کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کے سکون واطمینان اور خوشحالی و خوش بختی کا ایک ہی کلیہ ہے جو خالقِ کائنات نے رہتی دنیا تک کے لیے سر چشمۂ ہدایت قرآنِ حکیم کی سورۃ النحل کی آیت نمبر112میں ارشاد فرمادیا‘ ارشاد ہوا: ’’اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پر امن اور مطمئن تھی، اس کا رزق اُس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا‘ پھر اُس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کر دی، تب اللہ نے اس کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا اوڑھنا بچھونا بنا دیا‘‘۔ یہ ہے اس مملکتِ خداداد پاکستان کی تاریخ اور اس کی بیماری کی تشخیص۔ یہ تشخیص کسی ماہرِ اقتصادیات‘ ماہرِ سیاسیات‘ عظیم دانشور اور تجزیہ نگار کی نہیں بلکہ اُس فرمانروا ، حکیم اور خالق کی ہے جس نے اس کائنات کو خلق کیا اور پھر دنیا میں نعمتوں کی عطا اور عذاب کے نزول کی وجوہات کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ دنیا بھر میں یہ قاعدہ اور کلیہ مسلّم ہے کہ گاڑی، ٹیلی ویژن، جہاز، ریڈیو جو بھی مشین ہو، اسے جس کمپنی نے بنایا ہوتا ہے، اسی کے مینوئل سے رہنمائی لے کر اس کی خرابی کو درست کیا جاتا ہے۔ اس دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے اگر کوئی سوال کرے کہ اس کائنات کا خالق کون ہے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ دیں گے… اللہ! پوچھیں تمہیں کس نے پیدا کیا؟ جواب ہوگا… اللہ۔ لیکن کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ کہ مرض کی علامتیں بھی دیکھتے ہیں، اس مرض میں دن رات تڑپتے بھی ہیں، بلکہ اکثر اوقات تو اسے لاعلاج سمجھ بیٹھتے ہیں‘ لیکن وہ دوا استعمال نہیں کرتے جو اس کائنات کے خالق نے اس کے نظام کو درست رکھنے کے مینوئل میں تحریر کر دی ہے۔ کیا اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں دیر لگتی ہے؟ ہرگز نہیں… چند الفاظ ہیں جو زبان سے ادا ہونا ہوتے ہیں۔ لیکن ان الفاظ کو ادا کرنے سے پہلے انسان کو مکمل طور پر خود کو سربسجود کرنا پڑتا ہے، مکمل سرنڈر (Surrender) کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو اس میں میرا کوئی کمال نہیں، یہ اُس مالکِ کائنات کی توفیق ہے، ورنہ مجھ جیسے ہزاروں ہیں جو مجھ سے کئی گنا زیادہ پڑھے لکھے ہیں، صاحبِ دانش ہیں، لیکن اُس کی کمال مہربانی اور عطا ہے کہ اُس نے مجھ پر یہ کرم کیا۔ کتنی بدنصیبی ہوگی اگر میں اس نعمت کا شکر ادا نہ کروں۔ سرنگوں ہونا جہاں اللہ کو بہت پسند ہے وہاں یہ انسان کے تنے ہوئے سر، اکڑی ہوئی گردن اور پھولے ہوئے نفس کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ یہ آزمائش اور زیادہ سخت ہو جاتی ہے جب جمہوری نظام میں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ وہ ساری نعمتیں جو اللہ اپنی عطا کے ساتھ منسوب کرتا ہے، ہمارے بڑے بڑے سیاسی لیڈر اور ادنیٰ سیاسی کارکن اس کو اپنی کارکردگی کے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں۔ کہتے ہیں: ہم نے روٹی، کپڑا اور مکان دیا، ہم نے سڑکیں بنائیں، ہسپتال میں دوائیاں دیں، تعلیمی ادارے قائم کیے۔ بڑی بڑی تصویروں والے اشتہارات اور قد آور بینروں پر اس کارکردگی کے افسانے درج ہوتے ہیں۔ جلسوں میں ان کا تذکرہ جس فخر کے ساتھ کیا جاتا ہے اس کا لہجہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ ایک عام سی کامیابی، خواہ وہ امتحان میں پوزیشن ہو،کسی نئی فیکٹری کا قیام ہو، کسی کتاب کی تخلیق ہو‘ اس میں رسماً اللہ کا نام برکت کے طور پر لیا جاتا ہے لیکن پھر سارا تذکرہ اپنی محنت شاقہ اور خصوصی ذہانت اور صلاحیت کا کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارا روز مرہ کا معمول ہے۔ ہم گمان کرتے ہیں کہ ہماری کارکردگی ہماری ذاتی کاوش اور محنت ہے، اس میں اللہ کے شُکر کی کیا ضرورت ہے۔ رسماً شکر کا فقرہ زبان سے بول دیا جاتا ہے لیکن دل ان تمام فقروں پر باغ باغ ہوتا ہے جو ہماری تعریف میں لوگ روز ہمارے سامنے ادا کرتے ہیں اور ان فقروں میں وہ ہماری کاوشوں، محنتوں ، صلاحیتوں اور ذہانتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایسے لمحوں میں ہمیں اللہ کی یاد بہت اجنبی سی لگتی ہے۔ افراد کی شکر گذاری اور ناشکری کا تعلق اللہ کی ذات کے ساتھ ہے۔ اس کے اجروثواب اور سزا و عذاب کے لیے اُس نے روزِ محشر ہر کسی سے علیحدہ علیحدہ حساب لینا ہے: ’’اور ان میں سے ہر شحض قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہوگا اکیلا اکیلا‘‘(مریم:95) کوئی کنبہ، کوئی گروہ، قبیلہ یا پارٹی ایک ساتھ حساب کے لیے پیش نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی کسی کے گناہ یا نیکی میں حصے داری کرے گا۔ لیکن اس دنیا پر عذاب و ثواب اور نعمتوں کے زوال و عروج کو اللہ نے قوموں کے اجتماعی رویّے کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ جب قوموں کی اکثریت، یا قومیں بحیثیت مجموعی اللہ کی ناشکر گذار ہو جاتی ہیں تو اللہ ان کا فیصلہ یہیں کر دیتا ہے۔ اس نے اپنے کرم کی بھی یہی دو علامتیں بتائی ہیں اور اپنے غضب کو بھی انہی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ سورۃ القریش میں جب وہ قریش قوم پر اپنے احسان گنواتا ہے تو فرماتا ہے: ’’اس گھر کے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھوک میں رزق دیا اور خوف میں امن دیا‘‘ یہ اس کے انعام ہیں اور جب وہ عذاب نازل کرتا ہے تو فرماتا ہے کہ تمہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیاگیا۔ہم نے بھوک اور خوف کا لباس مدتوں سے پہنا ہوا ہے۔ لیکن ہمارے زمین پر دعوے ہی ختم نہیں ہوتے۔ کوئی للکار کر کہتا ہے ہم امن قائم کریں گے، ہم کمر توڑ دیں گے دہشت گردوں کی، ہماری حکمتِ عملی بہت زبردست ہے۔ کسی کو ملک سے غربت دور کرنے، غریبوں کو رزق مہیا کرنے کے دعوے کرنے سے فرصت نہیں۔ رزق‘ جس کا وعدہ اس مالکِ کائنات نے روز ازل کر دیا تھا، ہم اس کا ذمہ اپنے سر لیتے ہیں۔ دنیا کا یہ اصول ہے کہ جس ادارے کی ملازمت آپ اختیار کرتے ہیں اس کے تمام اصول و قواعد کو مانتے ہیں، کسی ایک سے بھی انکار نہیں کرتے ۔ اوقات کی پابندی، یونیفارم پہننا، باس کے احکامات کی تعمیل، ادارے کی خیر خواہی، ڈیوٹی کو دل و جان سے ادا کرنا۔ جب آپ یہ سب کچھ پوری دیانت داری سے کررہے ہوتے ہیں تو آپ کے دل میں ایک لمحے کے لیے بھی شک نہیں گزرتا کہ ہمیں یکم تاریخ کو تنخواہ نہیں ملے گی۔ ہم اس کائنات کے مالک، خالق اور رازق پر اتنا بھی یقین نہیں رکھتے جتنا فیکٹری کے مالک، ادارے کے سربراہ یا صوبائی یا مرکزی حکومت پر رکھتے ہیں۔ اسی لیے نہ ہم اُس کے بتائے ہوئے اصول وقواعد کو مانتے ہیں، نہ اوقات کی پابندی کرتے ہیں، نہ اس کے ادارے یعنی مخلوق کی خیر خواہی کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی بتائی ہوئی ڈیوٹی کو دل وجان سے ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی فیکٹری میں اگر نوے فیصد سے زیادہ ملازمین ایسا کرنے لگیں تو وہ فیکٹری تباہ ہو جاتی ہے‘ تنخواہیں بند ہو جاتی ہے اور رزق کا راستہ رک جاتا ہے۔ لیکن میرا مالک، میرا خالق پھر بھی مہلت پہ مہلت دیے جاتا ہے۔ وہ بستیوں سے مایوس نہیں ہوتا۔ لیکن پھر ایک دن اس کا فیصلہ آجاتا ہے… تطہیر کا‘ چھانٹی کا… وہ قادر ہے کہ پوری کی پوری نسل کو بدل دے۔لیکن وہ پہلے وارننگ ضرور دیتا ہے: ’’اور ہم انہیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے کہ شاید یہ رجوع کرلیں‘‘(السجدہ:21) ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے قتل کروا کر عذاب کا مزا چکھانا، سیلاب کی آمد، زلزلوں کے جھٹکے، یہ سب اُس کے چھوٹے عذاب کی علامتیں ہیں۔ کیا ہم سنبھل گئے؟ کیا ہم شکر گزار ہوگئے؟ کیا ہم نے اس کی جانب استغفار کرتے ہوئے رجوع کر لیا؟ ہم مست ہیں، ہم سمجھتے ہیں ہمارے سروں پر حکومتوں کے تاج سجنے والے ہیں، جیت کے ڈنکے بجنے والے ہیں‘ لیکن پتہ نہیں کیوں اہلِ نظر اُس دن کی آمد کے خوف سے کانپ رہے ہیں۔ عالم الغیب اللہ کی ذات ہے۔ بام و در کی خیر، اس کی پناہ کے طلبگار ہیں کہ ہماراتو اس دنیا میں اور کوئی آسرا ہی نہیں ہے۔