ویسے تو کرۂ ارض پر مٹی کی کئی اقسام موجود ہوں گی لیکن ہمارے ہاں مٹی کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف وطنِ عزیز کی وہ مٹی ہے جونا صرف اپنی سوندھی سوندھی خوشبو سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے بلکہ ہمارے پیٹ بھرنے کے لیے اناج بھی اگاتی ہے‘ بے شمار خزانے اس کے نیچے دفن ہیں۔ دوسری طرف چودھری شجاعت حسین کے مقبولِ عام محاورے ''مٹی پاؤ‘‘ والی مٹی ہے جس کے نیچے کرپشن اور بدعنوانی کی نجانے کتنی فائلیں اب تک دفن ہو چکی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک صاحب یہ مشورہ دے بیٹھے کہ میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ پرانی باتیں بھول کر‘ ان پر مٹی ڈال کر آگے بڑھیں‘ مصاحبین اور مستفیدین کیلئے یہ مشورہ کیسے شرفِ قبولیت اختیار کرتا کیونکہ اس طرح تو ان کے موج مزے اگرختم نہیں بھی ہوتے تو ان میں کمی ضرور آ جاتی ہے‘ اس لیے یہ مشورہ سنتے ہی وہ یہ سبق پڑھانے لگے کہ اس وقت مٹی ڈالنے کی غلطی مت کیجئے گا کیونکہ اگر یہ کانٹا ہمیشہ کے لیے نکل جاتا ہے تو پھر ہماری اگلی کئی نسلوں سے تخت و تاج کوئی چھین نہیں سکے گا‘ بس آپ اس تاج میں جڑے ہیرے کی کرنوں کی روشنی نہ چاہتے ہوئے بھی‘ اپنے دائیں اور بائیں جانب موجود افراد کے گھروں میں اجالے کے لیے چھوڑتے رہیے۔ مستفیدین نے اس خوف سے‘ کہ مٹی ڈالنے سے ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے‘ یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ ہمیں کوئی ضرورت نہیں مٹی ڈالنے کی‘ ہمیں یہ موقع دوبارہ نہیں ملنے والا‘ اس لیے اگر کسی طرح یہ موقع ہاتھ لگ چکا ہے تو اس سے خوب فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ ان کی اس بات سے ہمیں بھی اتفاق ہے کہ مٹی پاؤ والا فارمولا اب بھول ہی جانا چاہیے اور جس جس فائل‘ مقدمے اور انکوائری پر مٹی ڈال کر اس کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا تھا‘ وہ مٹی کھود کر اس کے نیچے دبائی گئی فائلیں اب دوبارہ باہر نکال لینی چاہئیں کیونکہ ان فائلوں اور کاغذات پر لگی ہوئی مٹی وہ دیمک ہے جس نے اس ملک کی عزت و وقار اور خوشحالی کے سپنوں کو چاٹ کر اس کے عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار سے بھرپور فائلوں پر مٹی ڈال کر ان سب نے لندن اور دبئی میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو ایسے ایسے این آر اوز دیے کہ آسمان بھی چیخ اٹھا۔ہر چار پانچ برس بعد باہمی رضا مندی اور نیاز مندی سے ایک دوسرے کو عطا کیے جانے والے این آر او ز کسی کاغذ کا نام نہیں بلکہ مٹی کے وہ خوفناک تودے ہیں جن کے نیچے یہ ملک اور اس کے عوام دب چکے ہیں۔ ان این آر اوز پر باہمی رضامندی سے ڈالی گئی مٹی اب بڑے بڑے پہاڑوں کی شکل اختیار کر چکی ہے جن کے نیچے ملکی وسائل ‘ قرضوں اور عوام کی خوشحالی کے سپنے چھین لینے والی کھربوں ڈالرز کی لوٹ مارا ور کرپشن کی بوریاں دبی پڑی ہیں۔ کاش کہ کوئی مردِ مجاہد آئے اور مٹی کے ان پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کے لوٹ مار کی ایک ایک پائی نکال دے۔ مہنگائی سے بے حال عوام کو مستفیدین کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں ایک دوسرے کو گھسیٹنے کی باتیں اور سرے محل سے لے کر کلفٹن کی زمینوں اور بجلی گھروں کی کرپشن تک‘ ایون فیلڈ سے جدہ اور دبئی‘ کینیا سے نیوزی لینڈ اور امریکہ سے فرانس تک کے ثبوتوں پر اگر امدادِ باہمی کے تحت مٹی نہ ڈالی گئی ہوتی تو اس کرم کے بدلے میں ملنے والی وزارتوں‘ سفارتوں اور انعامات پر فریقین باہم دست و گریبان ہوتے۔
