گزشتہ دس بارہ سالوں میں اس ملک میں جس چیز کا سب سے زیادہ تمسخر اڑایا گیا‘ تضحیک کی گئی‘ بہانے بہانے سے اسے متروک‘ فرسودہ اور دقیانوسی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی وہ شریعتِ اسلامی یعنی اللہ کے وہ احکامات ہیں جنہیں اللہ کسی معاشرے میں نافذ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اگر اس کے احکامات نافذ ہوجائیں تو اللہ خود اس قوم کے لیے امن اور وسیع رزق کا ذمہ لے لیتا ہے۔ پاکستان کا وہ آئین جس کی اس ملک میں موجود‘ ایک لاکھ وکیل علیحدہ علیحدہ تشریح کرتے ہیں‘ ایک عدالت کچھ فیصلہ کرتی ہے اور دوسری عدالت بالکل اس سے مختلف۔ اگر سپریم کورٹ آئین کی ایک تشریح کردے تو سیاست دان اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود سب کہتے ہیں کہ آئین بالاتر ہے‘ قابلِ عمل ہے‘ اسی سے ملک چلایا جاسکتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ کون سا آئین مانیں‘ سپریم کورٹ والا یا فیصل رضا عابدی والا۔ لیکن آپ کسی بھی پروگرام میں شریعت کے نفاذ کی بات کرکے دیکھ لیں سب کے سب آپ پر پِل پڑیں گے‘ کونسی شریعت، کس کی شریعت۔ اب تو ایک اور اصطلاح بھی ایجاد کرلی گئی ہے۔ ’’اپنی مرضی کی شریعت کا نفاذ۔‘‘ یہ رویہّ ہمارے دانشوروں اور ادیبوں میں خود بخود پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے کئی سال محنت کی گئی۔ سعادت حسن منٹو کے کرداروں کو اٹھا کر دیکھیں تو آپ سوچتے رہ جائیں گے۔ اپنی جانب سے یہ عظیم افسانہ نگار زندگی کے تضادات دکھا رہا تھا لیکن اسے پورے انسانی معاشرے میں اگر رحم دل اور انسانیت کے جذبے سے سرشار کوئی کردار نظر آتا ہے تو وہ غنڈوں، بدمعاشوں، دلاّلوں اور طوائفوں میں نظر آتا ہے اور اگر وہ کسی ظالم‘ کینہ پرور‘ چھپے ہوئے مجرم کا نقشہ کھینچنے لگتا ہے تو اسے چہرے پر داڑھی سجائے مولوی دکھائی دیتا ہے۔ سارے کے سارے افسانے پڑھیے‘ آپ کو نہ کوئی سیدھا سادہ شریف اور نیک مولوی نظر آئے گا اور نہ ہی کوئی سر تا پا بدمعاش اور قاتل۔ ایسا لگتا ہے منٹو کا معاشرہ نیکی کرنے کے لیے بدمعاش کو ضروری سمجھتا ہے اور بدی کے لیے مولوی کو۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ لاکھوں مسلمان عورتیں قیامِ پاکستان کے وقت قتل ہوئیں، ان کی زبردستی آبرو ریزی کی گئی‘ لیکن اس ’’قابل فخر‘‘ افسانہ نگار کو اپنے افسانے ’’کھول دو‘‘ میں مسلمان عورت کی آبرو ریزی کے لیے ان رضا کاروں کا کردار تخلیق کرنا پڑا جو ہندوستان میں محصور عورتوں کو پاکستان لا رہے تھے۔ معاشرے میں گندگی ہوتی ہے‘ تعفن اور بدبو موجود ہوتی ہے لیکن اسے اپنے خیالی کرداروں میں ایسے لوگوں کے کھاتے میں ڈالنا جن سے اسلام کی پہچان ہو یہ بددیانتی ہے۔ یوں کئی سال مولوی کو مشکوک اور بدکردار بنا کر پیش کیا گیا۔ وہ مولوی جس نے چند سوکھی روٹیوں اور کچے مکان میں بیٹھ کر دور دراز علاقوں میں دین کو شعوری یا لاشعوری طور پر زندہ رکھا۔ معمولی تنخواہ والا‘ یا صرف دو وقت کی روٹی والا یہ مولوی کبھی ہڑتال پر نہیں گیا۔ ایک دن کے لیے بھی کسی مسجد کو تالہ نہ لگا‘ ایک منٹ کے لیے کوئی نماز لیٹ نہ ہوئی‘ ایک لمحے کو بھی کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ اس گائوں میں ان کے بچوں کو قرآن کون پڑھائے گا؟ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ استاد‘ پائلٹ سب ہڑتال پر گئے‘ لیکن آج بھی جب وہ صرف تین چار ہزار روپے ماہوار تنخواہ لیتا ہے‘ اس نے احتجاجاً بھی مسجد جانے سے انکار نہ کیا۔ لیکن خیر۔ مولوی کو گالی بنا دیا گیا۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین کے کسی افسانہ نگار، شاعر یا ناول نگار کو اٹھا لیں آپ کو ان کا کوئی نہ کوئی کردار ایسا ضرور ملے گا جس میں مولوی کے اندر شیطان چھپا بیٹھا ہے‘ جب ساٹھ ستر سال کی محنت سے مولوی ملعون ہوگیا تو پھر سیدھا اسلام پر حملے کی نوبت آگئی۔ جس کسی داڑھی والے سے کوئی جرم سرزد ہوا‘ پہلا نعرہ یہی لگایا گیا ’’یہ دیکھو ان کا اسلام‘‘۔ کسی نے ڈاکٹر کی غلطی کو میڈیسن کے علم کی غلطی کہا؟ انجینئر کی بددیانتی پر انجینئرنگ کے علم کو مسترد کیا؟ یہ دین صرف مولوی کا تو نہیں تھا۔ آپ اٹھ کر اس کی اصل روح کو نافذ کر لیتے۔ لیکن معاملہ نفاذ کا تو تھا ہی نہیں‘ معاملہ تو اس کے تمسخر اڑانے کا تھا۔ ہر کسی نے اس ’’کارِخیر‘‘ میں اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالا۔ صادق اور ا مین کی بحث چھڑی تو وہ معیارات جو اللہ اور اس کا رسولؐ مسلمانوں کی قیادت میں دیکھنا چاہتے ہیں اسے ضیاء الحق سے منسوب کرکے اسلام کو مطعون کیا گیا۔ اسلام کے نزدیک سب انسان برابر ہیں لیکن اللہ معاشرے میں معزز ہونے کا حق صرف اس کو دیتا ہے جو ’’تقویٰ‘‘ اختیار کرے اور صادق اور امین ہونا تقویٰ کی بنیادی شرائط میں سے ہے۔ لیکن ہم تو معزز اس کو مانتے ہیں جنہیں اٹھارہ کروڑ عوام منتخب کردیں۔ پورے مکہ میں سو کے قریب لوگ رسول اللہﷺ کے تیرہ سالہ مکّی دور نبوت میں ایسے تھے جو اللہ کے نزدیک معزز تھے اور پورے مکہ کی جمہوری رائے ان کے خلاف تھی۔ وہ بھی پکار پکار کر کہتے تھے‘ ہم بھی دین ابراہیمی کو جانتے ہیں‘ لیکن یہ مٹھی بھر لوگ اپنی مرضی کی شریعت ہم پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں میں اس سادہ لوح مولوی کو قصور وار نہیں ٹھہراتا لیکن اس ملک کے علماء جانتے تھے کہ شریعتِ نافذہ صرف ایک ہی ہے۔ وہی شریعت جس کے مطابق تحریر کردہ بائیس نکات پر ان تمام علماء کے اساتذہ نے دستخط کیے تھے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اسلام کے جو اصول معاشرے میں نافذ ہونا ہیں اِن میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ کوئی نہیں کہتا، سود حلال ہے‘ زنا پر سنگسار نہ کرو، چوری پر ہاتھ نہ کاٹو، حجاب کے بغیر عورتوں کو باہر آنا چاہیے۔ کم تولنا، جھوٹی گواہی دینا جائز ہے۔ کسی کے نزدیک بھی قصاص کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ قوانین ہیں جو اسلام کا قانونِ تعزیرات اور قانونِ اقتصادیات متعین کرتے ہیں لیکن ان سب علمائے کرام نے اپنے ان اساتذہ کی تقلید میں‘ جنہوں نے بائیس نکات تحریر کیے تھے‘ ایک مسودۂ قانون اور ایک مسودۂ آئین بھی مرتب کرکے پیش نہ کیا۔ ہر کوئی اپنی اپنی مصلحت میں اپنی اپنی بھیڑوں کو سنبھالنے میں لگا رہا۔ اس لیے اس سارے عرصے میں میرے دین کا جو تمسخر میڈیا پر اُڑایا گیا‘ اسمبلی کے ایوانوں میں جس طرح اس کی تضحیک کی گئی اس پر یہ سب لوگ بھی اسی طرح جوابدہ ہوں گے، جو ٹی وی پر وضو کے طریقے، نماز کے احسن انداز اور روزے کی مکروہات پر اختلاف سے یہ بحث تو کرتے رہے کہ جعفری، مالکی، شافعی، حنبلی اور حنفی میں کیا فرق ہے لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ کے سود کے خلاف اعلان جنگ پر میدان میں نہ نکلے‘ حالانکہ یہ سب اس پر متفق تھے۔ ان دس سالوں میں سپریم کورٹ سے شریعت کورٹ تک غیر سودی نظام کا تمسخر اُڑایا گیا‘ لیکن کسی کی آنکھ سے آنسو تک نہ نکلے۔ وہ حکمران جو سود کے حق میں عدالتوں میں گئے اور مہلتیں مانگ کر اللہ کے اس حکم کو ٹالتے رہے‘ آج پھر میدانِ سیاست میں ووٹ مانگ رہے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ میں مخالف فوج کا حصہ تھے۔ یاد رکھو‘ یہ دس بارہ سال ہم کو مہلت ملی تھی۔ یہ اللہ کے حلم اور رحمت کی بات ہے کہ مہلت ملتی گئی اور ہم اس کا اوراس کے دین کا مذاق اُڑاتے رہے۔ اس کے چاہنے والے بار بار پکارتے رہے‘ اس کی طرف لوٹ جائو، لیکن بحیثیت مجموعی ہم نے ان کا بھی تمسخر اُڑایا۔ یاد رکھو‘ اور بار بار یاد رکھو کہ اللہ فرماتا ہے: ’’اے نبی لوگوں سے کہو‘ میرے رب کو کیا حاجت پڑی ہے کہ اگر تم اس سے رجوع نہ کرو‘ اسے نہ پکارو (الفرقان77) وہ بے نیاز ہے۔ تم سب اس کا انکار کردو تو اس کی خدائی میں ایک انچ فرق نہ آئے گا۔ لیکن وہ اس آیت میں فرماتا ہے۔ ’’اب کہ تم نے جھٹلا دیا ہے‘ تو عنقریب وہ سزا پائو گے کہ جان چھڑانی محال ہوگی۔‘‘ یاد رکھو مہلت طویل ہوتی جائے تو پکڑ سخت ہوتی جاتی ہے۔