چند روز نہیں‘ بلکہ ایک ایک منٹ اور ایک ایک لمحے کی داستان بیان کرنے کیلئے طویل وقت چاہیے۔جو کچھ گزشتہ چند روز میں خیبرپختونخوا میں سوات سے پشاور‘ چارسدہ سے دیر و مالاکنڈ اور مردان سے وزیرستان تک دیکھنے اور سننے کو ملا ہے‘ اس پر خود فریبی کی شکار سیاسی جماعتیں جو چاہیں نتائج اخذ کریں لیکن یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کے پی میں اس وقت سیاست کے ڈائنامکس ہی بدل چکے ہیں۔اب صرف مرد یا جوان ہی نہیں بلکہ بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی کثیر تعداد بھی سیاسی لحاظ سے کافی فعال نظر آ رہی ہے بلکہ جو کچھ میں نے دیکھا‘ اس کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ خواتین کا جذبہ اور جوش و خروش اس وقت کہیں زیادہ ہے جو ویسے شاید ورکرز کنونشنز یا اب تک ہوئے جلسے جلوسوں میں اس طرح نظر نہیں آ رہا مگر یہ کہا جائے کہ پشتون خواتین اس دن کا بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں جب وہ الیکشن کے دن اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے باہر نکلیں گی تو غلط نہ ہو گا۔ اس میں اگر کسی کو ذرا سا بھی شک ہے تو وہ کے پی کی کچی آبادیوں اور سڑکوں کے کنارے آباد چھوٹے چھوٹے دیہات اور گائوں کے ایک ایک گھر کا وزٹ کر کے دیکھ لے۔ ان دور‘ دراز علاقوں کا سروے کروا کے دیکھ لیں‘ نتائج مختلف نہیں نکلیں گے۔ وہ لوگ جو تحریک انصاف کو چھوڑ کر جا چکے ہیں‘ اس وقت اپنے حجروں میں دبک کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میری ایسے کئی افراد سے ملاقات ہوئی جو اپنی پریس کانفرنسوں اور دوسری پارٹیوں میں شمولیت کو سب سے بڑی سیاسی غلطی بلکہ اپنے سیاسی کیریئر کا خاتمہ قرار دے رہے ہیں۔ ایک ایسی سیاسی شخصیت‘ جس کا کے پی میں بڑا نام ہے‘ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنی مجبوریوں کا رونا روتے ہوئے بتایا کہ وہ کیا اسباب بنے جس کی وجہ سے انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے۔ گزشتہ چند دنوں سے جو کچھ اپنی آنکھوں اور کانوں سے دیکھ اور سن رہا ہوں‘ وہ ایک ایسے ریفرنڈم کا نظارا دکھائی دیتا ہے کہ جو آج تک کسی نے دیکھا اور نہ ہی سنا ہو گا۔
خیبرپختونخوا کی سیاست کی بات کی جائے تو کچھ افراد دن رات کوشاں ہیں کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ''پنسل‘‘ سے منسلک کر دیا جائے اور اس میں انہیں کچھ حد تک کامیابی مل بھی رہی ہے۔ حیران کن یہ امر ہے کہ ولی خان کے پرستاروں کو بھی پرویز خٹک کے ساتھ شامل کرایا جا رہا ہے۔ اگر صرف نوشہرہ کی بات کی جائے جوپرویز خٹک صاحب کا آبائی ضلع ہے‘ تو نوشہرہ سے خٹک صاحب نے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی ضلع میں ایک قومی اسمبلی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست سے ان کے داماد ڈاکٹر عمران الیکشن لڑیں گے۔دو صوبائی حلقوں پر خٹک صاحب کے بیٹے ابراہیم خٹک اور اسماعیل خٹک امیدوار ہوں گے اور باقی دو سیٹوں پر بھی ان کے بھانجے اور بھتیجے امیدوار ہیں۔ اسی طرح سوات میں سبھی سیٹوں پر پی ٹی آئی پی کے ٹکٹ پر محمود خان اور ان کے رشتہ دار الیکشن لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں مگر نوشہرہ اور سوات نہیں‘ پورے کے پی کے گلی کوچوں میں گھوم پھر کر دیکھ لیں‘ اب موروثی سیاست کا دور ختم ہو چکا۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی جس وقت اٹک جیل میں تھے‘ اس وقت ہی ان کے جانشین سے متعلق سوچ بچار شروع ہو گئی تھی کیونکہ اپنی گرفتاری سے کوئی دو ماہ پہلے ہی زمان پارک میں ہونے والی ملاقاتوں میں وہ سب کو بتانے لگ گئے تھے کہ ان سے متعلق فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ انہیں سخت سے سخت سزا سنائی جائے گی اور وہ ہر چیز کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ پارٹی کی چیئرمین شپ سے علیحدگی اسی ایجنڈے کا پہلا نکتہ تھی لیکن جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے‘ وہ یہ کہ جب تک وہ کچھ برس تک سیاست سے علیحدہ ہونے کا اعلان نہیں کر دیتے‘ اس وقت تک مشکلات در مشکلات ان کی منتظر رہیں گی۔ ان کے مقدمات پر گہری نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ عنقریب توشہ خانہ کا معطل فیصلہ بحال ہو جائے گا جبکہ سائفر کا کیس بھی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ اس میں سزا کے ساتھ ہی نااہلی کا بھی امکان ہے اور سیاست میں نااہلی کا مطلب ہے کہ آپ سیاسی میدان میں تنہا رہ جائیں۔ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کا پروگرام کوئی نیا نہیں بلکہ اس کے لیے گزشتہ سات برس سے پلاننگ کی جا رہی تھی۔ شاید لوگ بھول گئے ہوں گے کہ لاہور کی بیٹھکوں میں کس کس نے ان کی نااہلی کا کیس تیار کرایا اور ایک صاحب بڑے دعوے سے اپنی نجی محافل میں کہا کرتے تھے کہ بہت جلد میرا ڈنکا بجے گا لیکن موصوف کی سب چالاکیاں دھری کی دھری رہ گئی تھیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اب پھر سے نئی برات کی تیاریاں جاری ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی دینے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں تو انہوں نے عدالت کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ''بھٹو اپنی قبر سے بھی اس ملک پر حکومت کرے گا‘‘ اور پھر سب نے دیکھا کہ بھٹو اپنی قبر سے اس ملک پر حکومت کرتا رہا۔ اگر دیکھا جائے تو سیاسی طور پر بھٹو کی موت اس وقت ہوئی جب مجاوروں نے بھٹو کی قبر کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت خیبر سے کراچی تک صرف سیاسی مقبولیت کس کے پاس ہے‘ یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے اور جو اپنی چند بوٹیوں کے لیے سارا اونٹ ذبح کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ اپنے اقدامات کے مضمرات سے قطعی غافل ہیں۔ پی ٹی آئی یا بلے کو سیاست سے باہر رکھنا نہ تو سیاسی عمل کے لیے نیک شگون ہے اور نہ ہی اس میں ملک و قوم کا کوئی بھلا ہو گا بلکہ اس سے بلوچستان اور کے پی کے وہ علاقے جہاں اس وقت پی ٹی آئی کا ڈنکا بج رہا ہے‘ انہیں نہایت منفی پیغام جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آئی پی پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی صورت میں علاقائی پارٹیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے حالانکہ ملک و قوم کو ایک قومی پارٹی ہی یکجا کر سکتی۔ علاقائی جماعتوں کے فروغ سے علاقائیت، صوبائی، نسلی اور لسانی تعصب کو فروغ ملے گا مگر ان نتائج پر بھی کوئی غور نہیں کیا جا رہا۔ کسی بھی مقبول سیاسی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر رکھنا یا باہر کرنے کی کوششیں کرنا‘ یہ سازشیں بعد ازاں اس قدر مہنگی پڑتی ہیں کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
چند روز ہوئے راجہ پرویز اشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں گزشتہ سال جولائی میں پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پہ ہونے والے ضمنی انتخابات بارے جو انکشافات کیے‘ وہ سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ ایک اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے خلاف (ن) لیگ انہی منحرف ارکان کو ٹکٹ دے رہی ہے جو ان سیٹوں سے الیکشن جیتے تھے۔ ان سب کے اپنے اپنے حلقوں میں دس سے پندرہ ہزار ذاتی ووٹ ہیں اور نواز لیگ کے ٹکٹ سے بیس سے پچیس ہزار مزید ووٹ ان امیدواروں کے کھاتے میں آ جائیں گے۔ اس لیے بے فکر رہیں پی ٹی آئی زیادہ سے زیادہ تین یا چار نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو سکے گی اور اس کے بعد پنجاب میں پی ڈی ایم اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی مگر اس الیکشن کا جو نتیجہ نکلا‘ راجہ پرویز اشرف کے بقول ''اس نے سب کی سانسیں گلے میں اٹکا کر رکھ دیں‘‘۔
اب تک ہوئے لاتعداد سرویز کی رپورٹس نے سیاسی جماعتوں کی جھنجلاہٹ میں کئی گنا ا ضافہ کیا ہے۔ الیکشن کے نتائج انہیں دیوار پر لکھے دکھائی دے رہے ہیں۔ گوکہ اعدادو شمار کے گورکھ دھندے سے ابھی تک خود فریبی کا سلسلہ ختم نہیں ہوا مگر ایک بات طے ہو چکی ہے کہ اربوں روپے لگا کر بھی وہ اپنے مخالف فریق کی مقبولیت میں کمی نہیں کر سکی ہیں۔ کون سا حربہ ہے جو اب تک نہیں آزمایا گیا۔ ہر طرح کی غلاظت انڈیلنے کا بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا کیونکہ سیاسی جماعتیں یہ سمجھ ہی نہیں پا رہیں کہ جتنا وہ دبانے کی کوشش کریں گی‘ ردعمل اتنا ہی زیادہ ہو گا اور کے پی میں گزشتہ چند دن سے میں یہی مشاہدہ کر رہا ہوں۔