"OMC" (space) message & send to 7575

’’لُچ‘‘

ہم نے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں صرف ایک ہی فصل کاشت کی ہے اور وہ ہے ’’ماہرین‘‘ کی فصل۔ میڈیا کی آزادی اور چوبیس گھنٹے اس کا پیٹ بھرنے کی مجبوری نے اس کو اس تیزی سے پروان چڑھایا ہے کہ اب اس ملک میں صرف ماہرین اور تجزیہ کار ہی نظرآتے ہیں۔ دفاعی، سیاسی، معاشی، معاشرتی ، خاندانی ، نفسیاتی ، قانونی سمیت زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے ماہرین اور تجزیہ کار اپنا ’’وقیع‘‘ علم اور ’’وسیع‘‘ تجربہ لیے ٹیلی ویژن سکرین پر جلوہ گر نہ ہوتے ہوں یا ان کے ’’ارشادات عالیہ‘‘ سے اخبارات کے صفحے رنگین نہ ہورہے ہوں۔ آکاش بیل ہمارے ادب اور یادش بخیر اردو زبان کے محاورے کا حصہ ہوتی تھی۔ یہ ایک ایسی بیل ہوتی ہے جو درخت کی جڑوں میں اگتی ہے ، زمین سے سارا پانی خود چوس لیتی ہے اور درخت کے اردگرد لپٹی ہوئی اسے مکمل طورپر گھیر لیتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ معلوم نہیں پڑتا کہ اس بیل کے اندر درخت کیکر کا ہے یا شیشم کا ۔ لیکن اس درخت کے ساتھ ایک المیہ ہوجاتا ہے کہ اگر بیل کاٹ بھی دی جائے تو اندر سے درخت اس قدر کھوکھلا ہوچکا ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد دھڑام سے زمین بوس ہوجاتا ہی۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اس طرح کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کی آکاش بیل نظر نہیں آتی۔ دنیا کے ہرترقی یافتہ ملک میں ہر معاملے اور ہرشعبۂ زندگی پر تحقیق اور تجزیہ کے لیے اہم ترین اور شاندار تعلیم یافتہ ماہرین کے ادارے سرکاری اور نجی شعبے میں قائم ہوتے ہیں۔ یہ ادارے اپنے علمی ماہرین کی استعداد اور تجربے کی بنیاد پر اپنی ساکھ بناتے ہیں۔ اپنے مخصوص شعبوں کے حوالے سے ان کی تحقیقی رپورٹوں کی بنیاد پر ان کی ایک علمی حیثیت مسلم ہوجاتی ہے۔ ان اداروں کو تھنک ٹینک کہا جاتا ہے۔ ایسے تھنک ٹینک حکومتی اداروں میں بھی قائم ہوتے ہیں اور وہ ان اداروں کے لیے مستقل بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے رپورٹیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ نجی شعبے میں قائم تھنک ٹینک بھی مستقل طورپر ہرنئی صورت حال پر اپنے بہترین دماغوں کو کام پر لگائے رہتے ہیں۔ انہیں حکومتی ادارے بھی کسی مسئلہ پر رہنمائی کے لیے درخواست کرتے ہیں اور فنڈزبھی فراہم کرتے ہیں۔ اسی لیے آپ دنیا کے کسی بھی بڑے اخبار یا سنجیدہ ٹیلی ویژن چینل پر کسی ایسے شخص کو دفاعی، سیاسی، معاشی اور سکیورٹی ماہر کے طورپر جلوہ گر نہیں دیکھیں گے جس کی علمی حیثیت مسلم اور تجربہ ماضی اور حال دونوں کا آئینہ دار نہ ہو۔ ادھر ہمارے ہاں گزشتہ دس پندرہ برسوں میں جن ماہرین کی چکا چوند سے میڈیا جگمگا رہا ہے وہ دوقسم کے ہیں۔ ایک وہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ جن کی پوری زندگی حکم کی تعمیل اور نوکری بچانے کی جدوجہد میں گزری ہوتی ہے۔ ان کا تجربہ بھی پندرہ بیس سال پرانا ہوتا ہے۔ یہ سب کے سب تازہ ترین صورت حال سے اجنبی ہوتے ہیں اور بس ایک فقرہ دہراتے نظر آتے ہیں ’’ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا‘‘ ماضی کے یہ پرستار ہماری سکرین میں رنگ بھرتے ہیں اور ہمارے اخبارات کے صفحات پر جگمگاتے ہیں۔ دوسرے وہ ماہرین اور تجزیہ کار ہیں جنہیں میڈیا کی آزادی اور چوبیس گھنٹے کی بھوک نے ’’عظیم اور سینئر‘‘ تجزیہ کار بنادیا ہے۔ ان کا حال نوے کی دہائی کے پرائیویٹ ڈراموں کے طوفان کی طرح ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے اس پورے خطے پر چھائے ہوتے تھے۔ پھر ایک دو نجی چینل میدان میں آئے، پرائیویٹ پروڈکشن شروع ہوئی، جوشخص حجام کی دکان پر بیٹھ کر کہانیاں سنایا کرتا تھا وہ ڈرامہ نگار بن گیا اور شادی کی تقریبات پر ویڈیو بنانے والے ہدایت کار ہو گئے۔ اس کے بعد اس ملک کے ڈراموں پر ایسا زوال آیا کہ آج ان کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔ پاکستان کے پھلتے پھولتے اور نوزائیدہ میڈیا نے بھی یہی حشر اس ملک کے سنجیدہ ترین مسائل کے ساتھ کیا۔ صبح سویرے اخبارات دیکھ کر ایک پروڈیوسر ایک موضوع منتخب کرتاہے ،چاروں جانب لوگوں کو فون کرتا ہے، کچھ سیاسی رہنمائوں ، کالم نگاروں اور ریٹائرڈ افسران میں جو ہتھے چڑھ جاتاہے اس کو بلالیا جاتاہے۔ ہیرو یعنی اینکر پرسن تشریف لاتاہے یا لاتی ہے ، پہلے میک اپ روم میں آدھا گھنٹہ تزئین وآرائش چلتی ہے، نئے نئے فیشن کے کپڑے منتخب ہوتے ہیں، چند منٹ قبل کیمرے کے سامنے آتاہے، سامنے پڑے ہوئے چند کاغذات پر طائرانہ نظر ڈالتا ہے اور پھر کہتا ہے ’’چلیں جی شروع کریں ‘‘ اور پھر پروگرام کے دوران اس کے کان میں پروڈیوسر کی آوازیں آنا شروع ہوجاتیں ہیں ۔’’سر اٹھائیں نہ پروگرام ‘لڑائیں ان کو‘ پروگرام بیٹھ گیا ہے ‘‘۔ ایسے لوگوں کو خاص طورپر مدعو کیا جاتا ہے جن کی گفتگو میں ماحول میں ایک گرمی پیدا ہواور اینکر کو وقت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بیچ لڑائی میں دیکھنے والوں سے رخصت لینا پڑے ۔ان دس پندرہ سالوں سے ’’ماہرین‘‘ نے اس قوم کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ امن عامہ کے ماہر ایسے تھے جنہوں نے ضابطہ فوجداری اور پولیس ایکٹ کی شکل تک نہ دیکھی تھی، افغانستان کے مسئلے اور طالبان کے ماہرین ایسے کہ نہ وہ وہاں کبھی گئے تھے اور نہ انہیں ان کی کوئی زبان آتی تھی۔ معاشی تجزیہ نگاروں کا علم معاشیات کی نصابی کتب تک محدود تھا اور انہیں اس ملک کی عام سی بجٹ تیاری کا بھی علم نہ تھا۔ کچھ ایسے بھی ’’عظیم‘‘ ماہرین تھے جو صبح انٹرنیٹ پر دنیا کے میڈیا میں چھپنے والے تجزیوں کو پڑھتے اور پھر بغیر کسی تحقیق کے اس پر شعلہ فشانی کرتے۔ میڈیا پر جلوہ گر ان ماہرین نے نہ صرف اس قوم کو یرغمال بنایا بلکہ سیاسی قیادت جو خودعلم اور تجربے سے محروم تھی اس نے بھی اپنی استعداد بڑھانے کے لیے پہلے ان سے خفیہ مشورے شروع کیے اور پھر ان کے سامنے میٹنگوں میں اپنی پوری بیوروکریسی کو طالب علم کی طرح لا بٹھایا، بلکہ اکثر تو انہیں مجرم کی طرح پیش کیا۔ اس کا بدترین مظاہرہ لال مسجد کے سانحے میں ہوا۔ ہرکوئی ایک سکیورٹی ایکسپرٹ تھا، ہر کوئی مشورے دے رہا تھا، میں اس وقت ایران میں تھا اور ایران کے ٹی وی چینل پر مرحوم عبدالرشید غازی کی شاید وہ آخری گفتگو تھی کہ میں تو کسی وقت اللہ کے پاس جا پہنچوں گا لیکن اس ملک میں جو بیج آپ بورہے ہیں اس سے صرف خودکش بمبار ہی نکلیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ 2007ء جولائی سے پہلے اس ملک میں خودکش حملے نہیں ہوتے تھے۔ روس میں جب باسلان کا واقعہ ہوا اور ڈھائی سو کے قریب عورتیں اور بچے ایک سکول میں مارے گئے تو جہاں روس کے صدر پیوٹن نے اسلحہ چلانے کے شوقین افسران کو قانون کی گرفت میں دیا وہاں ’’ازویسٹا‘‘اخبار کے ایڈیٹرزیف شاکروف سے پوری صحافتی برادری نے استعفے لے کراسے صحافت بدر کردیا کہ اس شخص کی تحریروں اورگفتگو کی وجہ سے اس ملک کے معصوم لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔ یہ جاہل شخص کچھ نہیں جانتا تھا لیکن یہ عوام اور حکومت دونوں کے جذبات سے کھیل رہا تھا۔ ہمارے ان ’’عظیم ماہرین‘‘ کے ’’جلال‘‘ اور تجزیہ نگاری کا نتیجہ یہ ہے کہ جو کام ایک ایس ایچ اوکو کرنا ہوتا ہے وہ وزیر داخلہ کے ذمے آجاتا ہے اور بیس چینلوں پر بیٹھے یہ اینکر پرسن ہرطرح کے مشوروں سے نوازرہے ہوتے ہیں: ’’کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتا‘ یرغما ل بنایا ہوا ہے، ملک کی بدنامی ہورہی ہے‘‘۔ ایسے شخص کا فون پر بیس منٹ طویل خطاب نشر ہوتا ہے‘ اسے مذاکرات کی پیشکش کی جاتی ہے۔ ایسے میں اس پوری قوم، انتظامیہ اور ہراس شخص کے اعصاب شل کردیے جاتے ہیں جو ان ماہرین کے مشورے سن رہاہوتا ہے۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ صرف ایک زمرد خان اس ہیجان سے تنگ آکر باہر نکلا۔ اگر سوڈیڑھ سو زمرد نکل آتے تو کیا ہوتا۔ دنیا بھر میں ایسے واقعات کی ہیلی کاپٹر کے ذریعے لائیو کوریج ہوتی ہے لیکن وہاں کوئی تجزیہ نگار اور ماہر اپنے مشوروں کا ’’لُچ‘‘ نہیں تلتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں