"OMC" (space) message & send to 7575

نفرت کے سوداگر

سب کی زبانیں گُنگ ہیں، سب کے قلم خاموش ہیں، آج کسی کو نہ اقتصادی جائزے یاد آرہے ہیں اور نہ ہی استحصال کے نعرے، مقصد پورا ہو چکا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں زہر گھول کر رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تعصب کو عام کر کے‘ معصوم بنگالیوں کو بھارت کی بدترین غلامی کے شکنجے میں پھینک کر ملک کے ’’عظیم‘‘ دانشور میٹھی نیند نہیں سوئے بلکہ مدتّوں دوسری قومیتوں کے دلوں میں بھی نفرت کی چنگاریاں سلگاتے رہے۔ پختون قومیت ایک ایسا نعرہ تھا جو اُن تجزیہ نگاروں کے قلم پر روس یعنی مرحوم سوویت یونین کے سیاسی تحقیقی مراکز سے تیار ہو کر وارد ہوا تھا۔ پہلے مشرقی پاکستان پر مغربی پاکستان کے قبضے کی داستانیں بیان کی جاتی تھیں، اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو کے افسانے تراشے جاتے تھے، کھیل کامیاب ہوا تو باقی قومیتوں پر پنجابی استعمار کے ظلم کے قصّے عام کر دیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار سے لے کر 1979ء میں افغانستان میں روسی افواج کے داخل ہونے تک تمام رسالے، میگزین اور اخبار اُٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو یُوں لگے گا کہ بس پاکستان کا ایک حصہ علیحدہ ہو گا جس پر پختونستان کا پھریرا لہرا رہا ہو گا۔ سو ویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو اُن دانشوروں کا رقص دیدنی تھا۔ اُنہیں ایسے لگ رہا تھا کہ بس اب چند دنوں میں کمیونسٹ انقلاب کا قافلہ تورخم کے راستے پاکستان کی سرحد عبور کر ے گا۔ تاجکستان اور ازبکستان کے مسلمانوں کی طرح یہاں کے مسلمانوں میں اُٹھتی اُبھرتی ہوئی آوازوں کو خاموش کر دیا جائے گا۔ مسجدوں پر تالے ہوںگے، مذہب اگر ہو گا بھی تو گھر کی چاردیواری تک۔ جیسے وہاں کریم سے کریموف اور رحیم سے رحیموف بنا دیے گئے اسی طرح یہاں بھی شہباز سے شہبازوف اور نصیر سے نصیروف ہو جائیں گے۔ پختون اپنے ہم زبانوں سے مل کر اپنی محرومیوں کا ازالہ کر لیں گے اور ان کے درمیان انگریز نے جو ڈیورنڈ لائن کے نام پر تقسیم کی لکیر کھینچی تھی ایک دن ختم ہو جائے گی اور پھر یورپ میں بالٹک کے سمندر سے بحیرہ عرب تک کمیونزم چھا جائے گا۔ لیکن کراچی کے قہوہ خانوں اور لاہور کے کافی ہائوس اور ٹی ہائوس میں بیٹھے پختون معاشرے سے نابلد اور پشتو زبان کی الف بے سے ناواقف ان دانشوروں کو اس بات کا ادراک تک نہ تھا کہ پختون اگر کسی کو طعنہ بھی دے تو یہ نہیں کہتا کہ’’ تم کیسا مسلمان ہے کہ نماز نہیں پڑھتا ‘‘بلکہ یہ کہتا ہے کہ’’ تم کیسا پختون ہے کہ نماز نہیں پڑھتا‘‘۔ افغانستان کے پختونوں نے تورخم کے اُس پار اسلام سے مربوط اپنی ثقافت کے تحفظ کی جنگ لاکھوں انسانوں کے خون سے اس طرح لڑی کہ وہ دانشور جو پاکستان کو تاجکستان اور اُزبکستان کی طرح ایک بے دین کمیونسٹ معاشرے میں تبدیل ہونے کا خواب دیکھتے تھے اُنہی کی آنکھوں کے سامنے وہ چھ کی چھ اسلامی ریاستیں‘ جنہیں روس کے عسکری غلبے نے غلام بنایا تھا‘ آزاد مسلمان ممالک کی طرح دنیا کے نقشے پر اُبھریں، لینن کا مجسمہ خود اُس کے عظیم سوویت یونین میں بپھرے ہوئے ہجوم نے گرا دیا اور اُس کے نام پر جس شہر کا نام لینن گراڈ رکھا گیا اُسے پھر سے سینٹ پیٹرز برگ کہا جانے لگا۔ لوگوں میں رنگ نسل اور زبان کے تعصب کا بیج بو کر اس ملک میں خون کی ہولی کھیلنے کا کام یہ دانشور، ادیب اور سیاستدان کیوں کرتے ہیں؟۔ اس لیے کہ ان سب کو صرف ایک چیز سے چڑ ہے۔ ان کی ’’عقلِ سلیم‘‘ میں ایک بات بیٹھ نہیں پاتی کہ دنیا میں کسی ملک کی حدود اس بنیاد پر بھی تراشی جا سکتی ہیں کہ وہاں مسلمان رہتے ہیں اور وہ ایک کلمہ پڑھتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ عمرانیات، سیاسیات اور دیگر علوم کی کتابوں میں تو ایسا نہیں لکھا گیا۔ اسی لیے اس ملک کے ہر خطے میں ایسے بیج بوئے گئے۔ بلوچستان کی محرومی کی داستان بجا، لیکن اسے ایک آزادی کی تحریک کی شکل دینے میں میرے ملک کے اُن دانشوروں کا بہت کمال ہے۔ 