جناب جاوید حفیظ اپنے کالم بعنوان ''قائد اعظمؒ کا پاکستان اور ہم‘‘ میں لکھتے ہیں: ''مجلسِ احرار نے 1944ء میں قائد اعظمؒ سے کہا کہ آپ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا وعدہ کریں ہم آپ کو سپورٹ کریں گے۔ قائد اعظمؒ نے ایسا وعدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا‘‘۔
یہ تو ''مبارکی تحقیق‘‘ ہوئی، نہ کوئی ٹھوس حوالہ، نہ سیاق و سباق کا پاس۔ نری بدنیتی اور شرارت، جبکہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ قیامِ پاکستان کی سپورٹ کے لیے مشروط یا غیر مشروط تعاون کی مجلس احرار نے کبھی پیش کش نہیں کی۔ تاہم ایسے ثبوت موجود ہیں کہ قائد اعظمؒ نے انہیں مسلم لیگ اور تحریکِ قیامِ پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ فاضل کالم نگار نے 1944ء کی بات کی ہے، اسی سال 30 اپریل 1944ء کو قائد اعظمؒ نے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے اختتامی اجلاس سیالکوٹ میں بھی اپنی یہ دعوت دہرائی‘ جس کا جواب نفی میں ملا۔ آل انڈیا مجلس احرار کی ورکنگ کمیٹی نے یکم جولائی 1944ء کو آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت سے متعلق قائد اعظمؒ کی دعوت مسترد کر دی۔ احرار نے تو اپنے لیڈر چودھری افضل حق مرحوم کی بھی نہ مانی تھی۔ آغا شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ''چودھری افضل حق واحد شخصیت تھے جنہیں احرار کا شہ دماغ کہا جاتا اور جو مختلف حلقوں کی سیاسی چالوں سے کماحقہ‘ واقف تھے..... وہ سیاستدان بھی تھے اور مدبر بھی، لیکن ان سے بڑھ کر وہ ایک مفکر تھے۔ چودھری صاحب احرار کے لیے تین چیزیں چھوڑ گئے تھے۔ افسوس کہ پسماندگانِ احرار نے ان پر عمل نہ کیا: ''اولاً، پاکستان کی مخالفت کرکے شہید گنج کی غلطی کا اعادہ نہ کرنا، پاکستان دکھی دلوں کی فریاد ہے۔‘‘ (بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل۔ 1972ء۔ ص:315-16)۔
چودھری افضل حق 47 برس کی عمر میں 9 جنوری 1942ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ انہوں نے اپنی اس ہدایت، نصیحت، مشورے یا وصیت میں پاکستان کا ساتھ دینے کے لیے شریعت کی پابندی عائد نہ کی تھی۔ اپنی ساری حیاتی میں مجلسِ احرار صرف ایک بار مسلم لیگ کے قریب آئی۔ 1935ء کے ایکٹ کے تحت جب 1937ء میں انتخابات ہونا قرار پائے تو 1936ء میں قائد اعظمؒ کی کوششوں سے 54 رکنی پارلیمانی بورڈ وجود میں آیا۔ اس میں مسلم لیگ، جمعیت علمائے ہند، احرار، یونٹی بورڈ اور نیشنلسٹ مسلمان شامل تھے۔جمعیت علمائے ہند، احرار اور مسلم لیگ نے ان میں حصہ لینے کے لیے جائنٹ پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا۔ جمعیت تو الیکشن کے انعقاد میں ساتھ رہی بلکہ مولانا حسین احمد مدنی نے فتویٰ دیا کہ ''جو مسلمان مسلم لیگ کے نمائندے کو ووٹ نہیں دے گا وہ دونوں جہاں میں رُو سیاہ ہو گا‘‘ لیکن احرار والے پہلے ہی بھاگ گئے۔ ان انتخابات کے بعد جب احراری لیڈر شیخ حسام الدین کی قائد اعظمؒ سے ملاقات ہوئی تو قائد اعظمؒ نے معاہدے کی خلاف ورزی اور کانگریس سے جاملنے پر ان کی سرزنش کی تو شیخ صاحب نے جواب دیا: ''سر، ہمیں فنڈز کی کمی تھی‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر‘ اردو‘ جلد دوم‘ ص:137)۔
