تقریباً 38سوسال قبل عراق کی قدیم تہذیب بابل، سموریہ کے ایک بادشاہ ہمورابی نے 288قوانین پر مشتمل ایک دستاویز مرتب کروائی اور اس کے کتبے ہر اہم عوامی مرکز پر خاص و عام کی اطلاع کیلئے آویزاں کئے گئے۔ہمورابی کے ان قوانین میں جرائم اور ان کی سزائوں کا تعین اورتشریح کی گئی تھی۔ ہمورابی نے کہا کہ یہ قوانین اس نے خود نہیں بنائے بلکہ آسمان پر بیٹھے خدا نے اس پر نازل کئے ہیں تاکہ سماج میں عدل، انصاف اور امن قائم ہو سکے۔ یوں، ہمورابی کے قوانین کو ایک ایسا مقدس ضابطہ تصور کیا گیا جس کو خداوند تعالیٰ نے اپنے چنے ہوئے پسندیدہ بادشاہ کے ذریعہ مخلوق خدا پر نازل فرمایا، اس لئے ان کا اطلاق صرف انسانوں پر ہوتا تھا، جبکہ قانون بنانے اور نافذ کرنے والے دونوں ان سے مبرا تھے۔اس وقت تک بنی نوع انسان کے پاس قدیم ترین قانونی دستاویز ہمورابی کا مقدس قانون ہے جس کے فلسفے اور روح میں تخصیص، تفریق اور استثنیٰ موجود ہے۔آج غیر مستحکم جمہوری ریاستوں میں قانون بنانے والے پارلیمان اور قانون نافذ کرنے دونوں شعوری یالاشعوری طور پر خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ عدم استحکام کی ایک وجہ قانون بنانے اور نافذ کرنے والوں کی یہ روش بھی ہے۔
ہمورابی مصری فرعونوں کے پہلے اور دوسرے خاندان سے کم از کم پندرہ سوسال بعد کا قدیم عراقی بادشاہ تھا۔ اگرچہ ہمورابی سے بہت پہلے مصر کے فرعونوں کے احکامات اور فرمان حکم خداوندی کا رتبہ رکھتے تھے، لیکن یہ ہمورابی کے مربوط قوانین جیسے نہ تھے۔تاہم، مصری فرعونوں اور ہمورابی کے قوانین کا مقدس فلسفہ اور اس میں استثنیٰ کا نظریہ ایک تھا۔گویا آسمان پر بیٹھا مقدس دیوتا جب بھی کوئی قانون بناتا ہے وہ شروع میں ہی اس کا پورا پورا خیال رکھتا ہے کہ اس کے قوانین میں استثنیٰ موجود رہے تاکہ اس کے یکساں اطلاق سے پسندیدہ اشخاص اور اقوام کو بچایا جا سکے۔آج کے مورخین اور محققین آثار قدیمہ سے ملنے والے شواہد کی روشنی میں اس بات پر متفق ہیں کہ مصری فرعونوں کے مقدس قوانین اور فرمانوں پر سموریہ کے اس وقت کے غیر تحریری رجحانات ،ضوابط اور قواعد کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ قدیم مصر میں قانون کے امتیازی نفاذکا نظریہ اور ضرورت کے تحت اس کی تنسیخ اور ترمیم نے مصر کے فرعونوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ 3200سے 1200قبل مسیح تک قائم رہنے والی فرعون بادشاہت کے دوران خود کو خدا کا پرتوکہنے والے اکثر فرعون کمروں میں اپنے خون میں لت پت مردہ پائے گئے۔ ان کو اپنے محافظوں، بھائیوں، کزنوں،بہنوںاور بیٹوں نے قتل کر دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ 70ایام کی قلیل مدت میں 70بادشاہ بنائے گئے۔
