"OMC" (space) message & send to 7575

جمہوریت کے اجارہ دار

آج علامہ محمد اسد بہت یاد آ رہے ہیں۔ یہ تحریکِ پاکستان کا وہ عظیم مجاہد ہے کہ جس کا ذکر میرے ملک کی نصاب کی کتابوں سے بھی کھرچ دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ تحریکِ پاکستان کی واحد کڑی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قائداعظم پاکستان میں ایک اسلامی آئین مرتب کرانے، اسلامی معاشی، تعلیمی اور معاشرتی نظام قائم کرنے کے کام کا سرکاری سطح پر آغاز کر چکے تھے۔ قائداعظم کی ہدایت پر لاہور میں علامہ محمد اسد کی سربراہی میں ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم ہوا تھا اور اسے یہ چاروں کام سونپے گئے تھے۔ علامہ محمد اسد جو آسٹریا کے یہودی خاندان میں پیدا ہوا، اسلام قبول کیا اور جب برصغیر پاک وہند میں آکر علامہ اقبال سے ملا تو یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اس نے اپنے رسالے ’عرفات‘ میں1946ء میں سب سے پہلے پاکستان کا مطلب کیا، لا الہٰ الا اللہ کا نعرہ بلند کیا جو مسلمانوں کی زبان بن گیا۔ قائداعظم نے اسلامی آئین، طرزِ تعلیم ا ور اسلامی اقتصاد یات پر حکومتی نمائندے کی حیثیت سے علامہ اسد کو ستمبر1947ء میں ریڈیو پر تقاریر کرنے کی ہدایت کی اور وہ سات تقریریں آئین سازی کی اسلامی بنیادوں کی اساس ہیں۔آج علامہ محمد اسد اس لیے یاد آرہے ہیں کہ جب ان کے محکمے نے اپنا تمام کام مکمل کیا تو وہ یہ سفارشات لے کر وزیر اعظم لیاقت علی خان کے پاس گئے۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے حوالے کیا، جس نے انہیں ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ علامہ اسد نے اپنی سوانح عمری میں قادیانیوں کو انگریز کا ایجنٹ اور ظفراللہ کو ایک بدترین اسلام دشمن کے طور پر تحریر کیا ہے۔ لیکن ان سفارشات کے ساتھ علامہ نے دو بہت اہم تجاویز دیں۔ پہلی یہ کہ جب تک آپ انگریزوں کی وفاداریوں کے عوض جاگیردار ، نواب اور وڈیرے بننے والوں سے جائیدادیں نہیں چھینیں گے، آپ اس ملک میں کوئی بہتر تبدیلی نہیں لا سکتے۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ انگریز کا بنایا نصاب ِتعلیم اور تعلیمی نظام زہرِ قاتل ہے۔ اس سے صرف غلامانہ ذہنیت والے لوگ جنم لیتے ہیں۔ پہلے اپنا اسلامی نظامِ تعلیم وضع کرو اور اس وقت تک تمام سکول کالج بند کردو، ورنہ روزانہ کے حساب سے تم منزل سے دور ہوتے جائو گے۔ میں بحیرۂ عرب کے ساحلوں سے طو رخم کے بارڈر تک جب ہر چند سالوں کے بعد منتخب ہو کر آنے والی قیادت کا شجرہ نسب دیکھتا ہوں تو نسل در نسل انگریز کی وفاداریوں اور غلامی کے طوق ان کی گردنوں میں پیوست نظر آتے ہیں۔ یہ وہ وطن فروش لوگ تھے جنہوں نے اس زمین اور اس پر بسنے والوں کا سودا کیا اور اُس کے عوض نہ صرف جاگیریں لیں، بلکہ فوج اور انتظامیہ میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے اور اس کے بعد سپاہی سے لے کر ایس ایچ او تک اور پٹواری سے تحصیلدار تک سب کو اپنازرخرید غلام بنا لیا۔ غلامی کے اس تاج کو پہننے میں پنجاب سب سے آگے، پھر سندھ، اور اس کے بعد خیبرپختونحوا اور بلوچستان آتے ہیں۔ لیکن گذشتہ سڑسٹھ سال کی جمہوری قیادت کا شجرہ نسب اٹھا ئیں تو اکثریت کی رگوں میں وطن فروشی کا زہر گردش کرتا نظر آئے گا ۔ ان کے آبائو اجداد بھی جیتنے کے قابل(Electable) تھے اور یہ بھی ہیں۔ ان کے ضمیر، اخلاق، اور غیرت و حمیت پر پارٹی بدلنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا، یہ مدتوں سے اپنے گھروں پر ہر وقت مرغ باد نمانصب کیے ہوتے ہیں جو انہیں ہوا کا رُخ بتاتا ہے اور پھر یہ لیڈران خود کو اس ہوا کے سپرد کر دیتے ہیں۔ آپ ان کے آبا واجداد کے کارناموں اور کارگزاریوں کی تاریخ اٹھائیں تو ایک حیرت کا جہاں آپ پر کھلتا ہے۔ جمہوریت کا سفر جسے بہت سے دانشور متبرک بنا کر پیش کرتے ہیں اس میں نوابزادہ نصراللہ خان سے بڑا کونسا نام ہوگا۔ لیکن اگر ان کا دادا الہ داد خان1857ء کی جنگ آزادی میں بنگال رجمنٹ نمبر68کے حریت پسند سپاہیوں کو جو فوج چھوڑ کر بھاگے تھے، قتل کرنے میں مدد نہ کرتا اور اسے دربار عام میں دوبار خلعت نہ ملتی، خانصاحب کا خطاب نہ ملتا،آنریری مجسٹریٹ نہ بنتا اور وہ جائیداد بھی میسر نہ آتی جس کی آمدن نوابزادہ صاحب کی سیاست کے کام آئی‘ تو نوابزادہ صاحب عام سے سیاسی کارکن رہتے اور گمنامی کی موت مرجاتے۔ ڈیرہ غازی خان کے بلوچ سرداروں نے انگریز وائسرائے کے حضور چاندی کے تاروں سے لکھ کر جو سپاس نامہ پیش کیا تھا، اسے میں روز اپنے محکمہ کے عجائب خانہ میں دیکھتا ہوں تو آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ ان کی اولادیں گذشتہ دس الیکشنوں سے آج تک جمہوریت کے صاف اور شفاف نظام کی مرہون منت برسر اقتدار ہیں۔ بس ایک ذرا پارٹی بدلنے کی دیر ہے۔ اقتدار کا تاج آپ کے سر پر۔1857ء میں اگر مخدوم شاہ محمود قریشی کے جّداِمجد مخدوم شاہ محمود بذاتِ خود کرنل ہملٹن کے ساتھ باغیوں کی سرکوبی کے لیے نہ جاتے اور ان خدمات کے صلے میں مبلغ2000/-روپے نقد انعام وصول نہ کرتے تو انگریز اس خاندان کو کچل کر رکھ دیتا جیسے ٹیپو سلطان کے ساتھ کیا گیا۔ نہ شاہ محمود قریشی ہوتے اور نہ ان کی سیاست۔ چکری کے چوہدری نثار علی خان کے جّداِمجد چوہدری شیر خان اگر1857ء کی جنگ آزادی کے دوران کمشنر صاحب بہادر کے ہمراہ مری جاکر باغیوں کو قتل نہ کرتے، مبلغ500/-روپے کی خلعت وصول نہ کرتے، اور پانچ سو روپے سالانہ پنشن ان کے حق میں منظور نہ ہوتی تو چوہدری نثار علی خان صاحب راولپنڈی میں زیادہ سے زیادہ ایک نعرے لگانے والے عام سے کارکن ہوتے۔ بلوچستان کے تمام سردار ہر سال سبی میلے میں مدعو ہوتے رہے۔ سبی میں گورنر جنرل اپنے گھر سے میلہ گرائونڈ تک ایک بگھی میں بیٹھ کر آتا جسے گھوڑے نہیں بلکہ بلو چ سردار کھینچ رہے ہوتے۔ آج انہی سرداروں کی اولادیں قوم پرست بھی ہیں اور مسلم لیگ کے دست وبازو بھی۔ انگریز نے جب1843ء میں سندھ فتح کیا تو جنرل نیپرٔ کو تالپوروں کے مقابلے میں اپنے وفادار پیر بخش بھٹو کے فرزند دو دو خان بھٹو کی یاد آئی جسے علاقے کا سردار مقرر کیا گیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا، اس خاندان کی جڑیں مضبوط نہ ہوتیں تو ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک شاندار وکیل کی زندگی گذار کر خاموشی سے دنیا چھوڑ جاتے۔ خیبر پختون خوا کے قلی خان خٹک اگر خان بہادر کا لقب نہ لیتے، پولیٹکل ایجنٹ نہ بنتے، دوسری جنگ عظیم میں ملائوں کو انگریزوں کے لیے ساتھ نہ ملاتے تو آج خٹک خاندان کا کیا مقام ہوتا۔ آپ حیران ہو ں گے کہ1939ء میں قلی خان نے ملائوں کو کہا کہ انتہا پسندی اسلام کی دشمن ہے اور جرمن اسلام کے خلاف انتہا پسندوں سے تعاون کر رہاہے۔ آج پچھتر سال بعد بھی مسلمانوں کو یہی منطق دے کر گمراہ کیا جاتا ہے۔ یہ صرف چند خاندان ہیں جو میں نے مثال کے طور پر سامنے رکھ دیے ورنہ آج کی سیاسی پارٹیوں میں ہر بڑے کا شجرہ نسب نکال لیں۔ چند ایک ایسے ملیں گے جن کا دامن انگریز کی وفاداری اور قوم فروشی سے پاک ہوگا۔ سوسال سے یہ حکمران لوگ اپنے علاقوں میں تھانیدار اور پٹواری کے ذریعے ایک ایسا غلبہ قائم کیے ہوئے ہیں کہ ووٹ کی صندوقچی میں محکوم لوگوں کی رائے انہی خونخوارغاصبوں کے حق میں نکلتی ہے‘ جو سر اٹھائے اُس کی زمین کسی دوسرے کے نام اور اُس کے پورے خاندان پر قتل اور ڈکیتی کے پرچے۔ جن کے آباء و اجداد کا غلبہ اس قدر مستحکم ہے کہ وہاں مزارع ،ہاری یا مزدور پیشہ افراد کی خواتین بھی جاگیر ہوں، ایسے گائوں، قصبے اور قریے میں جمہوریت اور ووٹ کی کیا اہمیت ہوگی۔ جہاں جسم جاگیر سمجھا جائے وہاں نو خانوں والی مہر کیسے آزاد ہو سکتی ہے۔ اگلے سو سال ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جہاں ترقی ہو جائے ۔ لوگ پڑھ لکھ جائیں وہاں اربوں ڈالر پارٹی فنڈ اور میڈیا کے اثر سے رائے خرید ی جاتی ہے اور میرے جیسے ملک میں دھونس اورغلبے سے۔ کیسا خوبصورت لفظ ہے لوگوں نے ان نمائندوں کو اپنی مرضی سے منتخب کیا ہے ۔ کبھی کوئی ان کاپنتے ہاتھوں سے لگائی گئی مہروں کے پیچھے ان ظالموں کا خوفناک چہرہ دیکھ لے تو اس کی چیخیں نکل جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں