عقل و دانش اور ہوش و خرد کے دیوانے دنیا میں ہونے والے ہر واقعہ کے پس پردہ محرکات، عوامل اور سازشوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ آسمانی آفتوں، زمینی بلائوں اور جنگ وجدل، سب کی ان کے نزدیک کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر کسی بات کا کھوج لگاتے ہوئے اس کی وجہ معلوم نہ ہو سکے تو مستقبل کے بارے میں کوئی پرُ عزم دعویٰ ضرور کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک نہ ایک دن سائنس اس کی وجہ ضرور تلاش کرلے گی۔دیکھو! ہم نے یہاں تک تو جان لیا کہ زلزلے کیوں آتے ہیں، ہم جہاں تک زمین کی تہہ میں سوراخ کر کے پہنچے، ہمیں اس کی ہیئت کا علم ہو گیا‘ ایک دن ہم یہ بھی جان لیں گے کہ زلزلہ کتنی دیر کے بعد آنے والا ہے۔ ہم نے وقت سے پہلے سمندروں سے اٹھنے والے طوفان کا اندازہ کرنا شروع کر دیا ہے، لہٰذا پوری دنیا میں وارننگ سنٹر قائم ہیں۔ ہم لوگوں کو بتا دیتے ہیں کہ علاقہ چھوڑ دو اور کسی محفوظ پناہ گاہ میں چلے جائو۔انسانی معاشرت اور نفسیات کے ماہرین نے فساد، قتل و غارت، بدامنی ، تشدد اور نسل کُشی کے بارے میں اتنی گہری تحقیق کی ہے کہ ہم ہر ہونے والے واقعے کی تہہ میں چھپے محرکات تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عظیم تحقیق اور جستجو سے دنیا کی لائبریریاں بھرنے کے بعد اور یونیورسٹیوں میں ماہرینِ علم و دانش پیدا کرنے کے باوجود کیا انسان ان تباہ کن واقعات کو روکنے یا ان پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکا؟ کیا اُس نے سمندروں سے اٹھتے طوفانوں یا آسمان سے برستے بلاخیز پانی پر قابو پا لیا؟ کوئی ایسی مشین ایجاد کرلی کہ شہر میں نصب کر دی جائے تو زلزلے کی جنبش جہاں تھی وہیں رک جائے؟ یہ تو خیر قدرتی آفات ہیں‘ جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنس ترقی کر جائے گی تو ایک دن یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا‘ دعوے کرنے والوں کے دعوے سچ ثابت ہو جائیں گے۔ لیکن انسان تو انسانوں کے بس میں ہوتا ہے۔ گزشتہ دو سو صدیوں میں جتنی تحقیق انسان میں تشدد اور قتل و غارت کے رجحان پر ہوئی ہے، کسی اور موضوع پر نہیں ہوئی۔ سیاسیات، نفسیات، معاشرت اور معاشیات کا یہ خصوصی موضوع ہے۔ کوئی اسے انسان کی جبلّت میں موجود رجحان سے تعبیر کرتا ہے کہ بعض نسلوں اور گروہوں میں یہ ہوتا ہے تو کوئی انسان کی بچپن کی تربیت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ کوئی اس کی وجہ معاشی حالات کو گردانتا ہے تو کسی کے ہاں سیاسی حقوق کی ناہمواری اس کا سبب ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ جاننے اور اس علم کے باوجود گزشتہ دو صدیوں کے دوران جتنے قتل، جتنا تشّدد اور جس قدر نسل کُشی ہوئی اس کی پوری انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پانچ ہزار سالہ تاریخ میں برپا ہونے والی سب سے بڑی دوجنگیں اسی زمانے بلکہ گزشتہ سو سال میں ہوئیں۔ انسان نے دنیا بھی اسی دور میں تسخیر کی۔ 1905ء میں ہوائی جہاز بنا یا اور صرف پانچ سال بعد کروڑوں انسانوں کو قتل کیا۔ انہی دو سو برسوں میں انسان نے اعلان کیا کہ خدا اور مذہب کا ہماری معاشرتی اور اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے،انسان جانے اور اُس کا خدا۔ ہمارا نظامِ انصاف کیسا ہو، ہم کیسے زندگی گزاریں، کس سے‘ کس طرح شادی کریں، کس کو سزا دیں اور کس کو نوازیں‘ یہ سب ہم خود مل کر فیصلہ کریں گے۔ جو عوام کی اکثریت کہے گی وہی قانون ہوگا۔ جو طاقت رکھے گا وہی حکمرانی کرے گا۔ اس کے بعد انسان نے نسل، رنگ اور زبان کے نام پر پندرہ کروڑ سے زیادہ لوگوں کے گلے کاٹے، شہروں کے شہر کھنڈر بنائے۔ دو عظیم جنگوں میں کروڑوں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد وجوہات پر تحقیق کرنے والا یہ انسان چین سے نہیں بیٹھا۔ کیا خوبصورت ترکیب ایجاد کی… ’’سرد جنگ‘‘ (COLD WAR)۔ یہ کیسی سرد جنگ تھی کہ ویت نام سے لے کر انگولا اور فلسطین سے لے کر چلّی تک ایک بار پھر کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔ انسانوں کے سروں کی فصل کاٹنے والے انسان نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور آج تک ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کتب ان واقعات کی وجوہات پر لکھی جا چکی ہیں جن میں کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ یہ ہے انسانی ترقی و تہذیب کی کہانی ۔لیکن جب کوئی مجھ جیسا ’’دقیانوس‘‘، ’’فرسودہ خیال‘‘ اور عقل و دانش سے مزین لوگوں کے نزدیک ’’جاہل‘‘ شخص سورہ الا نعام کی 65ویں اور66ویں آیتیں پڑھتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ نے آسمانی اور زمینی آفتوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو گروہوں میں تقسیم کر کے تشدد اور قتل و غارت کو بھی اپنا عذاب کہا ہے تو ان لوگوں کا تمسخر دیکھنے والا ہوتا ہے۔ یہ اپنے تمام تر علم سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا انہیں ترقی سے روکنا ہے۔ سائنسی بنیاد پر سو چنے سے منع کرنا‘ انسان کو صدیوں کی محنت و مشقت سے نظامِ زندگی وضع کرنے سے متنفر کرنا ہے۔ ان کے نزدیک مجھ جیسے جاہلوں کا ترقی یافتہ دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ وہ ترقی یافتہ دنیا جو پندرہ بیماریوں پر قابو پاتی ہے تو اللہ پندرہ اور بیماریوں کا عفریت ان کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ جس کے عظیم مفکرین، سیاسی رہنما، سائنسی تحقیق اور انسانی نفسیات کے ماہر انسانوں کے قتل پر تحقیق تو کرتے ہیں لیکن ان کے علم نے دنیا کو جو تحفے میں دیئے ہیں، اُن کے باعث انسانی ہاتھ کروڑوں انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ وہ ہر روز ہزاروں انسانوں کے خون کا ناشتہ کرتے ہیں۔یہ صرف میرے اللہ کا دعویٰ ہے کہ وہ دلوں کو جوڑتا ہے، بے قراروں کو قرار دیتا ہے۔ وہی ہے جو فرماتا ہے: ’’بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بے قرار اُسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور جو تمہیں زمین پر خلیفہ بناتا ہے(النمل62)۔لیکن ہم اس دنیا میں گم ہیں ، اس کی کامیابی کوہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما ہوں یا معیشت دان، سائنس دان ہوں یا تجزیہ نگار یہاں تک کہ ہماری مذہبی قیادت سب انسانوں کو اپنا حکمران مانتی ہے، انہیں سے ووٹ کے ذریعے اقتدار کی بھیگ مانگتی ہے۔ لیکن میرا اللہ ہم پر مثالیں دیتے ہوئے ایک فرض عائد کرتا ہے کہ دنیا کو بتائے جائو، اور ہم یہ فرض بار بار ادا کرنے کے مجرم ہیں اور ہمیں اس جرم پر فخر ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ’’ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی نشانیوں کا علم عطا کیا تھا، مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اُس کے پیچھے پڑگیا، یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو گیا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا۔ لہٰذا اس کی حالت اُس کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکا کر ہانپے گا اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکا کر ہانپے گا۔ یہ ہے مثال ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو شاید کہ کچھ غور و فکر کریں(الاعراف175-176)۔ کیا ہم دنیا میں گُم، اذیت ناک زندگیاں گزارنے والے کتے نہیں ہیں۔ ساری زندگی دولت کی ہوس میں ہوتے ہیں اور دولت آجانے کے بعد خوف میں مبتلا۔ہم وہ سگ ِدنیا ہیں کہ ہم مسلسل عذاب میں ہیں، روز پندرہ سے بیس لاشیں اٹھاتے ہیں لیکن اب بھی زبانیں نکال کر ایک دوسرے پر برستے ہیں، موردِالزام ٹھہراتے ہیں، دھرنے، جلوس اور احتجاج کرتے ہیں لیکن کوئی کسی کھلے میدان میں جمع ہو کر گڑ گڑاتے ہوئے یہ نہیں کہتا: اے اللہ ہم پر رحم فرما، ہمیں معاف فرما، ہمارے دلوں کو جوڑ دے کہ تو ہی دلوں کو جوڑنے والا ہے۔