یہ کوئٹہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ یوں لگتا تھا سارے راستے ایوب سٹیڈیم کی طرف جارہے ہیں۔ نہ وہ کوئی سیاسی رہنماتھااور نہ مذہبی شخصیت ۔میں نے اسے ایک عام سے کھلنڈرے نوجوان کی حیثیت سے کئی بار جناح روڈ پر دیکھا تھا۔ لیکن اس کے جنازے کو کندھا دینے،اس کے تابوت کو تھامنے اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے میں ہر کوئی ایسے حصہ لے رہا تھا جیسے وہ ان کا کوئی قریبی عزیز ہو یا کوئی بہت ہی قابلِ احترام شخصیت۔ اسے4فروری1998ء کو امریکی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی تھی۔ابھی گیارہ ستمبر نہیں ہوا تھا لیکن امریکہ سے نفرت اس قوم کی رگوں میں بسی ہوئی تھی۔ سوائے چند مفاد پرست تجزیہ نگاروں کے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اس سزا کے خلاف نہ بولتا ہو، بلکہ لوگوں کی نفرت تو ان کے ساتھ بھی عیاں تھی۔ جنہوں نے اپنے وطن کے اس بیٹے کو امریکیوں کے ہاتھ فروخت کردیا تھا۔لیکن جب 14نومبر2002ء کو ورجینیا کی جیل میں اسے سزائے موت دی گئی تودنیا بہت بدل چکی تھی۔ امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوچکا تھا اور پرویز مشرف پاکستان کی سرزمین افغانستان میں مسلمان بھائیوں سے خون کی ہولی کھیلنے کی غرض سے استعمال کرنے کے لیے امریکہ کو دے چکا تھا۔ اس وقت تک پاکستان کے ہوائی اڈوں سے امریکی جہاز57ہزار دفعہ اڑ کر افغانستان پر حملے کر چکے تھے۔ امریکہ سے نفرت تھی جس نے ایمل کانسی کو ہیرو بنا دیا اور اسے ایک ایسا جنازہ نصیب ہوا جو اس شہر میں کسی اور کا مقدر نہ بن سکا۔ جو لوگ اس دن اس ملک میں واقعی ’’زندہ‘‘ تھے اور جن کا ضمیر گروی نہیں ہوا تھا، وہ آج بھی گواہی دیں گے کہ جس صبح اسے پھانسی دینے کی خبر نشر ہوئی تھی، پورے ملک میں موت کا سناٹا چھا گیا تھا۔ یہ ہے اس ملک کی زمینی حقیقت جسے ٹیڑھا منہ کر کے انگریزی بولنے والے دانشور ’’گرائونڈ ریلیٹی‘‘کہتے ہیں۔ یہی زمینی حقیقت ہے کہ گزشتہ بارہ سال سے متعدد ٹیلی ویژن چینل اور مخصوص سیاسی رہنما مسلسل چلاّتے رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے، لیکن یہ قوم ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتی۔اس قوم نے چالیس ہزار جانوں کا نذرانہ دیا، ہر شہر بے اطمینان اور بے سکون ہوگیا، خوف نے ہر بستی کا گھیرائو کرلیا لیکن پھر بھی کوئی اسے اپنی جنگ نہیں کہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں لوگ ، بلکہ ہزاروں سپاہی اور سکیورٹی فورسز کے افراد نے جانیں دیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی ایمل کانسی جیسی شہرت نہ ملی۔ ہم نے ان کے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا؟ ایک سپاہی بھی بھارت کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتا تھا تو لوگ پاگلوں کی طرح جنازہ پڑھنے کے لیے اُمڈ آتے تھے۔ آج بھی یہی کیفیت ہے۔ آج بھی بڑے سے بڑا لیڈراور عظیم سے عظیم دانشور اگر بھارت سے دوستی کی خواہش کرتا ہے اور خواب دیکھتا ہے تو اس خواہش کو سینے میں دبائے رکھتا ہے اور دبی زبان میںگفتگو کرتا ہے۔وہ اٹھارہ کروڑ عوام کے خوف سے سرِعام بھارت کو اپنا دوست نہیں کہہ سکتا۔ وہ لوگ جن کے آبائواجداد اور اسلاف کانگریس کے شانہ بشانہ لڑے تھے،وہ بھی یہ ہمت نہیں کرپاتے کہ دبے لفظوں میں ہی کہہ دیں کہ بھارت ہمارا دوست ہے۔ یہ ہوتی ہے ’’ہماری جنگ‘‘ اور یہ ہوتا ہے قوموں کا اجتماعی شعور۔ یہ اجتماعی شعور صدیو ں میں پروان چڑھتا ہے۔ یہی حال بھارت کا ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا اورمقبول ترین رہنمابھی بھارت کے عوام کے سامنے پاکستان کو اپنا دوست کہنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں مرنے والے فوجیوں کی ارتھیاںخاموشی سے جلا دی جاتی ہیں اور فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہونا صرف ان مرنے والوں کے حصے میں آتا ہے جو پاکستان کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ تازہ ترین کارگل جنگ میں مرنے والوں کی ارتھیوں کا ہجوم دیکھنے کے قابل تھا۔ یہ ہوتا ہے کسی قوم کا کسی جنگ کو دل و جان سے تسلیم کرنا اور اسے اپنی جنگ سمجھنا ۔ روز نیا حادثہ ہوتا ہے،روز لاشوںکو دفن کرتے ہیں، روز گھر اُجڑتے ہیں اور شام کو اس ملک کے 80کے قریب ٹی وی چینلز پر بیٹھے اس ملک کے عظیم، نابغۂ روزگاراوربزعم خود ماہرینِ امن عامہ ہر مہمان سے ایک ہی سوال کرتے ہیں’’بتائو کیا یہ اب بھی ہماری جنگ نہیں ہے؟‘‘ پھر پورے زور سے اپنا نقطۂ نظر ٹھونستے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اگر اب بھی یہ ہماری جنگ نہیں تو پھر کب ہوگی؟‘‘ ان اینکر پرسنوں کا غصہ سیاسی قیادت پر دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ بزدل ہیں۔ یہ عوام کو کیوں اس جنگ کے لیے تیار نہیں کرتے۔ یہ مفادزدہ ہیں۔ ان کی سیاسی مصلحتیں ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں کہ سیاسی لیڈروں کو عوام میں رہنا ،جینا اور مرنا ہوتا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ یہ قوم امریکہ سے کتنی نفرت کرتی ہے اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ اس قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ جنگ کب‘ کیوں اور کیسے شروع ہوئی۔ اس لیے یہ سیاسی رہنما ان اینکر پرسنوںاور دانشوروں کے جھانسے میں نہیں آتے۔ جب ان کے چنگل میں سیاسی لیڈر بھی نہیں آتے تو ان کا غصہ سکیورٹی فورسز پر نکلتا ہے۔ بہت سے دانشور دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتے ہیں’’انہوں نے جنگ پورے دل کے ساتھ لڑی ہی نہیں‘‘یہ اندر سے طالبان کی مدد کرتے ہیں۔ کیسی کیسی تجزیہ نگاریاں اور شعلہ بیانیاں ہوتی ہیں اور پھر گفتگو کا رخ اس طرف موڑ دیا جاتا ہے کہ ہم اس قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہی نہیں کرپاتے۔یہ سیاسی رہنما ،یہ مذہبی لیڈر ،یہ فوجی جرنیل سب کے سب ایک نقطے پر اکٹھے ہو کر قوم کو ان دہشت گردوں کے خلاف کھڑا کیوں نہیںکرتے۔ لیکن گزشتہ بارہ سالوں سے عوامی رویے کا اندازہ کوئی نہیں کرتا۔ ان دانشوروں کی باتوں سے یوں لگتا ہے اس پورے ملک کی سیاسی قیادت ، مذہبی رہنما اور فوجی جرنیل جاہل اور ان پڑھ ہیں، انہیں نہ سیاست کرنا آتی ہے اور نہ ہی جنگ لڑنا۔ان کے مقابلے میں یہ مٹھی بھردانشور ، سیاست بھی کرنا جانتے ہیں،حکومت بھی ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور دہشت گردوں پر تو یہ چٹکی بجا کر قابو پا سکتے ہیں۔یہ ہیں وہ لوگ جو پوری قوم سے مختلف ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے خوف سے نہ سیاسی لیڈر کھل کر بولتا ہے اور نہ مذہبی رہنما۔ لیکن گذشتہ ایک ماہ سے جب پوری سیاسی قیادت، مذہبی سیادت اور فوج کے رہنما اکٹھے ہوئے، انہوں نے ایک سوچ پیدا کی۔ ان کو زمینی حقائق یا’’گرائونڈ ریلیٹی‘‘ کااندازہ ہوا اور ان کو اس بات کا بھی ادراک ہوا کہ یہ جنگ ہم پر اس لیے مسلّط کی گئی تھی کہ ہم مستقل لہولہان ہوتے رہیں۔ اس جنگ کے کتنے ایسے اداکار ہیں جو سامنے ہیں اور کتنے ہی پس پردہ۔ صرف لڑنے والے کو پتہ ہوتاہے کہ سازش کہاں سے ہورہی ہے۔ میدانِ جنگ میں اُترنے والوں کو معلوم پڑتا ہے کہ کون کس کے تیروں سے وار کررہا ہے۔ ایسے میں سب کے سب مذاکرات پر متفق ہوگئے ہیں۔ جیسے ہی یہ لمحہ آیا۔ اس کے بعد یہ کسی دہشت گردی یا کسی سانحے کے انتظار میں تھے تو ان دانشوروں کو سانپ سونگھ گیا۔ پھر جیسے ہی کوئی سانحہ ہوا انہوں نے اپنے تیرترکش سے نکال لیے۔’’ان لوگوں سے مذاکرات کرتے ہو جو لوگوں کو مذاکرات شروع ہونے کے بعد بھی خون میں نہلاتے ہیں؟ ایکشن کرو‘‘ یہ ایکشن گزشتہ بارہ سال سے ہورہا ہے۔ دونوں طرف لاشوں کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔لیکن ان عظیم دانشوروں،اینکرپرسنوں اور تجزیہ نگاروں کی پیاس ہی ختم نہیں ہوتی۔ مرغے لڑانے والے اگر دیکھتے ہیں کہ مرغے ذرا تھک گئے ہیں تو انہیں گود میں لے کر اچکاتے ہیں اور تیار کر کے واپس میدان میں اتارتے ہیں۔ انہیں امن راس نہیں آسکتا۔ سوچیے امن کے عالم میں کیا ہوگا؟نہ بریکنگ نیوز،نہ لائیو کوریج،نہ چیختے چنگھاڑتے ٹاک شوز۔ یہ ملک تو قبرستان بن جائے گا۔