"OMC" (space) message & send to 7575

کون ہے؟کوئی ہے؟ کوئی تو ہو!

یونانی دیو مالا کے ایک کردار سوفوکلیس کو دیوتائوں نے یہ سزا دی تھی کہ وہ ایک بھاری پتھر اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی تک لے جائے اور وہاں پر کھڑا ہو۔دیوتا اسے واپس لڑھکا دیتا اور سوفو کلیس کو پھر سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچانے کے لئے کہتا ۔وہ پھر اسی مشقت سے گزرتااور یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس لاحاصل محنت کے عمل پر دنیا جہان کے معاشروں میں ضرب الامثال اور محاورے موجود ہیں جن میں انگریزی زبان کا محاورہ ’’Reinventing the wheel‘اپنے اندر معانی کا سمندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہے’’پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنا‘‘ ۔پہیہ انسان کی سب سے قدیم ایجاد سمجھا جاتا ہے، اسی کی بنیاد پر دنیا کی تمام مشینی زندگی نے ترقی کی۔ تانگے ریڑھے سے جہاز اور عام سے چرخے سے بڑی بڑی ملوں کی مشینری تک میں پہیے کی کارفرمائیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہ محاورہ کسی کیے ہوئے کام کو دوبارہ کرنے کے بارے میں کہتا ہے ۔یہ بالکل ایسے ہے ،جیسے پہیے کو ازسر نو ایجاد کیا جائے۔ یہ وہ شغل ہے جو یا تو بے کاری میں کیا جاتا ہے یا پھر ایک مخصوص بدنیتی کے ساتھ کسی کام کو تکمیل سے روکنے کے لئے پہلے لوگوں کو اس میں مصروف کیا جاتا ہے اور پھر جب وہ اس کام کی تکمیل کے قریب ہوجا تے ہیں ،اور جب ان کی آنکھوں میں کامیابی کے ستارے چمکنے لگیں تو پوری عمارت کسی نہ کسی بہانے دھڑام سے گرا دی جائے اور کہا جائے کہ اب اسے دوبارہ سے تعمیر کرو۔ یہ بدنیتی کی بدترین مثال ہے اور اگر اسے عملی شکل میں دیکھنا ہو تو حکومتِ پاکستان کی وہ روش ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے جو اس نے سود کے خاتمے کے لئے گزشتہ 68سال سے اختیار کر رکھی ہے۔ ملک کے بانی اور بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بنک کے افتتاح پر سود کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا: \'\'I shall watch with keenness, the work of your research organization in evolving banking practices compatible with Islamic ideas of social and economic life\". ’’میں انتہائی دلچسپی سے ذاتی طور پر آپ کے تحقیق کے ادارے کے کام کا جائزہ لیتا رہا ہوں گا جو وہ ایسے بنکاری نظام کو ترتیب دینے میں سرانجام دے گا جو اسلام کے معاشرتی اور معاشی اصولوں پر مبنی ہو‘‘۔بابائے قوم کا یہ آخری خطاب تھا اور یوں لگتا ہے۔یہ ایک ایسے شخص کا خطاب تھا جو مغرب کے سودی نظام اور سرمایہ دارانہ غلاظت کو بھی سمجھتا ہے اور اسلام کے معاشی نظام کی برکات سے بھی واقف ہے۔ تقریر میں آگے چل کر قائد اعظم ؒنے جس طرح مغرب کے معاشی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا وہ ایک سچے اور راسخ العقیدہ مسلمان کا خاصہ ہے۔آج اگر ایسی گفتگو کی جائے تو آپ کو رجعت پسند ،بنیاد پرست اور فرسودہ سوچ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ جو قوم قائد اعظم کو آج تک سیکولر ثابت کرنے کی جدوجہد میں لگی ہو وہ اس حکم نامے پر کیسے عمل کرتی۔ سود سے محبت کرنے والی بیورو کریسی اور سیاسی قیادت نے یہ کام تحقیق کے ادارے کے سپرد کر کے سکون کی چادر تان لی۔ اکیس سال بعد 1969ء میں اسلامی مشاورتی کونسل نے ڈھاکہ کے اجلاس میں بنک کے قرضوں، پرائز بانڈوں، انشورنس اور دوسرے ایسے تمام کاروبار کو حرام قرار دے دیا،اس کے بعد خاموشی ۔الیکشن ہوا، جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا، آئین ترتیب دیاگیا اور اس کے آرٹیکل 37نے حکومت پر ذمہ داری عائد کی کہ وہ جلد از جلد سود کا خاتمہ کرے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سال خاموشی سے گزرے۔ ضیاء الحق نے 29ستمبر 1977ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمہ داری سونپی کہ کوئی متبادل نظام ترتیب دے جو اسلام کے اصولوں پر مبنی ہو۔ 25جون 1980ء کو انہوں نے ایک جامع متبادل نظام ترتیب دے کر رپورٹ حکومت کو جمع کروا دی ۔خاموشی پھر بھی قائم رہی ۔ 1981ء میں شریعت کورٹ بنی لیکن بدنیتی کے اس عالم میں کہ اس پر دس سال کے لئے مالیاتی معاملات زیر غور لانے پر پابندی لگا دی گئی۔ دس سال ختم ہوئے، لوگ شریعت کورٹ چلے گئے اور 14نومبر 1991ء کو اس نے طویل بحث کے بعد بنک کے سود کو حرام قرار دے دیا۔ اس کے بعد کی کہانی عدالتی جدوجہد کی کہانی ہے۔ ایک جانب حکومت ہے ،خواہ نواز شریف کی ہو ،بے نظیر یا پرویز مشرف کی اور دوسری جانب وہ چند پاگل اور دیوانے ہیں جو عدالت میں جا کر اللہ اور اس کے رسول ؐ کے احکامات کے مطابق جنگ لڑتے ہیں ۔ 23دسمبر 1999ء کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے تاریخی فیصلہ دے کر بنک کے سود اور دیگر متعلقہ کاروبار وغیرہ کو حرام قرار دے دیا۔ 6جون 2002ء کو سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیل کی سماعت کی اور شریعت کورٹ کو ازسر نو سماعت کے لئے کہہ دیا۔ پرویز مشرف اور آصف زرداری کے بارہ سال شرعی عدالت میں ان فائلوں پر گرد پڑتی رہی۔لیکن معلوم نہیں کیوں اب گرد جھاڑ کر ان تمام افراد کو نوٹس دیئے گئے ہیں جو 1991ء سے اس سود کے خلاف جنگ میں صف آراء تھے ۔ان میں مرحوم عبدالودود خان صاحب کو بھی نوٹس بھیجا گیا ہے جو مرتے دم تک یہ جدوجہد کرتے رہے اور آخر میں اپنی تمام متاع جو چند کاغذات اور نوٹس تھے مجھے سونپ گئے۔ اب دوبارہ سے بحث کا آغاز ہو گا‘ پھر سے معاشیات کی کتابیں کھلیں گی‘ حکومتی مجبوریاں بتائی جائیں گی اور کئی سال اسی میں بیت جائیں گے۔ اس منصوبے کا اندازہ ان چودہ سوالوں سے ہوتا ہے جو ان تمام افراد کو دیے گئے جو اس پٹیشن میں فریق ہیں۔ ان تمام سوالوں پر ایک طویل بحث کئی سال پہلے سپریم کورٹ میں ہو چکی اور سپریم کورٹ نے 1999ء کے فیصلے میں ان کا جواب بھی دے دیا ہے۔یہ سوال اس قوم کے سامنے ہیںاور ساتھ یہ سوال بھی کہ کیا سود کی جنگ ان چند دیوانوں کی ذاتی جنگ ہے ، کیا ان کا کوئی قتل کا مقدمہ ہے یا جائیداد کا جھگڑا کہ جس کے لیے یہ دیوانہ وار عدالتوں میں گھومتے پھریں اور بار بار دلائل دیں۔ یہ تو آئین پاکستان کے تحت اس حکومت کی ذمہ داری ہے جسے اٹھارہ کروڑ عوام نے منتخب کیا ہے ۔سوال ملاحظہ کیجئے۔ (1)تفاسیر کی روشنی میں ’’ربا‘‘ کی مستند تعریف کیا ہے۔ کیا ربا ،سود (USURY) اور انٹرسٹ میں کوئی فرق ہے۔ کیا ربا کا اطلاق اس انٹرسٹ پر بھی ہوتا ہے جو بینک اور مالیاتی ادارے تجارتی اور پیداواری مقاصد کے لیے دیے گئے قرضوں پر وصول کرتے ہیں؟ (2)قرض کی تعریف کیا ہے۔ کیا قرض اور اُدھار (Loan) مترادف اصطلاحات ہیں۔ قرآن میں قرض کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟ (3)کیا بیع جس کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے اس کا تعلق بینکوں کے سود پر ہے؟ (4)ربا الفضل کیا ہے اور موجودہ زمانے کے بینکوں پر اس کا اطلاق کیسے ہو؟ (5)ربا کی حرمت کی علت کیا ہے اور مختلف علماء کی قرآن سنت کی حوالے سے تعبیر کیا ہے اور اس کے اخلاقی اور قانونی مضمرات کیا ہیں؟ (6)آئین پاکستان کے مطابق شرعی عدالت قرآن و سنت کے مطابق کسی قانون کو اسلامی یا غیر اسلامی قرار دیتی ہے ۔قرآن و سنت کے صریح احکام کی موجودگی میں علماء کی رائے کی اہمیت کیا ہے؟ (7)کیا سود کی حرمت کا اطلاق غیر مسلم شہریوں پر بھی ہوتا ہے اور کیا غیر مسلم حکومتوں سے لیے گئے قرضوں پر بھی اس کا اطلاق ہوگا؟ (8)قرض کے معاملے میں کرنسی کی قیمت کم ہونے‘ افراط زر یا انڈکشن کے معاملے میں جائز و ناجائز کے متعلق علماء کی رائے کیا ہے؟ (9)قرآن میں مذکور ’’راس المال‘‘ کی تعریف میں اگر کاغذی نوٹ کی قیمت کم ہو جائے اور وہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اصل رقم سے زیادہ ادا کرے تو کیا وہ ربا ہوگا؟ (10)کیا مضاربہ اور مشارکہ صحیح اسلامی متبادل ہیں؟ (11)مطالباتِ زر پر چھوٹ یعنی بلوں پر ڈسکائونٹ دینے کا شرعی متبادل کیا ہے؟ (12)اسلامی تحویل کے مقاصد کیا ہیں؟ (13)بینک کرنٹ اکائونٹ جس طرح متعین کرتا ہے کیا وہ شریعت کے مطابق ہے؟ اور (14)اگر سود ختم کردیا جائے تو ماضی میں بیرونی ممالک سے جو قرض لیے ہیں جن میں غیر مسلم ممالک بھی شامل ہیں ان کے بارے میں کیا طریقۂ کار ہوگا؟ یہ تمام سوالات 1999ء کے گیارہ سو صفحات کے فیصلے میں تفصیل سے زیر بحث لائے جا چکے ہیں اور ان پر فیصلہ بھی دیا جاچکا ہے ۔لیکن اب 5 نومبر 2013ء کو وفاقی شرعی عدالت میں ان پر پھر بحث کا آغاز ہوگا۔ لیکن میں قوم کے سامنے ایک سوال چھوڑے جا رہا ہوں۔ وہ لوگ جو بجلی‘ گیس‘ پانی بند ہونے پر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں‘ جو ناجائز قتل پر بازار بند کردیتے ہیں۔ کیا قیامت کے دن اللہ کے اس سوال کا جواب دے سکیں گے کہ میں اور میرا رسولؐ ربا کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے تھے اور تم ایک آواز بھی بلند نہ کر سکے۔ اس خاموشی کا روزِ محشر ہمارے پاس کیا جواب ہوگا۔ وہ تمام علماء‘ سیاسی جماعتیں جو اسلام اور آئین کی بالادستی پر تحریکیں چلاتی ہیں‘ جیلیں بھرتی ہیں‘ ماریں کھاتی ہیں اور کہتی ہیں ہم ایک جنگ لڑ رہی ہیں‘ کیا ان کے نزدیک اللہ کی شروع کی گئی جنگ اس قابل بھی نہیں کہ ان کے ماتھے پر پسینہ آ جائے‘ ان کے دل بے چین ہو جائیں‘ ان کی زبانیں اس جنگ کے حق میں گفتگو کرنے لگیں؟ لوگ کہتے ہیں یہ کارِ لاحاصل ہے‘ لیکن آخرت پر یقین ہو تو اس کا حاصل تو عظیم تر ہے۔ کون ہے جو اس معرکے میں اللہ کے لیے دشمنی اور اللہ کے لیے دوستی کا اعلان کرے؟کون ہے؟ کوئی ہے؟ کوئی تو ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں