گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تعلیمی تخریب نے مملکتِ خداداد پاکستان میں جس طرح کے نابغۂ روزگار ماہرینِ تعلیم اور ماہرین اقتصادیات و معاشرت کے ٹولے کو جنم دیا ہے اس نے ملک کے سیاسی رہنمائوں اور دیگر بڑوں کو اپنا اسیر کر رکھا ہے۔ مجھے یہی خطرہ عمران خان کے بارے میں تھا‘ لیکن ایک امید بھی تھی کہ اسی برصغیر سے ایک فرد علامہ اقبال یورپ کی وادیوں میں علم کے حصول کے لیے گئے لیکن جب واپس لوٹے تو مغربی تہذیب اور اس کی طرز تعلیم کے سب سے بڑے ناقد بن گئے۔ پوری مسلم دنیا میں جس سطح پرعلامہ اقبال نے مغربی تہذیب اور تعلیمی و اقتصادی نظام کا علمی لحاظ سے بطلان کیا اور اپنی دلیل سے جس طرح اس کا ردّ کیا‘ کسی عالم دین، سیاست دان یا دانشور کو نصیب نہ ہو سکا۔ عمران خان تو اقبال کو اپنا مرشد مانتے تھے اور شاید اب بھی مانتے ہیں۔ وہ مغرب سے بھی مرعوب نہیں‘ لیکن پھر بھی انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایسا فیصلہ تو دنیا میں بسنے والی جاہل، گنوار اور پسماندہ ترین قوموں نے بھی نہ کیا ہوگا۔ عمران خان کے اردگرد موجود کن لوگوں نے اس فیصلے کی راہ ہموار کی اور اس کے فوائد گنوائے۔ ان لوگوں پر بات کرنے سے پہلے ایک حقیقت بتاتا چلوں جس کا جواب عمران خان صاحب کے بڑے سے بڑے تعلیمی ماہر کے پاس بھی نہ ہو گا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی پانچ ہزار سال کی تاریخ مرتب ہوئی ہے۔ اس سے پہلے والا ماقبلِ تاریخ کا زمانہ کہلاتا ہے۔ ان پانچ ہزار برسوں میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور پھر ترقی بھی کی ہو۔ دو ملکوں نے یہ بے وقوفانہ حرکت کی‘ ایک تھا سنگا پور اور دوسرا کسی حد تک بھارت۔ سنگاپورتو گزشتہ پانچ برس سے سر پکڑ کر بیٹھا ہے کہ کس طرح ہم واپس اپنی زبان کی طرف لوٹ سکتے ہیں‘ کیونکہ ایک نقال قوم بن کر رہ گئے ہیں اور ہماری تخلیقی صلاحیت مردہ ہوگئی ہے۔ ادھر بھارت نے جس مخصوص(Elite)کلاس کو جنم دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر سال22 کروڑ بچے سکولوں میں داخل ہوتے ہیں لیکن 40لاکھ سے بھی کم گریجوایٹ بن کر باہر نکلتے ہیں۔ یہ چند لاکھ بھی عالمی منڈی کے لیے سجا سجایا مال ہوتے ہیں۔ ان کی طرح سوچنے، خواب دیکھنے اور انہی کی طرح کے لائف سٹائل اپنانے والے۔ پاکستان کے تمام سیاسی لیڈروں کے اردگرد منڈلانے والے دانشور اور ماہرین تعلیم و اقتصاد بھی ایسے ہی ہیں۔ اسی طرح کے لوگوں نے عمران خان کو بھی گھیررکھا ہے۔یہ لوگ سکول میںآنکھ کھولتے ہیں تو کتابوں،نرسری کی نظموں،کو مکس، کارٹون اور کہانیوں میں جس زندگی کو اپنے ذہنوں پر نقش کرتے ہیں‘ وہ گلگت سے لے کر گوادر تک اس پاکستان میں کہیں نہیں ملتی۔ یہاں نہ کوئی سنڈریلا ہے اور نہ سنووائٹ ، نہ لٹل مرمیڈ ہے اور نہ سانتاکلاز۔ ان کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں بنی تصاویر میں جو لباس ہے وہ یہاں کہیں نظر نہیں آتا۔ جو ان کی خاندانی اخلاقیات ہیں ان کا یہاں نام و نشان نہیں ملتا۔ یوں نرسری سے ہائی سکول یعنی اولیول تک ان لوگوں کے دماغوں میں خوابوں کا ایک جہان اور پریوں کا دیس بس جاتا ہے۔ دماغ کے پردے پر بنی ہوئی اس زمانے کی تصویریں انتہائی گہری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان عظیم مفکروں، دانشوروں اور تعلیمی ماہرین کواے لیول کے بعد جب بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کاموقع ملتاہے تو وہاں پہنچتے ہی انہیں یوں لگتا ہے جیسے وہ خوابوں کے اس دیس میں آگئے ہیں جسے انہوں نے نرسری،پرائمری اور اولیول کے زمانے میں اپنی درسی کتب میں پڑھا تھا اور جس کی خوبصورتیوں نے انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ان میں سے اکثر اپنی تعلیم مکمل کر کے وہیںکے ہو رہتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک کے لوگ جاہل اور فرسودہ لگتے ہیں، یہاں کا سسٹم اور ماحول بے کار اور یہاں کی گلیاں بدبودار۔ یہ ان ملکوں کے اداروں میں زندگیاں گزارتے ہیں اورپھر ایک دن یہ کسی سیاسی پارٹی کے مشیر بن کر اس ملک میں لوٹتے ہیں، کسی اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز ہو کر یہاں کے لوگوں کو مشورے دیتے ہیں۔ گزشتہ 66 برسوں سے اس ملک کے اعلیٰ سطح کے مشیر یہی لوگ رہے ہیں اور آج تک تعلیم، معیشت اور امن عامہ میں ان کی کارکردگی صفر رہی ہے‘ اس لیے کہ انہیں نہ اس ملک کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے اور نہ یہاں کے لوگوں کے مسائل کا علم۔آکسفورڈ، کیمرج،ہارورڈ اور کولمبیا جیسے اداروںسے پڑھے ہوئے یہ لوگ ان سیاست دانوں کو ایسے مشورے دیتے ہیں جن کا دنیاکے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی ترقی سے کوئی واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی ہمارے ماحول سے کوئی تعلق۔ ان کے ساتھ اس ملک کی بیوروکریسی مل جاتی ہے جنہوں نے گزشتہ دو سو سال سے لوگوں پر صرف اور صرف انگریزی کے بل بوتے پر راج کیا۔ یہ وہ منافق گروہ ہے جو لوگوں سے اردو میں بات کرتاہے۔ ان کی شکایات ان کی زبان میں سنتا ہے۔ ان کے درمیان جھگڑے‘ ساری بحثیں، عدالتی بیانات سب اسی زبان میں ہوتے ہیں جو وہاں کے لوگ بولتے ہیں۔ لیکن یہ جب لوگوں کو آرڈر، فیصلہ یا حکم نامہ پکڑاتے ہیں تو وہ انگریزی میں ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ دوغلاپن جس نے اس بیوروکریسی کو لوگوں پر مسلّط کر رکھا ہے۔ یہ ایک طبقہ ہے جس میں اس ملک کے سرمایہ دار،جاگیردار، بیوروکریٹ اور مغرب کے عشق میں گرفتار دانشور شامل ہیں۔ یہ ہر اس فرد پر اپنا تسلّط قائم کرلیتے ہیں جو اس ملک میں فیصلہ سازی کا اختیار رکھتا ہے اور پھر یہ اس سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ عمران خان صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ انہیں مغرب کی ہوائیں تو مرعوب نہ کر سکیں لیکن انہیں وہاں سے پڑھے ہوئے دانشوروں نے مرعوب کر لیا۔ کیا عمران خان نے ان ماہرین سے کبھی یہ سوال کیا کہ آئس لینڈ، فن لینڈ، بیلجیم، ناروے اور سویڈن جیسے ممالک‘ جن کی آبادی لاہور شہر سے بھی کم ہے، میں انگریزی میں تعلیم کیوں نہیں دی جاتی؟ کیا وہ ترقی نہیں کرنا چاہتے؟ نہیں، اس لیے کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ کسی دوسرے کی زبان میں علم آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مردہ کردیتا ہے۔ آپ کا طریقِ اظہارتیس فیصد سے بھی کم رہ جاتا ہے۔آپ اپنے ملک، علاقے،ثقافت اور تہذیب سے کٹ جاتے ہیں اور آپ کی محبتوں کا محور ہی کچھ اور ہو جاتا ہے۔ عمران خان صاحب!دنیا کی پانچ ہزار سال کی تاریخ میں صرف دو مواقع ایسے ہیں جب ترقی ہوئی یا آپ کے لفظوں میں ’’تبدیلی‘‘ ہوئی۔ ایک عرب اور دوسرے انگریز۔ عربوں کے دامن میں علم،سائنس،فلسفہ، اقتصادیات نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ سات قصیدے تھے جو کعبے کی دیواروں پر لٹکائے گئے تھے‘ لیکن ان کے ہاں ایک جنون پیدا ہوا کہ دنیا بھر کا سارا علم اپنی زبان میں منتقل کرنا ہے۔ ترجمے ہوئے، اپنی زبان کا دامن علم سے مالا مال کیا اور پھر سات صدیاں مسلمانوں نے علم کی دنیا کی تخلیقی طور پر قیادت کی۔ یہی حال انگریزوں کا تھا۔ ان کے دامن میں بھی شیکسپیئر اور رومانی شعرا کے سوا کچھ نہ تھا‘ لیکن اُن میں دنیا بھر کے علوم کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کا جنون تھا۔انہوں نے بھی دنیا کی ہر کتاب کو اپنی زبان میں منتقل کیا۔ پھر جب اس علم کو انہوں نے اپنی زبان،اپنے محاورے اور اپنے تلازمے سے پڑھا تو ایسی تخلیقی صلاحیتیں ان میں پیدا ہوئیں جن کی وجہ سے وہ آج تک علم کی دنیا پر راج کررہے ہیں۔ آپ تو غلامی کی زنجیریں توڑنا چاہتے تھے، لیکن اب آپ کا یہ فیصلہ اس قوم کو ایسی زنجیریں پہنائے گا جو وہ خوشی خوشی پہن لے گی اور پھر صدیوں تک ناکارہ، نامراد،مایوس، اپنے ماضی سے برگشتہ، اپنے ماحول سے نا آشنا اور تخلیقی صلاحیتوں سے عاری بن کر زندہ رہے گی۔کیا آپ یہ ’’تبدیلی‘‘ تحفے میں دیںگے اس قوم کو؟