"OMC" (space) message & send to 7575

بیورو کریسی اور جوڈیشل ایکٹوزم

یہ1959ء تھا۔ پورے پاکستان میں سول سروس کا طوطی بولتا تھا۔ ایوب خان کے مارشل لاء میں تو یہ لوگ ایسے صاحبِ اختیار تھے کہ فوج سے آئے ہوئے افسران جن کا عوام سے کوئی رابطہ تھا اورنہ ہی سو ل قوانین کا تجربہ، وہ سب کے سب ان سے مرعوب رہتے۔ اس دور کے کرتا دھرتا لوگوں کی فہرست اٹھائیں تو انگریزی لباس زیبِ تن کیے، وکٹورین زمانے کی انگریزی لکھتے اور بولتے ہوئے یہ سی ایس پی چھائے ہوئے نظرآئیں گے۔ اسی دور میں سپریم کورٹ کے ایک نیک نام جج، جسٹس اے آر کارنیلیس کی سربراہی میں31اگست1959ء کو بیورکریسی کی اصلاح کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا، جس میں آٹھ دیگرارکان تھے جو اسی ’’عظیم‘‘ سول سروس آف پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان افسران کو آئینی تحفظ بھی حاصل تھا اور یہ لوگ اصل میں پورے ملک کے بے تاج حکمران تھے۔ آج سے53سال قبل اس کمیشن نے 478صفحات پر مشتمل جو رپورٹ پیش کی وہ اس قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ وہ ’’عظیم سروس‘‘ جسے آپ سٹیل فریم کہتے ہیں، دراصل زنگ آلود ہو چکا ہے اور اگر ان لوگوں نے اس کو درست نہ کیا تو پھر یہ زنگ پورے معاشرے کو کھا جائے گا۔ کرپشن جس کا ہم آج بہت رونا روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے ہماری ساری ترقی کا پہیہ روک دیا، ہمیں دیوالیہ کر دیا ، ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ، کارنیلیس رپورٹ اس کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’ آج کے حالات سے پیدا ہونے والا بہت بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کا کوئی محکمہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کرپشن کے مرض سے پاک ہے۔ برطانوی دور میں ایسا دعویٰ کیا جاتا تھا اور صحیح کیا جاتا تھا، خصوصاً برٹش انڈین سول سروس کے تمام افسران کے بارے میں یہ کہا جا سکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس سروس کے افسران کو دوسروں سے برتر اور بہتر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جہاں سول سروس کے دوسرے معاملات میں زوال آیا ، وہاں دیانت بھی اس گروپ سے رخصت ہو گئی ۔ چند ہفتے پہلے محکمہ انٹی کرپشن نے جن افسران کے خلاف کارروائی کی اور جرم ثابت کئے، ان کی لسٹ شائع کی۔ اس لسٹ میں سول سروس کے تین اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ یہ ہیں وہ حالات کہ گزر گئے وہ دن جب یہ لوگ ایماندار ہوا کرتے تھے‘‘۔یہ 1959ء تھا۔ آج سے53 سال قبل۔ وہ زمانہ جب کسی محلے میں کوئی کلرک بھی رشوت لیتاتھا تو محلے میں نفرت کی علامت بن جاتا تھا۔ لارڈ کارنیوالس کے لگائے ہوئے اس سول سروس کے پودے کو دیمک لگ چکی تھی۔ یہ لوگ اس وقت بہت بالا دست تھے، صاحب اختیار تھے۔ ایک بددیانت آدمی کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہر ایک کوشریک جرم کر لیتا ہے تاکہ کوئی اس پر انگلی اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ انہوں نے اس زمانے کے فوجی افسروں کو اپنے جال میں پھنسایا۔ وہ فوجی جنہیں سول معاملات کا ادراک کہیں سات آٹھ سال کے تجربے کے بعد ہوتا ہے، ایوب خان کو الیکشن جتوانے کے ڈھنگ بتائے، اس کے اختیار کو عوام پر زبردستی تھوپنے کے لیے سب ہتھکنڈے استعمال کیے تا کہ ہربالادست حکمران کی نظریں ان کے سامنے نیچی رہیں۔ بنیادی جمہوریت کے ذریعے وزارتوں تک پہنچنے والے سیاست دان تو ان کے لیے نرم چارہ تھے، بے چارے نہ فائل پڑھ سکتے تھے اور نہ ان کی چالوں کی تہہ تک پہنچنا ان کے بس میں تھا۔ شیشے میں اتارنے کا فن تو یہ خوب جانتے تھے۔ سیاسی آقائوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، ان کی جائزو ناجائز خواہشات پر اصولوں کو قربان کرنا انہوں نے خوب سیکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین سیاست دان نے ایوب خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ مسلم لیگ (کنونشن) کا ضلعی صدر ڈپٹی کمشنر اور سیکرٹری جنرل ایس پی کو ہونا چاہیے۔ اقتدار کے ایوانوں کے یہ کہنہ مشق کھلاڑی سب کچھ کرتے رہے اور عوام ان کی کرپشن، غصہ، غضب اور ناانصافیوں کی چکی میں پستے چلے گئے۔ ملک میں جمہوری نظام آگیا۔ نیا آئین بن گیا۔ تمام افسران کی ازسر نو تنظیم ہوئی۔ مختلف گروپ بنا دیے گئے۔ یوں لگا کہ سیاست دان حکمران ہوگئے ہیں اور وہ بھی بھٹو جیسے ذہین شخص کی سربراہی میں۔ لیکن صرف چار سال بعد1977ء کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی نامزدگیاں ڈپٹی کمشنروں کی سفارشات کے مطابق کیں۔ یوں سول سروس کے ارکان پوری دنیا میں اپنی کرپشن ، قانون کی دھجیاں بکھیرنے اور سیاست دانوں کے سامنے سربجود ہونے کا ایک ہی جواز دیتے رہے کہ ہمیں آئینی تحفظ حاصل نہیں اور ہم سیاست دانوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ حالانکہ حالت یہ تھی اور آج بھی ہے کہ سیاست دان ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور یہ بحیثیت گروہ ان کو انگلیوں پر نچاتے ہیں۔ لیکن اس سارے گٹھ جوڑ میں مظلوم وہ سائل ہوتے ہیں جو ان کے دروازے سے دھتکارے جاتے ہیں۔ یہ عوام کا ایک فیصد ناجائز کام بھی مخصوص مفادات اور لالچ کی وجہ سے شوق سے کرتے ہیں اور ننانوے فیصد جائز کاموں سے خوامخواہ انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ’’ ہم پر سیاسی دبائو ہے‘‘۔ گزشتہ تین دہائیوںسے ان تمام افسران نے ایک روش اختیار کر رکھی ہے کہ اگر ان کے دروازے پر کوئی ایسا سائل آجائے جس کا یہ بوجوہ کام نہیں کرنا چاہتے تھے تو اسے کہہ دیتے ہیں’’ میں بہت مجبور ہوں، جائو عدالت سے آرڈر لے آئو، میں عملدرآمد کروا دوں گا‘‘ ۔گویا یہ ان کا بہت بڑا احسان ہوگا اگر عدالت کے فیصلے کو مان لیں۔ کسی کی زمین پر کسی غنڈے نے قبضہ کر رکھا ہو ،کسی کی جائداد غلطی سے کسی کے نام منتقل ہو گئی ہو، کسی کے قاتل کو پولیس گرفتار نہ کرتی ہو، کسی کو ڈرا یا دھمکایا جا رہا ہو، یہاں تک کہ ان کے اپنے بھائی بند سول سروس والے کی پروموشن نہ ہوتی ہو، اسے پوسٹنگ نہ ملتی ہو، اسے غلط معطل کیا گیا ہو، یہ سارے سول سروس کے اعلیٰ افسران، بڑی بڑی گاڑیوں اور عالی شان محل نما مکانوں میں رہنے والے ،کرسی گما کر، ٹیرھا منہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ یار میں بہت مجبور ہوں، میری نوکری کا مسئلہ ہے، میں کچھ نہیں کر سکتا، جائو عدالت سے ایک آرڈر لے آئو ، میری بھی جان چھوٹے اور تمہیں بھی انصاف ملے‘‘۔ یوں انہوں نے خلقِ خدا کو دھکے دے دے کر عدالتوں کے دروازے پر بھیجا۔ تیس سال سے وہ اس ملک کے مظلوموں، بے کسوں اور مجبوروں کو اپنے دفتروں سے دھکے دے کر عدالت کے دروازوں کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ انصاف تو انہوں نے دینا تھا اور عدالت کا کام تو یہ تھا کہ وہ دیکھے کہ کہیں انصاف دینے میں غلطی تو نہیں ہوئی۔ انہوں نے انصاف دینے سے انکار کر دیا اور اب جب عدالت نے ان کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا ہے تو یہ کہتے پھرتے ہیں، عدالت ہمیں کام نہیں کرنے دیتی، عدالت اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے۔ یہاں بھی سیاست دانوں کو عدالت کے فیصلوں سے کنی کترانے ، جھانسہ دینے، ٹالنے اور مہلت طلب کرنے جیسے سارے راستے یہی افسران دکھاتے ہیں۔ عدالت کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ ہم پر سیاسی دبائو ہے، ہم اس لیے کچھ نہیں کر سکتے اور سیاست دانوں کے سامنے یہ کہتے ہیں ہم پر عدالتی دبائو ہے، ہم کیا کریں۔ کس بلا کے لوگ ہیں یہ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں