ملک میں سیاسی شخصیات کے ادوارِ حکومت اور ان کے حصے میں آنے والے کل عرصۂ اقتدار کی بات کریں تو غیرجمہوری حکومتوں کے بعد ملک پر سب سے زیادہ حکومت کرنے والے جو نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں اُن میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سرفہرست ہیں۔ اگر میاں نواز شریف کے صرف وزارتِ عظمیٰ کے دور کی بات کریں تو وہ 3300سے زیادہ دنوں تک وزارتِ عظمیٰ کے عہدِ جلیلہ پر فائز رہے۔ اس عرصۂ اقتدار کے دوران انہیں مخلوط حکومت کی صورت میں اپنا اقتدار کسی سے شیئر بھی نہیں کرنا پڑا بلکہ اپنے دورِ اقتدار کے دوران حکومت کی باگ ڈور پوری طرح ان کے ہاتھوں میں رہی۔ ان عہدوں تک پہنچنے میں انہیں معاونت ضرور حاصل ہوئی ہو گی لیکن ان کے اقتدار میں کوئی دوسرا فریق شامل نہیں تھا۔ یاد رہے کہ یہ صرف وزارتِ عظمیٰ کے دور کی بات ہو رہی ہے‘ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا دور اس کے علاوہ ہے۔ اُن کے برادرِ خورد میاں شہباز شریف کی بات کریں تو شنید ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں وہ ایک نئی جگہ‘ ایک نئے ضلع اور ایک اجنبی انتخابی حلقے سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے ہیں۔ یہ حلقہ NA-132ہے۔ ان کے نائبین کی طرف سے ابھی سے یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ وہ کامیاب ہونے کے بعد کھڈیاں خاص کو پیرس بنا دیں گے۔ ان کے کاغذاتِ نامزدگی حاصل کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اب ایک نئے نعرے اور ایک نئے عزم کے ساتھ کھڈیاں خاص سے انتخاب میں حصہ لینے والے ہیں تاکہ وہ یہاں سے رکنِ قومی اسمبلی بن کر اس علا قے کی حالت بدل سکیں۔ یہ تو روایتی انتخابی وعدے اور دعوے ہیں جو ہر صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقے سے کھڑا ہونے والا ہر میدوار اپنے ووٹروں سے کر رہا ہے لیکن شہباز شریف تو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر بھی دو مرتبہ فائز رہ چکے ہیں اور حال ہی میں تقریباً 490دنوں تک ملک کے وزیراعظم رہے ہیں اور اس دوران انہوں نے اقتدار سے خوب لطف بھی اٹھایا ہے کہ انہیں کسی اپوزیشن کا سامنا بھی نہیں تھا‘ تب انہیں اس علاقے اور علاقہ مکینوں کے مسائل حل کرنے کا خیال کیوں نہ آیا۔ اپنے دورِ اقتدار کے دوران وہ اس علاقے کے مسائل سے غافل کیوں رہے۔ اور اب روایتی سیاستدانوں کی طرح اس حلقے کے ووٹرز سے اس حلقے کو پیرس بنانے کے وعدے کیوں کیے جا رہے ہیں۔ اپنی انتخابی مہمات میں تو امیدوار اپنے انتخابی حلقوں میں عالمی معیار کے ہسپتال‘سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں‘ کھیل کے میدان اور نہ جانے کیا کیا بنانے کا وعدے کرتے ہیں لیکن انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اقتدار کی راہداریوں میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ اگلے انتخابات تک اُنہیں اپنے حلقے یا حلقے کے عوام کا خیال تک نہیں آتا۔ اور جیسے ہی اگلے انتخابات کا بِگل بجتا ہے وہ پھر سے اپنے روایتی وعدوں اور دعووں کے ساتھ حلقے کے عوام کے سامنے آ موجود ہوتے ہیں۔ کھڈیاں خاص کے ووٹروں کو بھی آج کل اسی قسم کے وعدوں سے پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس حلقے کے عوام کے کان عرصۂ دراز سے اسی قسم کے وعدے اور دعوے سن سن کر پک چکے ہیں۔ مئی2013 کے عام انتخانات کی انتخابی مہم کے دوران کھڈیاں خاص میں ایک بڑے جلسۂ عام میں میاں نواز شریف نے اپنے سامنے بیٹھے حاضرین سے وعدہ کیا تھا کہ '' کھڈیاں والو تمہاری طرف سے میڈیکل کالج اور یونیورسٹی کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ بے فکر ہو کر بڑی اکثریت سے (ن) لیگ کو کامیاب کرائو‘ میںوعدہ کرتا ہوں کہ کامیاب ہونے کے بعد تحفے کے طور پر آپ کو یونیورسٹی اور میڈیکل کالج دیا جائے گا‘‘ ۔ ان انتخابی وعدوں کے برعکس کامیاب ہونے بلکہ پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود اس حلقے کے عوام کو کوئی کالج یا یونیورسٹی تو کیا‘ کوئی پرائمری سکول تک نہیں دیا جا سکا۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے صرف وزارتِ عظمیٰ کے دور کا حساب کیا جائے تو یہ تقریباً 3800دن کا عرصہ بنتا ہے۔ دونوں بھائی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں‘ اور وہ بھی ایک سے زائد بار‘ تو کیا یہ عرصہ کم ہے؟ اس دوران ملک تو چھوڑیں‘ صرف یہ بتا دیا جائے کہ اپنے اپنے انتخابی حلقوں کی بہتری کے لیے کیااقدام کیے گئے؟