1937ء کے انتخابات میں فنڈز کی کمی کے باعث مجلسِ احرار معاہدے سے پھر گئی۔ اور فنڈز کی یہ کمی انہیں 14 اگست 1947ء تک رہی، جبکہ قائد اعظمؒ سیاست میں خرید و فروخت کے قائل نہ تھے۔ آغا شورش کی ''بُوئے گل‘‘ میں اس کی خاصی تفصیل موجود ہے۔ آغا صاحب ایسی کئی ڈیلز کے عینی شاہد تھے۔ جاوید حفیظ صاحب 1944ء کی بات کرتے ہیں۔ اسی برس مولانا ظفر علی خان نے اپنے ایک مجموعۂ کلام چمنستان میں لکھا: ''میرٹھ میں مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی صدر مجلسِ احرار اس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیستے جاتے تھے، غصہ میں آ کر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ دس ہزار جینا اور شوکت اور ظفر جواہر لال نہرو کی جوتی کی نوک پر قربان کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ (ص:165‘ ایڈیشن: 1944ء)۔
آخر صدر مجلسِ احرار مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی اس قدر پریشان کیوں تھے کہ وہ قائد اعظمؒ، مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان کی اس قدر توہین پر اُتر آئے۔ اس کا جواب کٹر احراری آغا شورش کی زبانی: ''جہاں تک کانگریس کے روپے کا تعلق ہے وہ تو خود مولانا حبیب الرحمن کے علم میں ہے بلکہ پچاس ہزار روپے کی قسط دلوانے کے حصہ دار ہی آپ تھے..... مولانا حبیب الرحمن کلکتہ گئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم دینے کو تیار ہو گئے مگر سردار پٹیل نے‘ جو کانگریس کے خازن تھے‘ اس سے اختلاف کیا اور پچاس ہزار روپے کی رقم کا چیک لالہ بھیم سین سچر کی تحویل میں دے دیا گیا۔ جو ان کی معرفت دفتر احرار میں پہنچا۔ پھر اس رقم کی بندر بانٹ کی گئی‘‘۔ (ہفتہ وار چٹان‘ 16 اپریل 1951ء)۔
1946ء کے انتخابات کے بعد، جن میں مسلم لیگ جیت گئی‘ احرار وغیرہ ہار گئے، آغا شورش دہلی میں گاندھی سے ملاقات کے حوالے سے لکھتے ہیں: ''گاندھی جی کے ذہن میں اس پچیس لاکھ روپیہ کی غارت زدگی کا احساس تھا‘ جو عام انتخابات میں نیشنلسٹ مسلمانوں پر صرف کیے گئے، لیکن بعض لوگ صرف روپے کے لیے امیدوار ہو گئے تھے مال اینٹھا، ہڑپ کیا اور بیٹھ گئے‘‘۔ (بوئے گل‘ ص:386)۔
کانگریسی روپے کے ذریعے مجلسِ احرار متحدہ ہندوستان میں کونسی شریعت نافذ کرنے جا رہی تھی‘ حالانکہ گاندھی جی کا فرمان موجود تھا: ''سوراجیہ (آزادی) کے چاہے کتنے ہی معنی لوگوں کو بتاؤں پھر بھی میرے نزدیک سوراجیہ کا ایک ہی معنی ہے۔ اور وہ ہے رام راجیہ‘‘۔ (اخبار پرتاپ۔27 مارچ 1930ء)۔