ظاہری فرعونیت،استبداد اور اندرونی ریشہ روانیوں کی بدولت فرعونیت کا نظام اس قدر کمزور ہو گیا کہ 1200قبل مسیح کے دوران ریمیسس دوم (Ramessess-II)کے عہد میں حضرت موسیٰ ایک غلام خاندان کے ہاں پیدا ہوئے، لیکن انہوں نے پرورش ریمیسس کے محل میں پائی۔حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعونوں کی غلامی سے نکالا۔ مصر سے ہجرت کی اور کنعان کے ویران علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ جہاں پر ''مسیحائوں‘‘ کا ایک دور بھی آیا۔ بنی اسرائیل کے ''مسیحائوں‘‘ کو اقتدار سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ عوام میں رہتے اورمنتخب حکمرانوں کے رویوں اور حکمت عملیوں پر کڑی نظر رکھتے کہ کہیں وہ بھی مصری فرعونوں کی مانند خدا ہونے کے دعوے دار نہ بن جائیں۔
بنی اسرائیل میں احتساب اور قانون کے یکساں اطلاق نے انہیں ایشیا صغیر بالخصوص کنعان ، شام، فلسطین اور سموریہ تک وسیع سلطنت قائم کرنے کے قابل بنا دیا۔ مگر متحدہ اسرائیلی سلطنت میں شدید بحران پیدا ہو گیا جب ایک فوجی کمانڈر ڈیوڈ نے مروج قانونی ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مطلق العنان بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ یوں، متحدہ بنی اسرائیل میں ٹوٹ پھوٹ اور زوال شروع ہو گیا۔ اگرچہ ڈیوڈ نے بزور شمشیر اپنی بادشاہت کوبہت وسعت دی جس کا دارالخلافہ ''جیبہ‘‘ سے یروشلم منتقل ہو گیا۔یروشلم میں یہودیوں کی الگ بادشاہت کے قیام کے بعد بنی اسرائیل کی متحدہ سلطنت ختم ہو گئی۔ 922قبل مسیح کو قائم ہونے والی یہودیوں کی بادشاہت 586 قبل مسیح میں ختم ہو گئی۔ تاہم، اس دوران یہودیوں کے ایک معروف بادشاہ '' ''جوشیا‘‘ (Josiah) (640سے 609)نے کتاب مقدس کی تدوین اور ترمیم کے بعد دعویٰ کیا کہ بادشاہ ڈیوڈ ایک مقدس بادشاہ ہی نہیں بلکہ یہ خداکا بیٹا تھا۔ چونکہ یہودی ڈیوڈ کے خاندان سے ہیں، اس لئے، یہ کل کائنات اور رو ئے مین پر بالخصوص خدا کی برگزیدہ اولاد ہے جس کو خدا کی جانب سے پوری انسانیت پر حکمرانی کا فریضہ سونپا گیا ہے ۔ پوری دنیا من حیث الرعایا اس کو جوابدہ ہے جبکہ یہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں۔ ان کے حاکم کے فرمان کی خلاف ورزی کی سزا کڑی ہے کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے ۔تاریخ میں یہودیوں کو اپنے مقدس دعویٰ کی کڑی سزائیں ملیں مگر انہوں نے خدا کی پسندیدہ قوم ہونے کا دعویٰ ختم نہ کیا ۔ سکندراعظم نے جب یروشلم کو فتح کیا تو یہودی یورپ میں پھیل گئے جہاں پر وہ بڑی آسانی سے شاہی دربار میں اہم جگہ حاصل کر لیتے۔ ہر بادشاہ کو یقین دلاتے کہ انہیں زمین پر خدا کی جانب سے انسانوں پر حکمرانی کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ جب وہ بادشاہ مر جاتا یا اس کا تختہ الٹا جاتا یا اس کو قیدی بنا لیا جاتا تو یہودی آنے والے بادشاہ کے دربار میں اسی طرح براجمان نظر آتے جیسے یہ اس سے پہلے شاہی دربار میں ہوا کرتے تھے۔