یہی کہانی ہر اُس حلقے کی ہے جہاں سے دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت الیکشن لڑی اور کامیاب ہو کر اقتدار کے مزے لوٹے۔ آج اُن حلقوں میں جا کر دیکھ لیں‘ وہاں کے عوام صحت اور تعلیم جیسی بنیادوں سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ اور ہمارے ملک کا نظام بھی ایسا عجیب ہے کہ یہاں تب تک کسی حلقے‘ شہر یا گاؤں کی حالت بہتر نہیں ہوتی جب تک اُس حلقے سے کامیابی حاصل کرنے والی شخصیت وہاں ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کرواتی۔ ویسے تو یہ بلدیاتی حکومتوں کے کام ہیں لیکن وفاق اور صوبوں میں اپنی حکومت بنائے رکھنے اور ان حلقوں کے ووٹرز کو اپنے ساتھ انگیج رکھنے کے لیے کبھی بلدیاتی حکومتوں کو مضبوط ہی نہیں کیا گیا۔اس حوالے سے دوسرا مخمصہ یہ ہے کہ اس وقت پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب کے اضلاع میں جو افراد ریٹرننگ افسران مقرر کیے گئے ہیں‘ اُن میں سے بیشتر کو پی ڈی ایم حکومت میں تعینات کیا گیا تھا‘ اور چونکہ الیکشن کی کامیابی میں ریٹرننگ افسران کے کردار سے تو سبھی واقف ہیں‘ یہی وجہ تھی کہ بیوروکریسی سے انتخابی عملہ لینے پر تحریک انصاف کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
قصور کا قومی اسمبلی کا حلقہ NA-132‘خوش قسمتی کہہ لیں یا بد قسمتی‘ ہماری جنم بھومی ہے‘ جہاں کبھی ہمارا بھی ووٹ ہوا کرتا تھا لیکن اس دفعہ ہم اس بہت بڑے دنگل میں اپنے رائے دہی کے اظہار کی سعادت سے محروم رہیں گے ۔اس حلقے سے میاں شہباز شریف کے قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کی خبر کے بعد مسلم لیگ (ن) کے حامی ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں کہ اب اس حلقے کی حالت بدل جائے گی۔ کھڈیاں خاص کو بھی لاہور کی طرح پیرس بنا دیا جائے گا‘ کھڈیا ں خاص کے نواح عثمان والا میں ائر پورٹ بن جائے گا اور کوٹ رادھا کشن میں یونیورسٹی بن جائے گی‘ وغیرہ وغیرہ۔
میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے وزارتِ عظمیٰ اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دورِ اقتدار کا مشترکہ دورانیہ دیکھیں تو یہ عرصہ کم و بیش 19سال بنتا ہے۔ یہ کوئی تھوڑا عرصہ نہیں ہے۔ دو دہائیوں میں ایک ملک ترقی کی کئی منازل طے کر لیتا ہے۔ اسی عرصے کے دوران لیکن اُن حلقوں کی حالت نہیں بدل سکی جہاں سے یہ شخصیات الیکشن جیت کر اقتدار کا حصہ بنتی رہیں۔ ایک جماعت کے لیے اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ وہ 19سال تک اقتدار میں رہی۔ لیکن اس دوران وہ عوام کی حالت میں کوئی بہتر نہیں لا سکی۔ یہ حکومتیں بھاری اکثریت سے قائم ہوتی رہیں لیکن اس بھاری مینڈیٹ کو بھی عوامی مفادات کے لیے کام میں نہیں لایا جا سکا۔ ایک وقت میں پنجاب اسمبلی میں تو یہ حالت تھی کہ وہاں اپوزیشن میں صرف چھ لوگ تھے۔ اُن چھ افراد میں بھی جو شخص اپوزیشن لیڈر بنا وہ اپوزیشن لیڈر سے زیادہ حکومتی بینچوں کا نمائندہ لگتا تھا۔ یہ صرف کھڈیاں خاص کے قومی اسمبلی کے ایک حلقے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ملک بھر کے قومی و صوبائی حلقوں سے کھڑے ہونے والے امیدوار عوام کو ایسے ہی جھانسوں میں پھنسا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ اب عوام نے کرنا ہے کہ اس بار بھی سیاستدانوں کے روایتی وعدوں میں آنا ہے یا اپنے ووٹ کے صحیح استعمال سے ایسے لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانا ہے جوسہی معنوں میں ان کے خیر خواہ ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد ان کی حالت بدل سکتے ہیں۔