فاضل کالم نگار لکھتے ہیں کہ مجلس احرار نے تحریکِ پاکستان کا اس لیے ساتھ نہ دیا کہ قائد اعظمؒ پاکستان میں شریعت نافذ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ احرار اور جمعیت علمائے ہند کا مدنی فارمولا گاندھی نے مسترد کر دیا‘ اس کے باوجود انہوں نے ہندو کانگریس کا آج تک ساتھ نہیں چھوڑا‘ حالانکہ یہ فارمولا مسترد کرتے وقت گاندھی نے مولانا حفظ الرحمن اور شیخ حسام الدین سے کہا تھا: ''اس سے پاکستان بہتر ہے۔ آپ لوگ لیگ میں شامل ہو جائیں تو زیادہ اچھا ہے‘‘۔ (بوئے گل۔ص:315)۔
قائد اعظمؒ بار بار اور آخر تک ہر نیشنلسٹ مسلمان اور ہر جماعت کو تحریکِ پاکستان میں شمولیت کے لیے کھلے عام دعوت دیتے رہے، لیکن بے سود۔ اس لیے بھی کہ انہیں یقین تھا کہ پاکستان تو دیوانے کا خواب ہے، جیسا کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے 1946ء میں احرار کانفرنس پسرور میں کہا تھا: ''پاکستان کا بننا تو بڑی بات ہے، کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے‘‘۔ جب یقین اس طرح کڑیل ہو تو پھر پاکستان میں نفاذِ شریعت کی شرط چہ معنی دارد۔ بلکہ 1944ء میں، اس سے پہلے اور اس کے بعد 14 اگست 1947ء تک ان کے جلسے قائد اعظمؒ کے لیے کافرِ اعظم کے نعروں، اشعار اور ہرزہ سرائی سے لبالب رہے۔ 1970ء میں جب مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی نے بھٹو صاحب کے ساتھ تعاون کیا تو جناب شورش کاشمیری نے چٹان میں لکھا، بھٹو صاحب آپ نے ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے جو قائد اعظمؒ کو کافرِ اعظم کہتے تھے۔
جناب جاوید حفیظ 1944ء کی بات کرتے ہیں۔ کلکتہ 1906ء، اجلاس کانگریس۔ قائد اعظمؒ نے وہاں بقول سروجنی نائیڈو اپنی سیاسی زندگی کی ''پہلی تقریر کی اور ان کی یہ تقریر وقف علی الاولاد پر تھی‘‘۔ اور وقف علی الاولاد ایک فقہی مسئلہ تھا۔ 17 مارچ 1911ء کو قائد اعظمؒ نے اس کا بل امپریل لیجسلیٹو کونسل میں پیش کیا۔ اس دوران میں کونسل میں اس بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے مسودے پر ''مصلحت عامہ‘‘ کے اعتراض کے ذکر میں قائد اعظمؒ نے کہا: ''.....ہم نے مسلمانوں کے معاملات میں شرع محمدیؐ کے مطابق عمل کرنا ہے، اس لیے مصلحتِ عامہ جو اسلامی جورس پروڈنس (فقہ) میں بالکل اجنبی چیز ہے ہماری بحث سے بالکل غیرمتعلق ہے۔ اور جہاں تک اسلامی جورس پروڈنس کا تعلق ہے مصلحت عامہ کوئی چیز نہیں‘‘۔ (قائد اعظمؒ اور قانون وقف علی الاولاد۔ص:60)۔
اسمبلی مباحث اور کارروائی میں سے گزرنے کے بعد مارچ 1913ء میں یہ ''قانون وقف علی الاولاد‘‘ کے نام سے منظور ہوا۔ اور قائد اعظمؒ کی پارلیمانی زندگی کا ایک تابناک کارنامہ قرار پایا۔کالم نگار کا مَوقِف ہے کہ مجلسِ احرار نے قائد اعظمؒ سے پاکستان میں نفاذَ شریعت کا مطالبہ کیا تھا، وہ نہ مانے۔ کیا گاندھی، نہرو اور دیگر کانگریسی قائدین متحدہ ہندوستان میں شریعت نافذ کرنے جا رہے تھے کہ احرار نے پاکستان کے بجائے ان کا ساتھ دیا۔ اور جس قسم کی شریعت آج ہندوستان میں نافذ ہو رہی ہے اس نے قائد اعظمؒ کا مَوقِف درست ثابت کر دیا ہے کہ ''حصولِ پاکستان کا مطلب ہماری بقا ہے۔ اس میں ناکامی کی صورت میں برصغیر میں مسلمانوں اور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا‘‘۔