"OMC" (space) message & send to 7575

دوغلاپن

کم از کم گذشتہ پانچ سالوں سے ہمارے میڈیا کا پسندیدہ موضوع یہ ہے کہ ہم سب دہشت گردی یا دہشت گردوں کے خلاف متحد کیوں نہیں ہو جاتے۔ ان پانچ سالوں سے قبل کئی سال یہ لوگ چوبیس گھنٹے قوم کو درس دیتے رہے کہ ٹھیک ہے‘ پہلے یہ امریکہ کی جنگ تھی، ہم نے ایک ٹیلیفون کال پر سر تسلیم خم کر لیا، لیکن اب تو یہ ہماری جنگ ہے۔ ہمارے جوان مر رہے ہیں، ہمارے شہر دھماکوں کی زد میں ہیں، ہمارا امن تباہ ہو گیا۔ چنانچہ مرنے والوں کی گنتی شروع کی گئی اور پھر ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر ہر نئے حملے کے بعد ان تمام واقعات کی تاریخ دہرائی جانے لگی۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان تمام ٹی وی پروگراموں میں سیاسی رہنمائوں کو بلایا جاتا رہا اور ان لوگوں کو بار بار مجبور کیا جاتا رہا کہ تم اس جنگ میں ایک موقف اختیار کیوں نہیں کرتے۔ مجھے ان تمام ’’سادہ لوح‘‘ اینکر پرسنز پر ترس آتا ہے جو سیاست دانوں سے اس کی توقع رکھتے ہیں۔ ایسے سیاست دان جو اگر جمعہ کے دن ایک پارٹی کے دفاع میں دھواں دھار گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو پارٹی بدلنے پر ہفتے کی شام اسی پارٹی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے نہ انہیں کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ان کے ماتھے پر پسینہ آتا ہے۔ دانشور، اینکرپرسن، کالم نگار اور معزز لکھاری یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سیاست دان دہشت گردی کے خلاف متحد ہو جائیں تو پوری قوم بھیڑ بکریوں کی طرح ان کے پیچھے چلنے لگے گی۔ ترکیب تو آسان ہے لیکن انہیں اتنا اندازہ نہیں کہ ہمارے سیاستدان عوام کا موڈ دیکھ کر بیان بدلتے رہتے ہیں۔ جلسوں میں امریکہ کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور اندرون خانہ اس سے مراسم اور وعدے وعید کرتے ہیں۔ بظاہر بھارت سے جنگ اور ملک کو ناقابل تسخیر طاقت بنانے کی بات کرتے ہوئے مکیّ لہراتے ہیں اور درپردہ اس سے کاروباری تعلقات استوار کرنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے اور میڈیا کے روبرو امن، رواداری ، برداشت اور ایک دوسرے کی زبان، نسل اور رنگ کے احترام کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے زیر سایہ پلنے والے اسلحہ برداروں کو مخالفین کے قتل، اغوا اور بوری بند لاشیں پھینکنے کا حکم صادر کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر ایک نکتے پر جمع ہوبھی جائیں تو کیا قوم ان کے ساتھ ہو گی؟ اس سوال کے تناظر میں دیکھیے کہ کیا قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے؟ کیا وہ ان کارروائیوں کو دہشت گردی سمجھتی ہے؟ کیا وہ اسے اپنی جنگ تصور کرتی ہے؟ صرف چند لمحے قوم کے مجموعی رویے پر غور کریں تو جواب مل جائے گا۔ اگر کوئی قوم خود کو حالتِ جنگ میں محسوس کر لیتی ہے تو پھر اس کا روّیہ بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔ اس کی محبتوں اور نفرتوں کے محور اور مرکز بدل جاتے ہیں۔ وہ نفرت کرنے والوں سے چوکس اور ہوشیار ہو جاتی ہے۔ جو کوئی اس کے دشمنوں سے لڑ رہا ہوتا ہے‘ اس سے شدید محبت اور عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔ گذشتہ دس سالوں میں ہزاروں جوان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے میدان میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کیا اس قوم نے ان سے اسی عزت و احترام کا سلوک کیا جو جنگ کے شہدا کے ساتھ کیا جاتا ہے؟ ان کے جنازے صرف ان کے لواحقین ، قصبے کے لوگوں یا ان کے ساتھیوں نے پڑھے ۔ کیا خلقت امڈکر ان کے جنازوں میںاس جوش سے آئی کہ یہ شخص ہماری جنگ لڑتا ہوا مارگیا تھا؟ میڈیا نے انہیں شہید کہا لیکن کیا اس قوم کی زبان پر ان لوگوں کے لیے شہید کا لفظ استعمال ہوا؟ جنگ وہی ہوتی ہے جسے قوم ایک جنگ سمجھے اور سپاہ قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے جنگ لڑے۔ ایسا دنیا میں کبھی نہیں ہوا کہ ایک جنگ چند پالیسی سازوں ، دانشوروں اورعالمی طاقتوں کے کہنے پر لڑی گئی ہواور قوم نے اسے اپنی جنگ تصور کر لیا ہو۔ ایسا تو امریکہ ویت نام کی جنگ میں بھی نہیں کر سکا۔ اس جنگ میں ساٹھ ہزار امریکی فوجی مارے گئے لیکن کسی ایک کے نام کو بھی کوئی نہیں جانتا‘ لیکن مشہور باکسر محمد علی کلے آج بھی ان کا ہیرو ہے جس نے اس جنگ میں زبردستی بھرتی ہونے سے انکار کیا اور جیل کاٹی تھی۔ قوم اس جنگ کو اپنی جنگ کیوں نہیں سمجھ رہی‘ یہ اس کے لیے متحد کیوں نہیں ہو رہی؟ اس کی بنیادی وجہ ہماری سیاسی قیادت اور اس ملک کے اکثر دانشوروں کا دو غلا پن ہے۔ یوں تو دنیا آج تک دہشت گردی کی ایک جامع تعریف نہیں کر سکی، لیکن پھر بھی ہم دہشت گردوں کو ان کے افعال اور جرائم سے پہچانتے ہیں۔ پاکستان میں یہ چار بنیادی جرائم کرتے ہیں جن کی وجہ سے انہیں دہشت گرد کا لقب دیا جاتا ہے۔ اول: دھماکے کر کے معصوم جانوں کا ضیاع، دوم: لوگوں کو شناخت کر کے انہیں قتل کرنا، سوم: تاوان کے لیے اغوا کرنا اور چہارم: سکیورٹی فورسز پر حملے کرنا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو کوئی بھی ان چار چیزوں کا ارتکاب کرے وہ ایک آدمی ہو، گروہ ہو یا کوئی سیاسی گروپ‘ اسے دہشت گرو قرار دے دیا جائے۔ اس قوم کو بے سمت کرنے، بے یقینی پید اکرنے اور تقسیم کرنے کے لیے سیاسی قیادتوں، دانشوروں، اینکر پرسنز اور کالم نگاروں کے دوغلے پن کا اتنا بڑا ہاتھ ہے کہ آج ہم سب اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ لوگوں کو شناخت کر کے قتل کرنے کا پہلا و اقعہ بلوچستان کے پیرغائب میں ہوا جب بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پکنک مناتے ہوئے ملازمین میں سے پنجابیوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا۔ کراچی میں پگڑی، نسوار ، اجرک، پینٹ قمیض، چائے خانہ ، پان وغیرہ کی علامتوں کو دیکھ کر لوگوں کو چن چن کر شناخت کر کے قتل کیا جاتا ہے۔ کون سا ایسا گروہ ہے جس نے سکیورٹی فورسز پر حملے نہ کیے ہوں، گھات لگا کر انہیں قتل نہ کیا ہو۔ کراچی میں تو ایسا ہوا کہ سکیورٹی فورسز کے وہ ارکان جو کسی بھی آپریشن میں شریک ہوئے، حالات نارمل ہونے کے بعد انہیں چن چن کر قتل کیا گیا۔ یہی معاملہ بلوچستان کا ہے۔ کیا ہم نے آج تک شناخت کر کے قتل کرنے ، دھماکے کرنے، اغوا برائے تاوان اور سکیورٹی فورسز پر حملے کی وجہ سے کسی بلوچ کو ، پشتون کو ، اُردو بولنے والے، سندھی یا پنجابی قوم پرست گروہ کو دہشت گرد کہا؟ ہم انہیں ناراض بلوچ کہتے ہیں، اپنے حق کے لیے لڑنے والے کو مہاجر کا لقب دیتے ہیں، سندھ دھرتی کے تحفظ میں جان لٹانے والے کو جانثار کہتے ہیں۔ یہ دوغلاپن ہے جو گذشتہ دس سال سے اس قوم کو بے سمت کر رہا ہے۔ انہیں مکمل یقین ہے کہ یہ سب جو الفاظ بول رہے ہیں یہ ان کے منہ میں کوئی اور ڈال رہا ہے یا پھر ان کا تعصب انہیں مجبور کر رہا ہے۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ یہ سارے اہل دانش وہ ہیں جو بیس سال پہلے امریکہ کو گالیاں دیتے تھے اور اسے سامراج کا سرغنہ کہتے تھے، لیکن روس کی شکست کے بعد ان کے قبلے کیسے بدلے اور یہ امریکہ کے ہمنوا ہو گئے۔ وہ اس بات کا ادراک بھی رکھتے ہیں کہ کل اگر عالمی طاقتوں کا رویہ اور محبت کا مرکز بدلا تو سیاسی قیادت اور یہ سب دانش ور اس نئی محبت کے گرویدہ ہو جائیں گے۔ ایسے رنگ بدلنے والے بے وفا مجبوروں سے کوئی قوم نہ محبت کرتی ہے اور نہ ہی ان کے کہنے پر نفرت اور محبت کے معیار بدلتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں