وہ امریکی ریاست ٹیکساس کا دارالحکومت آسٹن تھا۔ انتہائی خوبصورت اور پُرسکون۔ پورا شہریونیورسٹی کے گرد آباد۔ میں 1996ء کی جولائی میں اس شہر میں تھا۔ یہ زمانہ وہ تھا جب عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں پھانسی کی سزا کے خلاف بڑی سرگرمی سے تحریک چلا رہی تھیں اور ٹیکساس کی ریاست اور عوام دونوں اس کے شدید مخالف تھے۔ وہاں کی مقامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے اجلاسوں میں جہاں مجھے بدترین قاتلوں کے پھانسی کی سزا پانے کے بعد انٹرویو سننے کو ملے اور ان کے ارکان انسانیت کے نام پر واویلا کرتے نظر آئے کہ پھانسی کی سزا کس قدر ظالمانہ اور سفاکانہ سزا ہے‘ وہیں میں نے ایک ایسے رفاہی ادارے میں بھی چند گھنٹے گزارے جہاں دس سال سے کم عمر کی ایسی بچیاں رکھی گئی تھیں جنہیں جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا تھا۔ یوں تو ان میں اکثریت ان بچیوں کی تھی جنہیں ان کے سگے اور محرم رشتے داروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا‘ لیکن چند ایک اوباشوں اور غنڈوں کی ہوس کا بھی شکار ہوئی تھیں۔ مجھے اس عمارت کے دروازے پر تلاشی کے لیے روک لیا گیا۔اس وقت تک امریکہ میں گیارہ ستمبر کا سانحہ نہیں ہوا تھا‘ اس لیے مجھے بہت عجیب لگا۔ تلاشی لینے والے نے پوچھا آپ کے پاس کوئی کیمرہ یا ٹیپ ریکارڈر وغیرہ تو نہیں ہے۔ میرے پاس دونوں چیزیں موجود تھیں جو رکھوا لی گئیں۔ ان بچیوں سے ملاقات بہت اذیت ناک تجربہ تھا۔ مجھے خاص طور پر ہدایات دی گئیں کہ میں ان سے کوئی ایسا سوال نہ کروں جو اس واقعے کی جانب اشارہ بھی کرتا ہو بلکہ میں ان کے ساتھ زیادہ رحم اور پیار کا اظہار بھی نہ کروں کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ اُس واقعے کی وجہ سے ان پر ترس کھایا جا رہا ہے۔ میں نے انتظامیہ سے ان بچیوں کی رودادیں (Case histories) مانگیں تو پتہ چلا کہ ان میں ان کے نام‘ مقام اور شناخت کی سب علامتیں بدل کر رودادیں مرتب کی گئی تھیں۔ یہ ہے اس معاشرے کی احتیاط جہاں پر دو منٹ بعد ایک عورت جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے اور جس معاشرے میں اب عفت و عصمت اور جسمانی وفاداری کے تمام اصول ہی بدل گئے ہیں‘ لیکن اس سب کے باوجود اس بچی کے المیے‘ اس کے ساتھ وابستہ معاشرتی رویے اور اس کی نفسیاتی صحت کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ اسے میڈیا کے خونخوار کیمروں اور قلم کی بھیانک تلوار سے بچایا جائے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں اس طرح کے المیے رونما ہوتے ہیں اور پوری دنیا کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں… ایک وہ جو ایک مخصوص بیماری‘ جسے نفسیات دان پیڈوفیلیا (Paedophilia) کہتے ہیں‘ کا شکار ہوتے ہیں اور دوسرے وہ منتقم مزاج افراد جو کسی سے دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے اس کی اولاد کے ساتھ ایسا رویہ رکھتے ہیں اور پھر اس تاک میں رہتے ہیں کہ موقع ملے اور وہ اپنا انتقام لے لیں۔ یہ دونوں طرح کے افراد اپنے مخصوص خاندانی حالات‘ مضطرب اور محروم بچپن اور سب سے زیادہ اخلاقی تعلیم و تربیت کے فقدان سے جنم لیتے ہیں۔ پوری دنیا ایسے افراد کے اس کریہہ اور ظالمانہ رویے پر مستقل تحقیق کر رہی ہے اور اس کے علاج کے طرح طرح کے طریقے دریافت ہو رہے ہیں۔ کتنا بھی آزاد معاشرہ ہو‘ بچوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر ایک لمحے کو ہل کر رہ جاتا ہے‘ سناٹے میں آ جاتا ہے اور غور کرنے لگتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ جہاں وہ اس شخص کے خاندانی‘ معاشی اور معاشرتی حالات کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے‘ وہیں 1996ء میں عالمی سطح پر یہ لوگ ایک قانون منظور کرنے پر مجبور ہوئے کہ بچوں کی فحش فلمیں اس جرم کی معاشرتی سطح پر اضافے کا باعث بنتی ہیں اور پھر ان پر پابندی لگا دی گئی اور اس طرح قانونی اور غیرقانونی فحش فلموں کا تصور سامنے آیا۔ اگرچہ روس، مشرقی یورپ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے بہت سے ممالک میں بچوں کی فحش فلموں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے‘ اس کے باوجود اور آزاد میڈیا ہونے کے باوصف وہ اقوام ایسے معاملات کو انتہائی احتیاط کے ساتھ لیتی ہیں۔ کسی ٹیلی ویژن پروگرام پر کوئی ایرا غیرا ان معاملات پر تبصرہ کرنے نہیں بیٹھتا‘ بلکہ انتہائی سنجیدہ اور اعلیٰ سطح کے ماہرین بلائے جاتے ہیں۔ کسی مظلوم لڑکی یا لڑکے کو یا پھر اس کے گھر والوں کو تماشا نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی کوئی صبح سے شام تک معاشرے کے لیے ’’لٹ جائے‘‘، ’’تباہ ہوجائے‘‘ اور قوم کے غرق ہونے اور برباد ہوجانے کا نوحہ پڑھتا ہے۔ دوسری جانب ہم ہیںجو تازہ تازہ میڈیا کی آزادی کے خمارمیں ہیں۔ ہر وہ شخص جو کیمرے کے سامنے بیٹھا ہے وہ مصلح بھی ہے، سیاسی دانشور بھی، نفسیات دان بھی اور سب سے بڑھ کر قوم کے درد میں ڈوبا غمخوار بھی۔ گاڑیوں پر نصب بڑی بڑی انٹینا ڈشیں، کندھوں پر کیمرے رکھے کیمرہ مین اور مائیک ہاتھ میں پکڑے رپورٹر‘ بھاگتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ پھر جو کوئی بھی ان کے ہتھے چڑھ جائے وہ تبصرہ نگار بن جاتا ہے۔ پروڈیوسر فون ملا رہے ہوتے ہیں کہ کوئی تو ملے تاکہ خبر میں جان آئے۔ ایسے میں گزشتہ دنوں ہر کسی نے اس مسئلے کی نشاندہی اور اس مرض کی تشخیص کی بجائے اپنے دل میں چھپا غصہ اور اپنے مخصوص ایجنڈے میں بھرے زہریلے تیر برسائے۔ خواتین کے حقوق کے ترجمانوں نے شور مچاتے ہوئے کہا‘ اس معاشرے میں عورت کے ساتھ ہمیشہ ظالمانہ سلوک ہوتا ہے۔ یہ مردوں کا معاشرہ ہے حالانکہ انہیں علم ہی نہیں کہ مرد بچے اس معاشرے میں جس قدر جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں بچیوں کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ محلے، سکول، کھیل کے میدان‘ وغیرہ ہر جگہ ذرا سا قبول صورت بچہ اس معاشرے میں خوف سے سہما رہتا ہے۔ جس کسی کو یہ ملک اور معاشرہ اچھا نہیں لگتا تھا‘ اس نے جی بھر کے اس ملک کے عوام کو بُرا بھلا کہا، کوئی بولا‘ ہمارے خمیر میں ہی نقص ہے۔ ان کو اندازہ تک نہیں کہ ایسے واقعات پر جو لاکھوں لوگ سوشل میڈیا پر منظم ہوجاتے ہیں اور ایسے مجرموں کے خلاف تحریک چلاتے ہیںآخر وہ بھی تواسی ملک اور اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ شاہ زیب کے بہیمانہ قتل پر کون سے لوگ تھے جنہوں نے طاقتوروں کا غرور خاک میں ملایا تھا، یہ اسی معاشرے کے ہی لوگ تھے۔ کچھ تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کو اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی ہوتی ہے۔ ایسا واقعہ ہوتا ہے تو ان کی بن آتی ہے۔ غصے میں کھولتے، منہ سے جھاگ نکالتے وہ ایک ہی گردان کرتے ہیں۔ یہ مسلمان ہیں، یہ ان کا اسلام ہے؟ یہ پوری قوم ہی منافق ہے لیکن انہیں اس بات کا کبھی ادراک نہیں ہوتا کہ وہ جس مہذب سیکولر معاشروں کے مدح سرا ہیں وہاں ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں لیکن اگر کوئی دانشور وہاں ان واقعات کو بہانہ بنا کر اس پورے معاشرے کو گالی دینے لگے تو اگلے دن اسے لوگ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں اور اسے دانشور کے بجائے ایک مخبوط الحواس شخص کہنے لگیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے۔ ہم اس ساری چسکے دار دوڑ میں کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک بچی ہے جس پر ظلم ہوا ہے۔ ایک خاندان ہے جو اس ظلم پر منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی تماشا نہیں بننا چاہتا۔ ایک مجرم ہے یا ایک بیمار ہے‘ اس کی بنیاد پر پورے معاشرے کو بیمار یا مجرم بنا دیا جائے‘ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا کبھی کسی نے سوچا، غور کیا کہ ہماری اخلاقیات کی بنیادیں کس نے ہلائیں؟ کون ہے جس نے آزادیٔ اظہار کے نام پر فحاشی کو عام کیا؟ اور کس فخر سے سینہ پھُلا کر کہا‘ ہم تو معاشرے کا گند دکھاتے ہیں۔ جن معاشروں کی مثالیں دیتے ہوئے ہمارے دانشور، ادیب اور صحافی تھکتے نہیں، وہاں احتیاط کا یہ عالم ہے کہ کوئی ایک جُرم پر معاشرے یا قوم کو گالی نہیں دیتا، کوئی اسے جینڈر ایشو نہیں بناتا، کوئی اس پر سیاست نہیں کھیلتا اور کوئی بریکنگ نیوز کی دوڑ میں مظلوم کی چیخیں اور گھر والوں کی ذلتوں کو تماشا نہیں بناتا۔