انسانی معاشرے میں بہت سے اصول اور ضابطے ایسے ہیں جنہیں جمہوری معاشروں میں بھی کثرت رائے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ جمہوریت کے شعلہ بیان حامی دلیل دیتے ہیں کہ انسانوں کو حق حاصل ہے کہ وہ کثرت رائے سے جیسا قانون چاہیں بنا لیں اور اُسے پورے معاشرے پر نافذ کر دیں۔ گویا جمہوریت‘ اکثریت کی آمریت کا دوسرا نام ہے۔ اس میں اکیاون فیصد غنڈے، بدمعاش اور چور اچکے اکثریت کی بنیاد پر انچاس فیصد شریف، ایماندار اور راست بازلوگوں پر اپنی مرضی مسلط کر سکتے ہیں۔جمہوری اصولوں کے مطابق یہ درست بھی ہوگا۔انچاس فیصد شرفاء کو کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو قائل کرو، اپنے لیے اکثریت پیدا کرو اور معاشرے کی اپنے اصولوں کے مطابق اصلاح کرلو۔ لیکن ابتدائے آفرینش سے اللہ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے پیغمبر مبعوث کیے جنہوں نے ایسے اصول بتائے جن کو جمہوریت کی دوتہائی اکثریت توکیا سو فیصد رائے عامہ بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔ قدیم مسودات سے لے کر پتھروں پر کندہ احکامات تک اور منوں مٹی تلے دبی تہذیبوں کی کھدائی سے حاصل ہونے والے شہری زندگی کے آثار سے لے کر دنیا بھر میں تہذیب کی روشنی سے دُور قبائلی زندگی تک کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ معاشرتی اصول وہ ہیںجو انسان کو سکھائے گئے اور وہ اُس کی فطرت میں شامل ہوگئے۔ دنیا میں سیکولر جمہوریت کے علمبردار بھی ان اصولوں کو اس دلیل پر مانتے ہیں کہ یہ انسانی معاشرے کے ارتقا سے پیدا ہوئے ہیں۔ کیا عجب منطق ہے کہ انسان پہلے جھوٹ بولتا تھا‘ پھر اُس نے صدیوں کے تجربے سے سیکھا کہ یہ بُری بات ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں یہ اصول مذہب کے عطا کردہ ہیں۔ سیکولر اخلاقیات سچ، انصاف، رحم، رواداری، احترام، برابری اور دیانت جیسے اصول تو مذہب سے لے لیتی ہے لیکن اس مذہب کے لانے والے پیغمبروں کو تسلیم کرنے سے انکارکرتی ہے۔ اصولوں کی یہ طویل فہرست ہے جس پر کسی بھی جمہوری نظام میں آج تک رائے طلب نہیں کی گئی۔ دنیا کی کسی پارلیمنٹ، اسمبلی یا کانگریس کو یہ جرأت نہیں ہو سکی کہ وہ اکثریت سے یہ بل پاس کرائے کہ جھوٹ بولنا جائز ہے، کم تولنا درست ہے، کاروبار میں دھوکہ دینے میں کوئی برائی نہیں‘ کسی کا حق غصب کرنا، جائدادیں ہڑپ کرنا، کرپشن سے مال بنانا سکہ رائج الوقت ہے۔ یہ ا صول اکثریت کی رائے سے نہیں آئے، انہیں کسی پارلیمنٹ نے منظور نہیں کیا بلکہ یہ اصول اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو زندگی گزارنے کے لیے بتائے۔ یہ اصول بتانے والے چند لوگ تھے جو کسی ریفرنڈم کے محتاج نہیں تھے۔ یہ جس قوم کی طرف بھیجے گئے ہمیشہ اکثریت ان کے خلاف رہی۔ انسانوں کے خالق نے قرآنِ پاک کو آخری نورِ ہدایت قرار دیا اور اُس میں بار بار اکثریت کی نفی کی: ’’لیکن بہت کم لوگ ہیں جو شکر گزار ہیں‘‘ (الملک23، المومنون 78،السجدہ9,8,7) ’’اکثریت نے منہ پھیر لیا اور وہ سنتے ہی نہیں‘‘ (حٰم السجدہ14) ’’اللہ نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے‘‘ (الدخان38,39) ’’ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر انسان ا س کا علم نہیں رکھتے‘‘(یوسف40) ’’اور جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے لیکن اکثر انسان ایمان نہیں لاتے‘‘(الرعد1) ’’اسلام ہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر انسان اس بات کا علم نہیں رکھتے‘‘(الروم30) ’’ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو خود بھی گمراہ ہوئے اور پھر اکثریت کو گمراہ کر گئے اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے‘‘ (المائدہ77) ’’اور اللہ کی قدرت کو دیکھ کر بھی اکثریت عقل سے کام نہیں لیتی‘‘ (العنکبوت63،لقمان25)…یہ چند آیات ہیں جو میں نے صرف مثال کے طور پر پیش کی ہیں ورنہ قرآن پاک اس حقیقت کی طرف بار بار اشارہ کرتا ہے کہ حق پر قائم رہنے والے اور اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں کی پاسداری کرنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں لیکن یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سچ، انصاف ، دیانت اور امانت کا معیار کسی معاشرے میں متعین ہوتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ بار بار امانت اٹھانے کا اہل قرار دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبالؒ نے انہیں پختہ کار کہتے ہوئے جمہوریت یا اکثریت کی نفی کی ہے: گریزاز طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارِ شو کہ ازمغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمی آید ’’طرزِ جمہوری سے بچو اور کسی پختہ کار کے ساتھ ہو جائو، اس لیے کہ دو سوگدھوں کے دماغ سے انسانی فکر پیدا نہیں ہو سکتی‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ حق کے دشمن لوگوں کی تعداد بھی قلیل بتاتے ہیں جو اکثریت کو اپنے پیچھے لگا لیتی ہے۔ مثلاً جب صالح علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوا تو قرآن کہتا ہے: ’’اس شہر میں صرف نو شخص ایسے تھے جو فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے‘‘(النمل41)۔ اللہ اہلِ ایمان پر فرض عائد کرتا ہے کہ یہ چند لوگ جو اپنی غنڈہ گردی، بدمعاشی، دھونس اور دھاندلی سے فساد برپا کر رہے ہوتے ہیں ان سے قتال کرو۔ یہ فساد فی الارض ہے، فتنہ ہے اور اللہ حکم دیتا ہے کہ تم قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے۔ دنیا بھر کا جمہوری نظام ان چند لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے۔اس نظام کے تحت ہر معاشرے کو گروہوں، پارٹیوں اور جتھوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ انسانی کردار اور شخصیت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ کہیں نظریاتی پارٹیاں ہوتی ہیں تو کہیں تعصباتی۔ کہیں علاقائی گروہ الیکشن لڑتے ہیں اور کہیں کسی جاذب نظر اور سحر انگیز شخصیت کے جادو میںجکڑے ہوئے جتھے میدان میں اترتے ہیں۔ انسانی کردار کی نفی کر کے پارٹی کے جھنڈے اور انتخابی نشان کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بس جو پارٹی پسند ہو اُس کے جاہل، گنوار، بددیانت اور چور کو بھی ووٹ دے دو۔ اکثرلوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر جمہوری نظام نہیں بدلتا، یہ فراڈ چلتا رہتا ہے تو کیا کیا جائے؟ ایسے میں عام اور شریف آدمی کے لیے بہت الجھنیں ہیں۔ بائیکاٹ کرے، کونسی پارٹی چنے، سب میں ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔ لیکن اللہ نے یہ مشکل بھی آسان کر دی ہے۔ اللہ نے بہت کم جگہ امر یعنی حکم کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ان واضح احکامات میں سے ایک یہ ہے: ’’مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو‘‘( النساء57) سب سے بڑی امانت کسی شخص کی رائے یامشورہ ہوتا ہے۔ جو غلط مشورہ دے گا وہ خیانت کا مرتکب ہوگا۔ ہر الیکشن کے بیلٹ پیپر پر کوئی ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جو بے سرو سامان ہو لیکن ایماندار اور امانت کے اہل ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر اس کو ووٹ دیا تو ضائع جائے گا۔ یہیں پر وہ خیانت کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے ’’جس نے کسی ایسے شخص کو مسلمانوں کا حکمران بنانے میں مدد کی جس سے بہتر لوگ معاشرے میں موجود تھے تو اُس نے اللہ اور اُس کے رسولؐ سے خیانت کی‘‘۔ ہم مدتوں سے ایک خائن قوم کی طرح اپنی رائے ، امانت یا ووٹ ایسے لوگوں کو دیتے چلے آ رہے ہیں جن سے بہتر لوگ معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ جس دن لوگوں نے پارٹی، برادری اور گروہ کی بجائے اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی رائے استعمال کرنا شروع کر دی، میرا اللہ اُسی دن صالح قیادت بھی عطا کردے گا۔ ورنہ اللہ کا حکم ٹالنے والی اقوام کے حشر کی گواہی ویرانے اور کھنڈرات دے رہے ہیں، کوئی ہے جو ان سے عبرت پکڑے!