کام نہیں کر رہی تھیں۔ دلائی کیمپ کے اسیران بتیس ماہ تک آسمان اور سورج دیکھنے سے محروم رہے۔ ان میں سے کچھ لیڈران کو دریائے جہلم اور نیلم کے سرد اور برفیلے پانی میں لٹا کر کے غوطے دیے جاتے۔ ان بدنصیبوں کو رہائی اس وقت نصیب ہوئی جب چھ جولائی1977ء کی صبح جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ساتھ طلوع ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی گئی ایف ایس ایف (فیڈرل سکیورٹی فورس) کے لوگ مارشل لا اور پیپلز پارٹی لیڈران کی گرفتاری کی خبریں سنتے ہی وہاں سے افراتفری میں بھاگ نکلے۔ دلائی کیمپ کے یہ اسیران دراصل پیپلز پارٹی کے بنیا دی اور نظریاتی کارکنان تھے مگر سوشلزم اور ترقی پسند جیسے کٹر نظریات کی وجہ سے جیسے ہی بھٹو حکومت پر ان کی تنقید اور اختلاف کی باتیں باہر نکلتیں‘ ایف ایس ایف والے انہیں اس طرح غائب کر دیتے کہ کسی کو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ ان سب کو آزاد کشمیر میں مظفر آباد کے نزدیک دریائے جہلم کے کنارے واقع پُرفضا ریسٹ ہائوس‘ دلائی کیمپ میں منتقل کر دیا جاتا۔ اس عقوبت خانے کی خبریں آہستہ آہستہ اس وقت باہر نکلنا شروع ہوئیں جب قومی اتحاد کی خون آلود تحریک اپنے زوروں پر پہنچ چکی تھی۔ حالات کے بدلتے رخ کو دیکھ کر سرکاری افسران اپنی وفاداریاں تبدیل کرنا شروع ہو گئے اور قومی اتحاد کے قائدین کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے کے لیے بھٹو حکومت کے خفیہ اقدامات اور پیغامات کی تفصیلات ان تک پہنچانا شروع ہو گئے۔ سیاسی لیڈران اور کارکنوں کی پُراسرار گمشدگیوں اور دلائی کیمپ کی حقیقت ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد سامنے آئی، اس کیمپ کے عقوبت خانے سے رہائی پانے والوں کی ایک طویل فہرست تھی۔ صوبائی رکن اسمبلی پنجاب اور سابق وزیر جیل خانہ جات میاں افتخار تاری بھی اسیران کی فہرست میں شامل تھے۔بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد دلائی کیمپ کی کہانیاں عدالتوں سے لے کر پریس تک‘ ہر جگہ سنائی دینے لگیں۔ یادش بخیر ''دلائی کیمپ کی کہانی‘ کے نام سے پی ٹی وی پر ایک پروگرام بھی نشر کیا گیا جس میں ایسی ایسی خوفناک داستانیں بیان کی گئیں کہ لوگ سن کر تھر تھر کانپ جاتے۔
ممتاز علی بھٹو کو 1973ء میں سندھ کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تو انجینئرنگ کالج جامشورو سے نوجوان لیکچرر اشوک کمار کو گرفتار کیا گیا جس کا آج تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔ اسی طرح بلوچ قوم پرست رہنما عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ مینگل کو 1976ء میں اس طرح غائب کیا گیا کہ جس کے بعد کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ بھٹو کے مشہور سیاسی مخالف اور چودھری شجاعت کی والد چودھری ظہور الٰہی کو بھی کسی مقدمے کے بغیر مہینوں تک مچھ اور کراچی سینٹرل جیل میں کسی ریکارڈ کے بغیر رکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مچھ سینٹرل جیل میں انہیں مبینہ طور ہلاک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا جسے اس وقت کے گورنر بلوچستان نواب اکبر بگٹی نے ناکام بنا دیا تھا۔
1975ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو بتایا گیا کہ اب جو حالات ہو چکے ہیں‘ الیکشن میں پارٹی کا ٹکٹ نہیں چلے گا، اب الیکٹ ایبل کی ضرورت پڑے گی تو بھٹو پیپلز پارٹی کے مخلص اور نظریاتی کارکنوں اور لیڈران کے بجائے پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے سرداروں‘ جاگیرداروں اور وڈیروں کے سحر میں گرفتار ہو گئے اور ایسے ''الیکٹ ایبلز‘‘ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیپلز پارٹی میں شامل کیا جانے لگا جو پارٹی کے سوشلزم اور مساوات کے نظریے سے کوسوں دور تھے۔ اس پر نظریاتی کارکن بے چین ہو نے لگے لیکن بھٹو کو ان کی کوئی پروا نہیں تھی۔ یہ سال بھٹو اور ان کی حکومت کے جوبن کا سال تھا۔ جیسے ہی کوئی ان کے خلاف زبان کھولتا‘ اسے رات گئے چپکے سے گھر سے اٹھانے کے بعد آزاد کشمیر میں دلائی کیمپ پہنچا دیا جاتا جہاں یہ بدقسمت افراد 32 ماہ تک محبوس رہے۔ پی پی کے 32 لیڈران‘ جن میں دو سابق وزرا بھی شامل تھے‘ دلائی کیمپ کے معلوم اسیران میں شامل ہیں۔ جب ضیا دور میں انہیں دلائی کیمپ سے رہائی نصیب ہوئی تو ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے حواس میں نہیں تھا۔ جب ان اسیران کو لاہور یا اسلام آباد لایا گیا تو کئی دن تک وہ اپنے قدموں پر بھی کھڑے نہیں ہو پائے۔ کئی ہفتوں تک ان کا بہترین ہسپتالوں میں علاج ہوتا رہا پھر کہیں جا کر ان کو بات کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ آج بھی سرکاری ٹی وی کے آرکائیوز میں ان اسیران کے انٹرویوز موجود ہوں گے جن میں سیاسی گمشدگیوں کی خوفناک کہانیاں سننے کو ملیں گی۔