یہ اس مٹی ہی کی کرامات ہیں کہ ملکی وسائل کو گروی رکھ کر اور منت ترلوں سے لیے گئے قرضوں کو کھانے کے بعد اس کی ہڈیوں پر مٹی ڈال کر اپنی نسلوں تک کے گھر بھر لیے گئے ۔ ماضی میں ایک سیاسی عہدیدار کو پچاس ہزار کے قریب غیر قانونی بھرتیوں کے جرم میں سزاسنا ئی گئی تھی لیکن پھر اس کیس پر مٹی ڈال دی گئی‘ ان دنوں ایک سپیکر صوبائی اسمبلی کے خلاف بھی غیر قانونی بھرتیوں کا مقدمہ چل رہا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ جب یہ سیاستدان اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو میرٹ پر بھرتی کیے گئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی حق تلفی کرتے ہوئے ان کی جگہ نا لائق اور کم تعلیم یافتہ افراد کو خصوصی رعایت دے کر تحصیلدار‘ اے ایس آئی‘ ایکسائز انسپکٹر‘ اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر‘ فوڈ انسپکٹر‘ پولیس میں سب انسپکٹرز‘ غرض ہر سرکاری محکمے میں گریڈ ایک سے لے کر سولہ گریڈ تک بغیر کسی اخبار میں اشتہار دیے ہزاروں غیر قانونی طور پر بھرتی کر لیتے ہیں لیکن مجال ہے کہ اب تک کسی نے ان سے پوچھنے کی ہمت کی ہو‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قانون یا متعلقہ اداروں کے پاس کوئی ثبوت نہیں‘ بلکہ اصل وجہ وہ مٹی ہے جو بعض اوقات کسی حکم تو بعض اوقات کسی مصلحت کے تحت ان کیسز پر ڈال دی جاتی ہے۔اگر کبھی کسی نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوال اٹھا یا بھی تو یہ کہہ کر معاملے کو ٹھپ کر دیا گیاکہ ''چھوڑیں جی‘ اب مٹی ڈالیں ‘‘ آپ نے اس سے اب کیا نکالنا ہے ؟یہ ملک اور اس کے عوام اپنے جنم سے جس تنزلی اور زبوں حالی کا شکار چلے آرہے ہیں‘ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ جو سامنے آتی ہے وہ ہر معاملے پر مٹی ڈالنے کی یہ عادت ہے۔
''مٹی پاؤ‘‘ کے فارمولے کے تحت مٹی تلے دبے ان کیسوں کا اگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو اس حوالے سے سب سے پہلے دھیان انتقال کے روز بانیٔ پاکستان کے ساتھ برتی گئی اس بے توجہی کی طرف جاتا ہے جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ یہ سچ قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا کہ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح جیسی شخصیت کے حوالے سے ایسا غیر ذمہ دارانہ رویہ کس کے حکم اور شارے پر اختیار کیا گیا۔اگر اس معاملے پر مٹی نہ ڈالی جاتی اور سچ سب کے سامنے لایا جاتا تو تبھی اُن عناصر کا قلع قمع ہو جاتا جو ذاتی مفادات کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جاتے ہیں‘ پھر چاہے ان کا یہ اقدام ملک دشمنی ہی کیوں نہ قرار پائے۔قائدا عظم کی وفات کے بعد وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ آج تک اس قتل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا تا ہے بلکہ اب تو یہاں تک کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے قاتل کو جلسہ گاہ کی پہلی قطار میں بٹھانے والوں نے کیا اس کی تلاشی نہیں لی تھی حالانکہ وی وی آئی پیز جس تقریب میں بھی جاتے ہیں وہاں پہلی دو قطاریں پولیس اور سکیورٹی اداروں کے افسران اور اہلکاروں کیلئے مخصوس ہوتی ہیں۔ پھر لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کرنے والوں کا جہاز کریش ہو جاتا ہے اور یہ معاملہ وہیں ٹھپ ہو جاتا ہے۔ یوں پہلے وزیر اعظم کے دن دہاڑے قتل پر مٹی ڈال دی گئی‘ اگر یہ مٹی نہ ڈالی جاتی تو قاتلوں کے چہرے قوم کے سامنے بے نقاب ہو جاتے ۔
اگر پنجاب اور سندھ کے کھربوں روپے مالیت کے سرکاری پلاٹس کارکنوں اور من پسند لوگوں پر نوٹوں کی طرح نچھاور کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے صاف اور شفاف تحقیقات کی جاتیں اور پاکستانی عوام کی ملکیت ان پلاٹس کی انکوائری کی جاتی اور اس کیس پر مٹی نہ ڈالی جاتی تو سوچئے کہ ان کھربوں روپوں سے کتنے نئے ہسپتال‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں آتیں۔ پنجاب کی ہر ڈویژن میں دل اور بچوں کے امراض کا ایک بہترین ہسپتال بن سکتا تھا لیکن اوپر نیچے براجمان اہلِ حکم نے امدادِ باہمی کے تحت ان کیسز پر مٹی ڈال دی۔ دیکھا جائے تو یہ مٹی اس ملک کے بھوک سے بلکتے بچوں‘ بوڑھوں‘ کروڑوں غریبوں اور ایسے مریضوں کی قبروں پر ڈالی گئی ہے جو علاج کی سہولیات اور خوراک نہ ملنے پر سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