یکم اپریل کے کالم’’خواب بیچنے کے موسم گئے‘‘ میں اس ملک کے فرسودہ جمہوری نظام کے حوالے سے میں نے لکھا تھا ’’امریکہ کے انتخابات میں بیلٹ پیپرز کے آخری میں ایک خانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ میں ان تمام امیدواروں میں سے کسی ایک کو بھی پسند نہیں کرتا۔ اگر وہ چاہے تواپنی پسند کے آدمی کا نام لکھ سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں تمام بیلٹ پیپروں پر یہ خانہ درج کر دیا جائے کہ میں ان تمام سیاست دانوں میں کسی ایک کو بھی پسند نہیں کرتا تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ60فیصد کے قریب لوگ اس خانہ پر مہر لگانے والے ہوں گے‘‘… مجھے اندازہ تک نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن صرف دو دن بعد ہی بیلٹ پیپر میں اس طرح کے خانے کو شامل کرنے کے لیے کہہ دے گا۔ لیکن جو ردّعمل اس اعلان پر ان سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی نظام پر پلنے والے اور گذشتہ سات الیکشنوں میں لوگوں کی رہنمائی کا دعویٰ کرنے والے افراد کی جانب سے ظاہر ہوا ہے اس نے اس فرسودہ، ناکام اور گمراہ کن جمہوری نظام کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس ملک پر پینسٹھ سال سے قابض سیاست کی شطرنج کے مہروں کو علم ہے کہ لوگوں کی اکثریت ان سے کس قدر نفرت کرتی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ وہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے تمام وسائل اس کام میں جھونک دیتے ہیں پھر بھی ساٹھ فیصد لوگ ان کے قابومیں نہیں آتے۔ یہ باشعور عوام گھروں سے نکل کر اس جعلی انتخابی ماحول میں سانس تک لینا گوارا نہیں کرتے۔ کوئی انہیں برادری، قبیلے، رشتہ داری اور زبان کے نام پر واسطہ دے کر گھروں سے نکالتا ہے توکوئی نوکریاں دلانے، سڑکیں بنانے، سکول قائم کرنے اور روٹی، کپڑا اور مکان دینے کے جھانسے دے کر انہیں پولنگ سٹیشن تک لاتا ہے۔ اللہ کے نام پر اس جمہوری نظام میں حصہ لے کر طاغوت کو شکست دینے کا دعویٰ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ یہ لوگ بھی کمال کے ہیں، قرآن میں اللہ کو کارساز، فاعلِ حقیقی، عزت وذلّت کا مالک اور بادشاہی بخشنے اورچھیننے والی حیثیت میں دیکھتے ہیں۔ اسی کی عبادت اور اسی سے مدد مانگنے کی دعا ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ اسی کے ارشاد’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو‘‘ کو جزوایمان سمجھتے ہیںلیکن کوئی دیو بندیوں کو اکٹھا کرتا ہے تو کوئی بریلویوں کو، کسی کو شیعہ مسلک کے لوگوں کو بیلٹ بکس تک لانا ہوتا ہے تو کسی کو اہل حدیث کو۔ مالی وسائل کے استعمال کی نہ تو کوئی حد ہے اور نہ حساب، کروڑوں روپے کھانوں پہ خرچ ہوتے ہیں تو لاکھوں چائے پارٹیوں پر۔ پھر گھر سے اٹھانا، پولنگ اسٹیشن تک لانا اور پھر واپس چھوڑ کر آنا۔ ایسا سب کچھ کرنے کے باوجود یہ تمام سیاست دان، سیاسی جماعتیں اور مذہبی جمہوریت کے علمبردار گذشتہ سات الیکشنوں میں42فیصد سے زیادہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور نہ کر سکے اور جن کو وہ مجبور نہ کر سکے ایسے لوگ تھے جنہوں نے خود اپنی مرضی سے گھروں میں بیٹھ کر یہ سارا کھیل تماشہ دیکھا اور دلوں میں کُڑھتے جلتے رہے۔ اس لیے کہ ان کی اس نفرت کے اظہار کا کوئی اور راستہ ہی انہیں میسر نہ تھا۔ ہر کوئی ان سے کہتا سڑکوں پر نکلو، انقلاب لے کر آئو، نظام کو بدل دو۔ لیکن یہ بے چارے روزگار کے مارے، معاشی حالات کے ستائے، خود ہی اپنی حسرتوں پر ماتم کرتے سو جاتے۔ ٹیلی ویژن پر انتخابات کے نتائج سامنے آتے تو ان کا دل اور کُڑھتا۔ وہ اپنے سامنے چوروں، اچکوں، بددیانتوں کو ہار پہنے، لوگوں کے کندھوں پر سوار دیکھتے تو ماتم کرتے۔ جس سے ملتے وہ کہتا، باہر نکلو، ووٹ ڈالو، اسی طرح تبدیلی آئیگی۔ لیکن وہ تو ان سات الیکشنوں میں جس غریب اور عام آدمی کو ووٹ دے کر منتخب کرتے وہ چند سالوں بعد اُس علاقے کا سب سے امیر شخص بن جاتا۔ لوٹ مار سے کمائی ہوئی دولت اُسے اس جمہوری نظام کا محافظ بنا دیتی۔ وہ سارا وقت آمریت کو گالیاں دیتا۔جمہوری نظام کی بحالی کی باتیں کرتا۔لوگ بھی اُس کی باتوں کو قبول کر لیتے۔ اُسے دوبارہ منتخب کر لیتے۔ لیکن اسے تو جمہوری نظام سے صرف اپنی کاروباری سلطنت کو وسعت دینا ہوتی تھی۔ لوٹ مار کا ایک اور دور اسے چاہیے ہوتا تھا۔ پاکستان میں آمریت اور جمہوریت دونوں ایک ہی سکیّ کے دو رُخ ہیں۔ ایک دس سال جیبیں بھرتا ہے تو دوسرا پیچ و تاب کھاتا رہتا ہے، پھر دوسرا بھرنے لگتا ہے تو پہلے والا جمہوریت کی بحالی کے ترانے گانے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے ان سات الیکشنوں کے بعد اس ملک کا وہ خاموش ساٹھ فیصد طبقہ جو الیکشن کا بائیکاٹ کرتا تھا مکمل طور پر مایوس ہو چکا ہے۔ لیکن اُس کی اس رائے کے اظہار کے لیے کوئی جمہوری راستہ ہی موجود نہ تھا۔ کوئی اس کی رائے کو اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اس رائے کو گننے کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔ یہی وہ المیہ ہے کہ بی بی سی کے تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان میں 18سے29سال کے نوجوانوں میں پچاس فیصد نوجوانوں نے کہا کہ جمہوریت اس ملک کے لیے زہر قاتل ہے ۔ 90فیصد ایسے تھے جو کہتے تھے کہ یہ ملک صحیح سمت میں نہیں جا رہا۔صرف پانچ سال پہلے یعنی2007ء میں ایسے نوجوانوں کی تعداد صرف50فیصد تھی۔یعنی گذشتہ چھ الیکشنوں نے50فیصد لوگوں کو جمہوریت سے متنفر کیا تھا اور صرف ان پانچ سالوںنے باقی40فیصد کو بھی جمہوری نظام کے خلاف کر دیا۔ اب جمہوریت کے دیوانے صرف پانچ دس فیصدرہ گئے ہیں۔ ایسے حالات میں کون بیلٹ پیپرز میں ایسا خانہ رکھنے کی اجازت دے گا جس میں لوگ یہ اعلان کریں کہ ہم اس سارے نظام کو،سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ بساط لپیٹ دو۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت کے آزمائے ہوئے نظاموں کے مقابلے میں نوجوانوں کی اکثریت نے شرعی نظام کو بہترین قرار دیا۔ خلافت کو اپنا نجات دہندہ کہا ۔ لیکن کسی ٹیلی ویژن پر، کسی کالم نگار کی تحریر میں، کسی تجزیہ نگار کے جوش تقریر میں شرعی نظام کے حق میں نوجوان نسل کے اس فیصلے کی گھن گرج سنائی نہ دی۔ یہ لوگ کس جوش و خروش سے عمران خان ، نواز شریف اور زرداری کی مقبولیت کے سروے پر ہفتوں پروگرام کرتے اور مہینوں کالم لکھتے رہے۔ لیکن شریعت کے بارے میں نوجوانوں کے اس فیصلے کے بعد یوں لگتا ہے سب کو سانپ سونگھ گیا۔ جمہوریت ہو یا آمریت سب کا رزق اس فرسودہ نظام سے وابستہ ہے۔ بندر کا تماشہ دکھانے والا جب تماشہ ختم کرتا ہے تو بندر سے پوچھتا ہے‘‘ یہ سب کیوں کر رہے ہو‘‘ تو بندر پیٹ پر ہاتھ مارتا ہے اور تماشہ کرنے والا کہتا ہے’’پاپی پیٹ کے لیے‘‘ لیکن اس پاپی پیٹ کا تماشہ اب ختم ہونے والا ہے۔ بیلٹ پیپرز پر آخر میں خالی خانہ رکھ کر جمہوری طور پر لوگوں کی خواہشات کا احترام کر لیں اور اگر اکثریت اس خانے پر مہر لگاتی ہے تو پھر اس نظام کو تبدیل کر دیں۔ یہ آخری موقع ہے ورنہ نہ بندرر ہیں گے اور نہ تماشہ کرنے والے۔