بلوچوں کی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا ہے جس کی گونج آج تک بلوچ معاشرے میں سنائی دیتی ہے۔ یہ واقعہ بلوچ قوم کی حرّیت، دلیری،سخت جانی کے ساتھ ساتھ سادہ لوحی اور دوسروں پر اعتماد کرکے دھوکہ کھانے کی روایت سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان دنیا پر بنو عباس کی حکومت تھی، لیکن آپس کی ریشہ دوانیوں اور مسلکی اختلاف نے اسے بہت کمزور کردیا تھا۔ ایران کا وہ علاقہ جہاں سے بنو اُمیہ کے خلاف سب سے پہلے تحریک اٹھی تھی اورابو مُسلم خراسانی جیسے سپہ سالار نے بنو عباس کی حکومت کے لیے راہ ہموار کی تھی،اب وہاں ایک اور اتحاد جنم لے رہا تھا جو طبرستان کے علاقے میں ایک شخص علی بن بویہ اور اس کے دوبھائیوںالحسن اور احمد کی سرکردگی میں تھا۔934عیسوی میں اس اتحاد نے عباسی خلیفہ کے ترک جرنیل ’یاقوت‘ کو شکست دی اور فارس اور جُبیل کے علاقے میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ فقہی اختلاف نے ان لوگوں کو عباسیوں کے خلاف متحد ہونے کی مزید بنیادیں فراہم کیں اور یہ رے، کرمان،اومان، جزیرہ، گورگان اور دیگر علاقوں پر قابض ہوگئے۔ بویہ اہل تشیع سے تعلق رکھتے تھے پھر بھی انہوں نے عباسی خلیفہ کو ایک علامت کے طور پر تسلیم کیا اوراپنے زیر تسلط علاقوں پر آزادانہ حکمرانی قائم کی۔اس حکومت کو محمود غزنوی کی فتوحات نے ختم کیا۔دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی کے آل بویہ کے زیر تسلط کرمان، سیستان اور بلوچستان پر بلوچوں کی حکمرانی تھی۔ عباسی خلیفہ کو صرف نام کا خلیفۃ المسلمین ماننے کے بعد آلِ بویہ نے بلوچوں کے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہا اور ان کے علاقوں پر حملے شروع کردیے۔ بلوچوں نے ایک معاہدہ کے تحت انہیں خراج کی رقم بھی ادا کردی لیکن پھر بھی احمدبویہ بلوچوں کے دارالحکومت ’جیرفت‘ پر حملہ آور ہوگیا۔عہد شکنی پر سیخ پا بلوچ دلیری کے ساتھ لڑے اور اکثر حملہ آوروں کو قتل کردیااور جو بچ نکلے وہ بھاگ گئے۔ اس لڑائی میں احمدبویہ شدید زخمی ہوا اور اس کا بایاں ہاتھ اور دائیں ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں جس کی وجہ سے اسے تاریخ دان’’القطع‘‘ کے نام سے پکارتے رہے۔ بلوچوں کے سردار نے لاشوں کے ڈھیر سے اس نیم مردہ شخص کو نکالا‘ اس کا علاج کروایا اور اسے بلوچ روایات کے مطابق عزت و احترام سے واپس بھیج دیا۔ بلوچ اپنی سادہ لوحی اور اعتماد کی دولت میں مست اپنے معاملات میں مگن ہوگئے لیکن آل بویہ بلوچوں کو زیر نگیں کرنے کے لیے منصوبے بناتے رہے۔ اب بویہ خاندان کا ’عادالدولہ‘ حکمران تھا۔ اس کے دربار میں اسلامی تاریخ کا بہت بڑا مؤرخ ابن مسکویہ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ وہ اپنی تاریخ میں عاد الدولہ کی چالاکی اور ہوشیاری کا ایک واقعہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ایک بزدلانہ اور وحشیانہ حرکت تھی۔ ابن مسکویہ کے مطابق عادالدولہ نے کرمان کو بلوچوں سے پاک کرنے کے لیے ان پرلشکرکشی کی لیکن جب وہ اس علاقے میں پہنچا تو پتہ چلا کہ تمام بلوچ ایک پہاڑ ’جبل القفض‘ کے پیچھے چلے گئے ہیں اور اس پہاڑ تک ایک ہی راستہ ہے جو پہاڑوں کے بیچ تنگ درّے کی صورت ہے اور اگر بڑی سے بڑی فوج بھی ان کی جانب روانہ کی جائے تو اوپر بیٹھے بلوچ اس کا صفایا کردیں گے۔ اس کے شاطرانہ ذہن نے ایک چال سوچی اور پھر اس پر عمل درآمد کرڈالا۔ اُس نے اپنا ایک قاصد بلوچوں کے پاس روانہ کیا جس نے انہیں کہا کہ ہم آپ سے کسی قسم کا کوئی خراج وصول کئے بغیر آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ بلوچوں نے کہا، ہمارے پاس دینے کے لیے کوئی رقم موجود نہیں۔ قاصد نے کہا کہ عادالدولہ نے تم سے ایک خاص رعایت کی ہے‘ وہ یوں کہ تم لوگ خانہ بدوش ہو اور شکاری کتے پالتے ہو اس لیے اگر تم فی خیمہ ایک کتا خراج کے طور پر دے دو تو ہم تمہیں یہاں رہنے دیں گے۔ بلوچ اس ’’عظیم پیشکش‘‘ کے مقاصد نہ سمجھ سکے اور انہوں نے اپنے کتے ان کے حوالے کر دیے۔ کتا ایک وفادار جانور ہے۔ اس کی خصلت ہے کہ وہ مالک سے دور بھی ہوجائے تو اسے پہچانتے ہی اس کی جانب لپکتا ہے۔ عادالدولہ نے کتے حاصل کرنے کے بعد حکم دیا کہ ان کی گردنوں میں سفید آتش گیرمادہ باندھ دیا جائے اور درّے کے قریب پہنچ کر اس مادے میں آگ لگا کر کتوں کو چھوڑ دیا جائے۔ جیسے ہی بویہ افواج درّے میں داخل ہو ئیں، بلوچ سمجھے دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ وہ درّے کی طرف بھاگے تو ان کے اپنے ہی کتوں میں موجود آتش گیر مادے کو آگ دکھا کر چھوڑ دیا گیا۔ کتوں نے جونہی آگ کو محسوس کیا وہ جان بچانے کے لیے اپنے اپنے مالک سے جا کر لپٹ گئے اور یوں مالکوں کو ڈھونڈتے اپنے خیموںتک چلے گئے اور خیمے بھی آگ کی نذر ہونے لگے۔ آگ اور خون کے اس کھیل میں تمام بلوچ وہیں موت کی آغوش میں چلے گئے۔ بلوچ تاریخ میں یہ نقش ایسا گہرا اور دائمی بن گیا کہ جب بھی اس قوم کے ساتھ دھوکے اور فریب کی داستان دہرائی گئی ان کی نسلوں نے صدیوں پرانے اس قصے کو ضرور یاد کیا۔ ایسی ہی ترکیب محمود غزنوی کے سپہ سالار میر اسماعیل نے اختیار کی جب اس نے آلِ بویہ کی حکومت ختم کی لیکن بلوچ اس کے قابو میں نہیں آ رہے تھے۔ وہ جب اصفہان سے بلوچوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا تو اس نے کئی ہزار اونٹوں پر سیب لاد دیے اور ہر سیب میں زہر آلود سوئیوں سے زہر بھر دیا۔ جب یہ قافلہ جس میں بیس قطاریں ایسے سیبوں سے لدے اونٹوں کی شامل تھیں، بلوچ علاقے میں پہنچا تو بلوچ اس پر حملہ آور ہوئے۔ میراسماعیل کی افواج پسپائی کا ڈرامہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گئیں لیکن اپنے اونٹ وہیں چھوڑ گئیں۔ فتح کے عالم میں بلوچ‘ اونٹوں اور ان پرسیب دیکھ کر خوش ہوئے‘ پھر سب انہیں کھانے لگے۔ اس طرح زہر آلود سیب کھا کر سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ ساٹھ کی دہائی میں جب نواب نوروز خان کو قرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے اتار ا گیا اور اس کے بعد اُس کے بیٹوں اور ساتھیوں کو پھانسیوں کی سزائیں دی گئیں تو اس وقت بھی بلوچوں کو تاریخ کے یہ قصے بہت یاد آئے۔ عبدالمالک بلوچ ان سیاسی رہنمائوں میں سے ہے جسے میں زمانۂ طالب علمی سے جانتا ہوں۔ وہ مکران کے اس علاقے سے تعلق رکھتا ہے جس نے بہت پہلے سرداری نظام کا طوق گلے سے اتار کر پھینکا تھا۔ اسی لیے مکران کے بلوچ نوجوان بلوچستان کی قومی تحریک کا ہراول دستہ رہے ہیں۔ یوں تو بلوچستان کی تمام تر انتظامی صورت حال انگریز کے زمانے سے وفادار اور غیر وفادار کے درمیان تقسیم رہی ہے۔ وفادار ہمیشہ سرداروں میں سے تلاش کیے جاتے تھے۔ انگریز ہو یا اس کے بعد کے حکمران طبقے ، سردار وفاداریوں کی عرضداشتیں جیبوں میں رکھے موجود رہتے تھے۔ ایک سردار پورے قبیلے کی وفاداری کا ضامن بن جاتا تھا۔ دوسری طرف حکومتوں کے غضب کا شکار سردار (ناراض سردار) حقوق کی تحریک کا سربراہ ہوجاتا۔ ایسے سردار کے ساتھ معاملہ کرنا بہت آسان تھا۔ کوئی انہیں دھوکہ دیتا، ان سے معاملات خراب کرتا تو وہ اچھے وقت کا انتظار کرتے‘ لیکن عبدالمالک بلوچ شاید ایسا نہ کرسکے کہ وہ ایسا کرہی نہیں پائے گا۔ اس کی طاقت وہ سوچ ہے جو ہر اس بلوچ نوجوان کے دل میں ہے جو اس سے وابستہ ہے۔ وہ حکم نہیں چلا سکتا، وہ مجبور نہیں کر سکتا۔اس کا موقف ہی اس کی طاقت ہے، اس لیے وہ بٹ کر اپنی طاقت ختم نہیں کرسکتا اور جو بلوچ موقف سے نہ ہٹے، ڈٹ جائے تو پھر تاریخ چالسازی کا راستہ دکھاتی ہے‘ پنجابی میں اسے’’روند‘‘ کہتے ہیں۔ ایک پرانا پنجابی گیت یاد آ رہا ہے: ’’ماہی میریا روند نہ ماریں میں دا لایا جند جان دا‘‘ ’’اے میرے محبوب کوئی چالبازی نہ کرنا، میں نے زندگی دائو پر لگا دی ہے‘‘۔ یہاں میرے ملک کی زندگی دائو پر لگی ہوئی ہے۔