1973ء میں جب اُنہیں یقین ہو چلا تھا کہ بس اب آرمی آپریشن‘ جو ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی انا پرستی اور عدم برداشت کی بُنیاد پر مخالف صوبائی حکومت کو ختم کرنے کے بعد شروع ہُوا تھا‘ کے خلاف روس کی مدد سے مسلح جدوجہد کے بعد کمیونسٹ انقلاب ضرور آ جائے گا، تو ملک بھر سے بڑے بڑے پنجابی اور سندھی دانشور بھی وہاں جا کر بندوق اُٹھا کر لڑنے لگے تھے۔ ان ہتھیار بند لڑاکوں میں نجم سیٹھی کا نام آج تبصرہ نگاری کی پہچان بنا ہُوا ہے۔ لیکن یہ ساری جنگ‘ جس میں ہزاروں بلوچوں کا خون بہا، حیرت کی بات ہے کہ ضیاء الحق کے صرف ایک عام معافی کے اعلان کے بعد ایسے دم توڑ گئی کہ مدتوں بلکہ دو دہائیاں ایسی گزریں کہ بلوچستان پاکستان کا سب سے پُرامن صوبہ بنا رہا۔ ان بلند پایہ لکھاریوں اور عظیم منصوبہ ساز سیاست دانوں اور فوج کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ نسل، رنگ اور زبان کے تعصّب کا ایک ہوّا کھڑا کرتے ہیں جسے سلگتی ہوئی چنگاری کی طرح ایک مسلح منظم گروہ سے آگ میں تبدیل کیا جاتا اور پھر فوج کے مخصوص دانشور اس فتنے کو کچلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ادھر لاشیں گرنا شروع ہوتی ہیں اور اُدھر ان تبصرہ نگاروں کی تحریر میں جان آ جاتی ہے۔ پاکستان وہ واحد بدقسمت ملک ہے جس کا سیاستدان، مورخ، تجزیہ نگار، دانشور ہر دوسرے دن ایسے فقرے ضرور بولتا ہے’’ یہ ملک نہیں رہے گا‘‘ ’’خدانخوانستہ یہ ٹوٹ جائے گا‘‘ ’’اس کا مستقبل مایوس کن ہے‘‘۔ ان سب کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ اس ملک میں1971ء میں ایسا ہو چکا ہے۔ایسا تو بہت سے ملکوں میں ہو چکا ہے۔ انڈونیشیا سے ایسٹ تیمور علیحدہ ہوا، سوڈان سے جنوبی سوڈان علیحدہ ہوا، فلپائن سے مندنائو علیحدہ ہوا لیکن وہاں کسی نے یہ دانشورانہ پھلجھڑی نہیں چھوڑی کہ یہ ملک نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ وہاں ایسے خواب دیکھنے اور خواہش رکھنے والے دانشور موجود نہیںہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں ملکوں کے ٹوٹنے کے ساتھ کسی کی نفرت وابستہ نہیں۔ ملک رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بُنیاد پر بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ لیکن اسلام کے نام پر یہ میرا ملک کیسے وجود میں آ گیا۔ یہ اگر ٹُوٹے گا تو دنیا بھر کے سیکولر ذہنوں کو سکون ملے گا۔ ان کی کئی سو سال سے لکھی گئی کتابیں سچ ثابت ہوں گی۔ ان کی محنت اور لگن سے 1971ء میں بنگلہ دیش نے جنم لیا تھا جسے وہ آج جب بنگالی قومیت کا ملک کہتے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ جب بنگلہ دیش کے عوام زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوئے تو متعصب ہندو بنگالیوں نے کہا: ’’تم علیحدہ رہو‘ ملیچھ مسلمانو، ہم سے دُور رہو۔ کلمہ پڑھتے ہو اس لیے تمہارا بنگال بھی علیحدہ ہو گا۔ 16دسمبر1971ء وہ دن تھا جب دوقومی نظریے کے نام پر ایک اور قوم تقسیم ہوئی اور یہ قوم تھی بنگالی۔ آج جب اس کے عوام کو اندازہ ہُوا ہے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا کر دیا گیا تو ان عالمی سطح کے عظیم دانشوروں اور سیاستدانوں کا خواب بکھرنے لگا ہے۔ ایک ہندوستان کے دونوں جانب کٹر مسلمان ممالک، یہ کیا ہو گیا۔ نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کے لیے انہیں چالیس سال پرانی آزادی کی تحریک یاد آ گئی اور اُن لوگوں کے خلاف مقدمہ شروع ہوا جو 1971ء میں مملکتِ خداداد پاکستان کے وفادار تھے۔ میں اس مقدمے کی ناانصافیوں کی طرف نہیں جائوں گا کہ اب پوری دنیا کے عقل و ہوش رکھنے والے اس پر سراپا احتجاج ہیں۔ صرف ایک سوال چھوڑے جا رہا ہوں، ان لوگوں کے لیے، جن کے قلم اس ظلم پر خاموش ہیںکہ اگر بقول اُن کے اس ملک کا مستقبل مخدوش ہے تو پھر کل اگر سوات اور وزیرستان کے جنگی جرائم پر آج سے ساٹھ سال بعد ہی سہی کوئی مقدمہ چلا توکون کون اس ٹربیونل کے سامنے پیش ہو گا؟۔ کس کس کی گردنیں کٹنے کے لیے تیار ہوں گی؟۔ بنگلہ دیش میں تو کلمہ طیبہ کی حرمت پر کٹنے کے لیے لاکھوں لوگ آج سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ پُورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ آپ کے لیے کون باہر آئے گا؟۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں