"MABC" (space) message & send to 7575

کرسی کا استحکام اور انتخابات کا میلہ

اس وقت نجانے کیوں 8 فروری کے انتخابات پر بہت سے سائے منڈلاتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ متعدد بار واضح کر چکی کہ انتخابات ایک دن بھی آگے نہیں جائیں گے‘ اس کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر دھند چھائی ہوئی ہے۔ واضح عدالتی فیصلے کے باوجود جمعہ کے روز سینیٹ میں چودہ ارکان کی موجودگی میں ایک قرارداد منظور کر کے انتخابات کے التوا کے شبہات کو تقویت دی گئی۔ چند ارکان کا سینیٹ میں یکایک قرارداد پیش کرنا اور اس قرارداد کا فوری طور پر منظور ہو جانا اور کسی رکن کی جانب سے کورم کی نشاندہی نہ کرنا‘ یہ پُراسرار سرگرمی کم از کم اس بات کو ثابت کر دیتی ہے کہ بات محض ایک قرارداد کی حد تک نہیں ہے بلکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ایک ممبر کو اچانک بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ الیکشن ملتوی کرنے کے لیے کوئی قرارداد پیش کی جائے اور پھر اس نے فوری قرارداد پیش کر کے اس پر ووٹنگ بھی کرا لی جبکہ اس کے لیے وقت بھی ایسا چنا گیا جب سینیٹ کا اجلاس لگ بھگ ختم ہو چکا تھا اور ممبران ایوان سے نکل گئے تھے۔ نہیں! یقینا ان ''آزاد‘‘ ممبران کو کہیں سے کہا گیا ہو گا۔ کیوں کہا گیا ہو گا‘ اس کے پس منظر سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔ شنید ہے کہ اس قرار داد کے بعد کچھ افراد لاہور سے مرکز کے چکر ہی کاٹتے رہے۔ یہ بھی سننے میں آ رہا کہ نئی نئی پڑنے والی برف سورج نہ نکلنے کے سبب پگھل نہیں رہی‘ اس لیے اب ہاتھوں سے برف صاف کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میدان تو خیر پہلے ہی سے تیار کر لیا گیا تھا‘ اصل مسئلہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ٹکٹوں کی اس طرح سے تقسیم کا ہے کہ کرسی کا ''استحکام‘‘ سلامت رہے کیونکہ اتنی محنت سے اور انتہائی قیمتی درخت کی لکڑی سے تیار کی گئی کرسی کا استحکام بہت ضروری ہے اور سارا معاملہ استحکام ہی کا ہے۔
ابھی تک سیاسی جماعتوں کے انتخابی اتحاد کے حوالے سے کچھ واضح نہیں ہو سکا۔ ایک دن ایک خبر آتی ہے‘ اگلے دن اس کی تردید آ جاتی ہے۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو باخبر افراد کا کہنا ہے کہ کچھ ایسی نشستیں ہیں جن کے لیے نواز شریف کسی دوسرے کو واک اوور دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وفاق کے ساتھ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی بھی اپنے پاس رکھی جائے اور اس کے لیے جو نام انہوں نے تجویز بلکہ فائنل کیا ہے‘ وہ سب جانتے ہیں۔ اس سے وہ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انتخابی اتحاد کے معاملات تاحال اٹکے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے تک صورتحال یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ وہ واپسی کے لیے بھی تیار ہو گئے تھے لیکن اس دفعہ ان کی پہلی منزل لندن نہیں بلکہ ایک خلیجی ملک ہو گا جہاں بیٹھ کر وہ الجھی ہوئی ڈور کے سرے ترتیب دینے کے کمالات دکھائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے کو اس پر اعتراض ہو مگر چونکہ ان کے پاس ترپ کے بہت سے پتے ہیں اس لیے وہ بقیہ کھیل اُدھر بیٹھ کر کھیلنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ البتہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ابھی وہ لندن جانے کے موڈ میں نہیں۔
شنید ہے کہ ہفتوں سے جاری مذاکرات لگ بھگ طے پا چکے ہیں لیکن کرسی کے استحکام کیلئے ابھی بہت سی باتیں تسلیم کرنا ہوں گی جس کے لیے وہ ہامی بھر چکے ہیں۔ 13 جنوری کو انتخابی امیدواروں کو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ جمع کرانا ہیں۔ ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگرچہ اگلے تین‘ چار روز میں سب کچھ واضح ہو جائے گا‘ اگر (ن) لیگ پنجاب میں 25 اور مرکز میں 14 نشستیں اتحادیوں کے لیے چھوڑ دے اور اگر کے پی میں سات نشستوں کے سوا باقی سب پر اپنی نمائندگی ختم کرتے ہوئے پی ٹی آئی پی کو سپورٹ کرتے ہوئے اپنے امیدواروں کی قربانی کا اعلان کر دے تو سمجھ لیجئے گا کہ اقتدار کی تقسیم کا فارمولا طے پا چکا ہے۔ جہاں تک سندھ اور بلوچستان کی بات ہے تو ان سے متعلق باخبر لوگ پورے وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ یہ دونوں صوبے ''سائیں‘‘ کو عطا ہوں گے۔ اس کی کچھ تائید ان باتوں سے ہوتی ہے کہ سابق نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے جب اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تو اس وقت کہا جا رہا تھا کہ وہ مسلم لیگ نواز کا حصہ بنیں گے، کیونکہ اس سے قبل ایک انٹرویو میں وہ خود بھی اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے مگر حیرانی اس وقت ہوئی جب وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ بلوچستان کی نگران کابینہ سے مستعفی ہونے والے دیگر دو اراکین نے بھی پیپلز پارٹی ہی کے ٹکٹ کو ترجیح دی۔ مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف نے جب بلوچستان کا دورہ کیا تھا تو کئی افراد کی پارٹی میں شمولیت اور کئی مقامی پارٹیوں سے ان کے اتحاد کی خبریں سامنے آئی تھیں مگر اب بلوچستان کے لیے ٹکٹوں کا اعلان ہوا تو چند امیدواروں نے (ن) لیگ کا ٹکٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ ایک امیدوار کو (ن) لیگ کا ٹکٹ دینے کا اعلان ہواتو اس نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت ہی کی تردید کر دی۔
گزشتہ چند ہفتوں سے یہ افواہیں اور قیاس آرائیاں گردش میں تھیں کہ جلد ہی لندن واپسی کا اعلان ہونے والا ہے حالانکہ ایسے کوئی معاملات زیرِ غور نہیں تھے۔ آٹھ فروری پر چھائی دھند کا سارا جھگڑا نشستوں کی ٹکٹوں کے سبب ہے۔ چار‘ پانچ اندرونی گروپ چاہتے ہیں کہ ان کو اور ان کے خاندان کے لوگوں کو سب سے اگلی نشستوں پر رکھا جائے جبکہ 'انتظامیہ‘ چاہتی ہے کہ یہ لوگ اپنے ساتھ ''مہمانوں‘‘ کو بھی بٹھائیں۔ یہ ہے وہ جھگڑا جو اس ملک کی سیاست پر گہرے سیاہ بادلوں کی طرح چھایا ہوا ہے اور انہی بادلوں کی وجہ سے ہر جانب اندھیرا نظر آ رہا ہے۔ سب کو یاد ہو گا کہ پی ٹی آئی حکومت میں عدم اعتماد کے وقت جن اراکین کو توڑا گیا تھا‘ ان میں سے بیشتر کا تعلق پنجاب سے تھا اور ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے عام انتخابات میں انہیں پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا۔ اس کے بعد یہی حربہ پنجاب اسمبلی میں بھی آزمایا گیا مگر پنجاب میں 17 جولائی 2022ء کے ضمنی انتخابات میں منحرف اراکین کو ٹکٹیں دینے کا فیصلہ خاصا بھاری ثابت ہوا‘ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ پارٹیاں اب اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتی نظر آ رہی ہیں۔ لیگی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ منحرف اراکین کی سیٹوں پر استحکام پارٹی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے لیکن وہ لوگ جو باقاعدہ پریس کانفرنس کرنے کے بعد استحکام پارٹی میں شامل ہوئے‘ ان کے لیے نواز لیگ اپنے ووٹروں کو ناراض نہیں کرے گی۔ راولپنڈی سے غلام سرور خان قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے لیے فیاض الحسن چوہان کا نام خاص طور پر سامنے آیا ہے کہ ان کی نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو گی۔ دوسرے دھڑے کا مگر یہ کہنا ہے کہ اگر چودھری نثار علی خاں کے مقابلے میں غلام سرور خان کی حمایت نہ کی گئی تو یہ نشست چودھری نثار آسانی سے جیت سکتے ہیں‘ کیونکہ غلام سرور خان کو اب تحریک انصاف کی حمایت میسر نہیں ہو گی۔ پی ٹی آئی اور چودھری نثار کا اتحاد آگے چل کر مزید مشکلات بھی کھڑی کر سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین، علیم خان، خاکوانی، نوانی اور شاہانی کی سیٹوں پر بات ہو چکی ہے‘ لیکن ہمایوں اختر اور علی گوہر بلوچ کے مابین ایک کا انتخاب مشکل ہے۔ اسی طرح کئی دیگر سیٹیں ہیں۔ فیصل آباد میں بھی (ن) لیگ کاووٹر راجہ ریاض سے شاکی نظر آتا ہے لہٰذا وہاں بھی حالات زیادہ سازگار نہیں۔
ان حالات میں الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کا استعفیٰ معمولی بات نہیں ہے۔ اسی طرح سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا انٹرویو بھی بہت اہم ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اگلے دس‘ پندرہ دن مزید کیا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ بہرحال ملک میں سیاسی میلہ بھر پور طریقے سے سجنے کیلئے تیار ہے اور اس کا پورا لطف انہیں ہی میسر آئے گا جو ٹکٹ لے کر اندر داخل ہو جائیں گے‘ جو لوگ باہر سردی میں ٹھٹھرتے رہیں گے یا جو ٹکٹ لینے کے باوجود اندر داخل ہونے سے قاصر رہیں گے‘ عنقریب وہ ایک نیا محاذ کھولتے نظر آ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں