جو لوگ نفرت اور تعصب میں اتنے اندھے ہو جائیں کہ اپنی محبوب ترین شخصیات کی زندگیوں کے بارے میں بھی پوراسچ نہ بولیں، ان کی جدوجہد کے وہ حصے ہضم کرجائیں جن میں اُن پر بیتی اذیتوں اور تکالیف کا ذکر ہو اور جس سے ان کا ذاتی اور نظریاتی مفاد کمزور ہوتا ہو تو ایسے لوگوں کے لئے صادق اورامین یعنی سچے اور ایماندار یا انگریزی میں ’’Honest‘‘ اور ’’Truthful‘‘ جیسے لفظوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ حبیب جالب مرحوم کی ہر برسی پر منعقد ہونے والی تقریب میں مجھے جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ ہر تقریب میں حبیب جالب کو فوجی آمروں کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے والے عظیم شاعر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تقریر کرنے والے، اس پر کالم لکھنے والے، اس کی شان میں نعرے بلند کرنے والے، سب کے سب اس سچے اورایماندار شخص کی زندگی میں سے سچائی اور ایمانداری سے جدوجہد کے وہ سال حذف کر دیتے ہیں، مصیبتوں اور پریشانیوںکا وہ زمانہ خارج کر دیتے ہیں جو اس نے جمہوری ڈکٹیٹروں کے زمانے میں گزارا تھا۔ اس دفعہ الیکشن کا غوغا ہے‘ جمہوریت کے علمبردار اورانسانی حقوق کے پرچم بردار ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کے الفاظ سے اس قدر نفرت کرنے لگے ہیں کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حبیب جالب اگر زندہ ہوتے تو 63,62 پر پُورا نہ اترتے۔ انہیں علم نہیں کہ صادق اور امین کی کسوٹی پر صرف حبیب جالب ہی پورا اترتے۔ آپ کو کیوں صادق اور امین کے لفظ سے محبت ہو۔ آپ نے تو اپنی پوری تقریر میں حبیب جالب کی زندگی کے وہ عظیم سال ہی غائب کردیئے جو اس نے ایک جمہوری ڈکٹیٹر ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں گزارے تھے۔ اس عظیم شاعر کی اس تکلیف اور کسمپرسی کے گواہ تو آپ کے والد محترم ملک غلام جیلانی بھی تھے۔ اگر اس دور میں آپ کے والد محترم کے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ارشادات ہی آپ کو کہیں سنانے پڑ جائیں تو آپ کیلئے بہت مشکل ہو جائے گی۔ مجھے 9 اپریل 1977ء کا وہ دن یاد ہے جب آپ کے والد نواب اکبر بگٹی کو اس میدان کارزار میں لے کر آئے تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری آمریت کے خلاف مال روڈ لاہور پر ہائیکورٹ سے اسمبلی ہال تک سجا ہوا تھا۔ جس میں گولیوں کی گھن گرج میں ہمارے سامنے ایک نوجوان سہیل شامی نے دم توڑا تھا۔ ہائیکورٹ کے برآمدے میں کھڑے ملک غلام جیلانی اور اکبر بگٹی کی ذوالفقار علی بھٹوکی آمریت کے خلاف گفتگو مجھے آج بھی یاد ہے جو انہوں نے مشتعل نوجوانوں کے جلو میں ان کے ساتھ کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صادق اور امین حبیب جالب، حیدر آباد جیل میں خیر بخش مری، ولی خان، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور دوسرے رہنمائوں کے ساتھ اس ملک سے غداری کا مقدمہ بھگت رہا تھا۔ یہ تاریخ کا وہ سیاہ ترین مقدمہ ہے جس نے بلوچستان میں نفرت کا ایک ایسا بیج بویا تھا کہ گھر گھر اس کی زہریلی شاخیں نکل آئی تھیں۔ ’’غدار وطن‘‘ حبیب جالب اُن دنوں حیدرآباد میں جیل کاٹ رہا تھا۔ جیل بھی ایسی کہ اسے عدالت بھگتنے کیلئے جیل سے باہر نہیں لے جایا جاتا تھا بلکہ عدالت جیل کے احاطے میں لگائی جاتی تھی تاکہ یہ عظیم شاعر اپنے رہنمائوں کے ساتھ آزاد فضا میں سانس بھی نہ لے سکے۔ اس جمہوری دور کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار ان لوگوں کو غدار ثابت کرنے میں مصروف رہتے جبکہ عابد حسن منٹو اور پیپلزپارٹی کو اصول اور دیانت و امانت کی بنیاد پر چھوڑنے والے محمود علی قصوری ان مظلوموںکا دفاع کرتے۔ جب یہ مقدمہ چل رہا تھا تو وہ فوج جس کے بارے میں آج کے سیاسی رہنما یہ کہتے ہیںکہ بھٹو کو فوج نے مجبور کیا تھا‘ اس فوج کا سربراہ جنرل ٹکا خان تھا۔ وہی ٹکا خان جو بلوچستان کے دوسرے فوجی آپریشن کے وقت وہاں تعینات تھا اور پھر جب مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا نگران بنا تو اُس کا یہ مشہور فقرہ بنگالی قیادت آج تک نہیں بھولی کہ میں زمین کی حفاظت کرنے آیا ہوں لوگوں کی نہیں۔ حیدرآباد کیس چلانے کیلئے اس عظیم جمہوری آئین میں تیسری ترمیم کی گئی تھی جس کے ذریعے آرٹیکل دس میں ملک دشمن کی صفوں میں ان سب لوگوں کو شامل کردیا گیا جو حکومت وقت کے سامنے کلمہ حق بلند کریں۔ یہ ترمیم کسی فوجی آمر یا مطلق العنان جرنیل نے نہیں کی تھی‘ لوگوں کی خواہشات اور امنگوں کے ترجمان ایک جمہوری حکمران کے ذہن رسا کا نتیجہ تھی۔ حبیب جالب جیل میں تھا اور ٹکا خان بلوچستان میں فوجی آپریشن کا سربراہ۔ اس پورے جمہوری دور کے نوے فیصد عرصے میں وہ فوج کا سربراہ رہا اور صرف آخری چند مہینے ضیاء الحق نے گزارے۔ حبیب جالب کو میں نے پہلی دفعہ گجرات کے ہارس شو گرائونڈ میں مادرملت کے جلسے میں اپنی شہرہ آفاق نظم ’’ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا‘‘ پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ میں صرف آٹھ سال کا تھا۔ ایک پرائمری سکول کا طالب علم جس کو اساتذہ نے پاکستان کی جھنڈی پکڑا کر ایوب خان کے دو رویہ استقبال کیلئے بھیجا تھا اور وہ مادرملت کا جلسہ سننے چلا گیا تھا۔ آخر ایوب خان چلا گیا اور اس کی جگہ ایک اور ڈکٹیٹر آ گیا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔ حبیب جالب کہ جرأت اظہار اس کی گھٹی میں تھی، اس آپریشن کے خلاف چپ کیسے رہتا ’’محبت گولیوں سے بو رہے ہو؟‘‘ اسی دور کی نظم ہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب چینیز لنچ ہوم کی کرسیوں پر حبیب جالب سے میری ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ساتھ ہی پاک ٹی ہائوس تھا جہاں ادیبوں کے وہ گروہ بیٹھتے تھے جو سیاست سے ادب کو پاک رکھنے میں مصروف رہتے۔ بات کہنے کیلئے شاعری میں ایسے استعارے تلاش کرتے کہ یوں لگے ایک نظم ہے جو انگریز ڈکٹیٹر پر بھی صادق آئے، فوجی اور جمہوری ڈکٹیٹر پر بھی۔ لیکن اس ٹی ہائوس سے چند گز دُور حبیب جالب کا مسکن تھا جہاں لگی لپٹی رکھے بغیر، استعارے اور تشبیہہ کے بوجھ سے آزاد کھرا سچ سننے کو ملتا۔ ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آیا۔ حبیب جالب نیشنل عوامی پارٹی میں تھا۔ اس کی شاعری سے متاثر بھٹو نے اسے اپنے پاس بلایا اور پارٹی میں شامل ہونے کیلئے کہا۔ واپسی پر حبیب جالب نے اپنا جواب لوگوں کو سنایا… پان کھاتے ہوئے ، ترنگ کے عالم میں، شام کے دھندلکے میں اس نے کہا: ’’میں نے بھٹو کو کہہ دیا: کیا کبھی سمندربھی دریا میں گرتے ہیں‘‘ اور پھر یہ سمندر غداری کے مقدمے میں حیدرآباد جیل میں قید ہوگیا۔ وقت بدلا، سب رہا ہوئے۔ نہ فرد جرم عائد کرنے والا موجود رہا نہ اس کا اقتدار۔ ٹکا خان اور اس کی فوج بھی بلوچستان سے نکلی اور پورے ملک کے اقتدار پر قابض ہو گئی لیکن اس دفعہ چہرہ ضیاء الحق کا تھا۔ حبیب جالب کا سچ کہاں ٹھہرتا تھا: ’’ظلمت کو ضیاء کیا کہنا‘‘ لکھی۔ ضیاء چلا گیا، جمہوریت کے جانشین آ گئے۔ وہ جو حیدر آبادجیل میں بغاوت کاٹ رہاتھا آج بھی’’دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے‘‘ لکھ رہا تھا اور بغاوت کے مقدمے کا اصل مدعی ٹکا خان اس پارٹی کا سیکرٹری جنرل تھا اور گورنر پنجاب بھی۔ یہ سچ اب کوئی نہیں بولتا، یہ سچ بولنے کیلئے آپ کو صادق اور امین کے لفظ سے محبت ہونی چاہیے۔ ایسی محبت جیسی جالب نے کی تھی۔ جالب آج زندہ ہوتا تو ان دونوں الفاظ کا سب سے بڑا وکیل ہوتا۔