یہودی، جو خود کو کائنات کے عظیم ترین لوگ سمجھتے تھے، لاکھوں کی تعداد میں قتل ہوئے، قیدی بنے، زندہ جلائے گئے مگر انہوں نے اپنا امتیازی رتبہ ترک نہ کیا۔ بادشاہ کو لوگ نہیں بلکہ خدا منتخب کرتا ہے۔ بادشاہ کا حکم خدا کا حکم ہوتا ہے۔ اس پر اعتراض یا روگردانی گناہ ہے جس کی سزا عبرتناک ہے۔ جب مغربی دنیا میں قانون سازی کا فریضہ منتخب نمائندگان نے ادا کرنا شروع کیا تو قانون کے خالق کا تصور آسمان سے زمین پر آگیا۔ اب قانون لوگ بنانے لگے۔ تاہم، یہ لوگ عام لوگ نہیں تھے۔وہ جگہ جہاں قانون بنتے ہیں وہ بھی زمین پر کوئی عام جگہ نہیں تھی۔ قانون بنانے والے لوگ ''معزز‘‘اراکین پارلیمان تھے اور اس جگہ کو ''مقدس ایوان‘‘ (The Divine House) کہا جاتا۔ جیسے جیسے جمہوریت مضبوط ہوتی گئی پارلیمان سے منسوب تقدیس کا فلسفہ ختم ہوتا گیا لیکن مغربی ممالک میں ایک مقدس ایوان کو قابل احتساب ایوان میں بدلنے میں انسانوں کو بہت قربانیاں دینا پڑیں۔ آج مغربی دنیا کے جمہوری سماج میں پارلیمان کوئی مقدس جگہیں ہیں نہ ہی اراکین پارلیمان انسانوں سے بالا ومعتبر مخلوق ہیں۔ منتخب نمائندگان کے احتساب کا مربوط نظام قائم ہو چکا ہے۔ دولت مشترکہ کی تمام جمہوریتوں میں پارلیمانوں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے کیونکہ ان کے اراکین اور انتظامیہ کو ٹیکس دہندگان کی رقوم سے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔
مغربی ممالک میں یہ سوچا تک نہیں جاسکتا کہ پارلیمان اس قانون پر خود عمل نہیں کرے گی جو یہ شہریوں کیلئے بناتی ہے، بلکہ اراکین پارلیمان پورے جمہوری سماج کے آگے ایک مثالی کردار ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ قانونی اور اخلاقی ضوابط کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ دولت مشترکہ کے مستحکم جمہوری ممالک کی پارلیمانوں کی کارکردگی کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔ ان کے بولے الفاظ، تقاریر، قانون کے پیش کردہ مسودات، منظورکردہ قوانین ، رویوں، شہرت اور اخلاقی معیار کومسلمہ ضوابط، اقدار اور رواج کو سامنے رکھ کر جانچا پرکھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مقامی عدالتیں کسی بھی قانون سازی کو خلاف ضابطہ قرار دے کر منسوخ کر سکتی ہیں۔ جب بھی کوئی رکن پارلیمان کوئی سوال اٹھاتا ہے، تحریک پیش کرتا ہے، مسودہ قانون ایوان کی میز پر رکھتا ہے تو یہ فوراً ملک و قوم کی ملکیت بن جاتا ہے جس پررکن موصوف اپنے ہی پیش کردہ مواد کی واپسی کا حق نہیں رکھتا۔ کوئی بھی رکن جس کا تعلق صنعتی شعبہ یا کسی مخصوص گروہ اور طبقے سے ہو، اس قانون پر قانون ساز ی میں ووٹ نہیں ڈال سکتا جس کا تعلق ان کے اپنے طبقے یا شعبے سے ہو۔تاہم، تیسری دنیا کی پارلیمان آج بھی ہمورابی کے مقدس قوانین کے فلسفہ اور روح کے زیر اثر ہے۔ یہ مقدس ہے۔ مطلق العنان ہے۔ احتساب سے بالاتر ہے۔ عدلیہ، محتسب، عوامی فورمز ان کی کارکردگی کے آڈٹ کا اختیار نہیں رکھتے۔ وہ رائے دہندگان، جن کے ووٹ سے پارلیمان تشکیل پاتی ہے، ان کو خود سے برتر و اعلیٰ اور عظیم ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔انجام کار، خالق جس نے بنیادی طور پر پارلیمان تشکیل دی اپنی مخلوق کے آگے جوابدہ ہے جبکہ مخلوق کسی کو بھی جوابدہ نہیں کیونکہ یہ مقتدر اعلیٰ(Sovereign)ہے۔پاکستانی پارلیمان ابھی تک اپنے قدیم فرسودہ مقدس رتبے کے مغالطوں کا شکار ہے، جس کو مغرب کی مضبوط جمہوریتیں مدت ہوئی جمہور کے قدموں تلے دفنا چکے ہیں ۔