"OMC" (space) message & send to 7575

لاپتہ افراد کا ’’فیشن‘‘

'عالمی ضمیر‘ ایسا مضحکہ خیز لفظ ہے جو روئے ارض پر بسنے والے کمزور انسانوں کا تمسخر اڑانے، ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور ان کی تضحیک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے اسی عالمی ضمیر کے ٹھیکیدار عالمی ادارے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے نام پر قائم اور دنیا بھر کے ابلاغ عامہ پر چھائی ہوئی تنظیموں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مہذب ترین اور اشرف المخلوقات۔۔۔ انسان۔۔۔ کے اجتماعی وجود سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا ضمیر پہلی دفعہ لاپتہ افراد کے حوالے سے 1992ء میں جاگا جب اس نے اپنی قرارداد کے آرٹیکل 21 میں افراد کے لاپتہ ہونے کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا۔ اس کے بعد چودہ سال تک یہ ضمیر گہری نیند سویا رہا۔ پھر 20 دسمبر 2006ء کو اقوامِ متحدہ نے ایک عالمی کنونشن کا مسودہ منظور کیا جس کا عنوان تھا:
International Convention for Protection of All Persons from Enforced Disappearance (ICCPED)
اس کنونشن پر اب تک 93 ممالک نے دستخط کیے ہیں اور سو سے زیادہ ممالک اس عالمی ضمیر کے کاغذی اظہار کا بھی حصہ نہیں۔ اس عالمی ضمیر کے تحت ایک عالمی عدالت بھی ہے جس کے روم قوانین (Rome Statute) نے یکم جولائی 2006ء کو زبردستی لاپتہ کرنے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا۔ لاپتہ افراد کا عالمی دن ہر سال 30 اگست کو منایا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد سے متعلق تمام قوانین اور کنونشن عالمی منظرنامے پر اس وقت وجود میں آئے جب دوسری جنگِ عظیم کی ہولناکیوں اور کروڑوں انسانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کے عمل سے سیر ہو کر عالمی طاقتوں نے سرد جنگ کا آغاز کیا جو کمیونسٹ روس کے ٹوٹنے تک جاری رہی۔ جیسے ہی روس کی کمیونسٹ حکومت اپنے انجام کو پہنچی، اقوام متحدہ میں لاپتہ افراد کا ذکر ایک قرارداد میں آ گیا۔ پینتالیس برس سے زیادہ عرصے پر محیط سرد جنگ کے دوران دنیا کے طول و عرض میں امریکہ نے کمیونزم کا طوفان روکنے کے لیے بے شمار ممالک میں کٹھ پتلی آمر حکومتیں قائم کیں۔ انہیں اسلحہ، سرمایہ اور عوام کو کچلنے کی ٹریننگ دی اور ان کے ذریعے دنیا بھر میں لاپتہ افراد کا '' فیشن‘‘ متعارف کروایا۔ اس سے پہلے صرف جنگوں میں افراد لاپتہ ہوا کرتے تھے۔ مشرق بعید میں فلپائن، انڈونیشیا، ویت نام، کوریا، تھائی لینڈ، لائوس اور کمبوڈیا جیسے ممالک میں زبردستی لاپتہ کئے گئے افراد کی کثیر تعداد تھی۔ جنوبی امریکہ پر تو یہ ''فیشن‘‘ ظلم کی آندھی کی طرح مسلّط تھا۔ چلّی، ارجنٹائن، ایلسلواڈور، کولمبیا، میکسیکو، برازیل غرض کون سا ملک ہے جہاں ہزاروں گھرانے آج بھی اپنے پیاروں کو یاد کر کے آنسو نہیں بہاتے ہیں۔ برسوں گزرنے کے بعد بھی انہیں علم نہیں کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا مر گئے۔ یہ ''فیشن‘‘ امریکی گماشتے رضا شاہ کے زمانے میں ایران میں عام تھا 
جس کی خفیہ ایجنسی ساواک یہ کام کرتی تھی۔ کمیونسٹ روس ٹوٹا تو انسانی بھیڑیے خون کی پیاس بجھانے کے لیے مسلم ممالک پر چڑھ دوڑے۔ افغانستان اور عراق میں تو جنگ ہو رہی تھی لیکن پاکستان اس جنگ کی تپش سے سب سے زیادہ جھلسنے والا ملک بن گیا۔ بدقسمتی سے اس پر ویسی حکومت تھی جیسی حکومتیں جنوبی امریکہ اور مشرقِ بعید کے ممالک میں سرد جنگ کے زمانے میں ہوا کرتی تھیں۔ امریکہ کی غلام، آمر اور ممکنہ حد تک فوجی۔ تمام عالمی قوانین اور انصاف کے معیارات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے گوانتا نامو بے کا جیل خانہ ان لوگوں سے آباد کیا گیا جنہیں پرویز مشرف نے پاکستان سے پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی کوئی عدالت بنی۔ جس کے دروازے پر جی چاہے‘ چند لوگ ٹھڈے مارتے ہوئے داخل ہوں، گرفتار کریں اور پھر جہاں چاہیں بیچتے پھریں۔ مدتوں ان لوگوں کا کوئی اتا پتا معلوم نہ ہو سکا۔ یہ لوگ گوانتانامو بے پہنچ گئے لیکن ہمارے قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں کو ایک ''فیشن‘‘ سے آشنا کر گئے۔۔۔ '' لاپتہ افراد‘‘ کا ''فیشن‘‘۔۔۔ پھر ملک کے طول و عرض میں جس نے جو چاہا کیا، جس کو چاہا اٹھایا، غائب کیا اور پھر سینہ ٹھونک کر کہا کہ یہ دہشت گرد ہیں، ملک دشمن ہیں، ہم انہیں کیسے چھوڑ دیں، انہوں نے ہمارے گلے کاٹے ہیں، ہماری تنصیبات پر حملہ کیا ہے اور ہمیں تاک کر نشانہ بنایا ہے۔ ادھر یہ لوگ زبردستی اٹھا کر لاپتہ کیے جاتے رہے اور ادھر اس ملک کے کونے کونے میں ان کی مائوں، بیویوں، بیٹوں اور بھائیوں کے کرب، بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ لوگ صرف اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے کس کس کے دروازے پر نہیں گئے ہوں گے۔ مائوں نے آنسوئوں سے بھیگی آنکھیں آسمانوں کی جانب لگائے رکھیں اور بیٹیوں نے اپنے اپنے بابا کے انتظار میں ہر دروازے کی خاک چھانی لیکن یہ ''فیشن‘‘ تو بڑے مزے کا تھا جو ان کے ہاتھ آیا تھا۔ جس کو چاہو مجرم کہو، اٹھائو، غائب کرو اور پھر رونے والی آنکھ کے سامنے سینہ پھلا کر آنکھیں سرخ کرتے ہوئے اعلان کرو: غداروں، ملک دشمنوں، قاتلوں اور دہشت گردوں کا مطالبہ کرتے ہو؟ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
مملکتِ خداداد پاکستان میں روزانہ تھانوں میں ایسے ہزاروں مقدمے درج ہوتے ہیں جن 
میں کسی نے قتل کیا ہوتا ہے، جائیداد کو آگ لگائی ہوتی ہے، منہ پر تیزاب پھینکا ہوتا ہے، گلے کاٹے ہوتے ہیں، زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر مارا ہوتا ہے۔ ان بدترین جرائم کے ملزموں کو پولیس پکڑتی ہے۔ ان میں جو اثرورسوخ والے ہوتے ہیں وہ اچھے وکیل کرتے ہیں، گواہوں پر دبائو ڈالتے ہیں، کسی کو روپے پیسے کا لالچ دے کر گواہی سے روکتے ہیں، روزانہ ایسے ہزاروں مقدمے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی واقعتاً قاتل، چور، ڈاکو اور عزت لوٹنے والے ہوتے ہوں گے لیکن تفتیش کی کمزوری، گواہ کے بیٹھنے، وکیلوں کی محنت، رشوت اور سفارش کے زور پر بری ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ ہمارے معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں، مظلوموں کی چھاتی پر مونگ دلتے ہیں، کیا صرف اس لیے کہ انہوں نے 'عام‘ انسانوں کے گلے کاٹے، 'عام‘ لوگوں کی جائیدادیں نذر آتش کیں؟ لیکن وہ جو کسی فورس سے تعلق رکھنے والے شخص کے ساتھ یہی سلوک کرے تو اسے غائب کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ''فیشن‘‘ جو اس دنیا میں سرد جنگ کے بعد سے امریکہ اور اس کے حواریوں نے طاقت کے نشے میں ایجاد کیا اور اس کے پروردہ ڈکٹیٹروں نے اسے اپنی طاقت کا مظہر قرار دیا۔
کیسی کیسی کہانیاں ہیں۔ بے گناہوں اور بے قصور لاپتہ افراد کے والدین اور بیوی بچے صرف یہ سوال کرتے پھرتے ہیں کہ ہمیں ہمارا قصور بتا دو، اگر قصور نہیں بتانا تو بچے کی آواز ہی سنا دو، لیکن جابر اور بااختیار لوگوں کے سامنے یہ آوازیں صدابصحرا ثابت ہوتی ہیں۔ مجھے صرف ایک خوف ہے کہ دنیا کے باقی ممالک نے تو امریکہ کو الوادع کہہ کر اپنا یہ مسئلہ حل کر لیا لیکن ہمیں امریکہ کو الوادع کہنے کا تصور کرتے ہوئے بھی اتنی اذیت ہوتی ہے جتنی نئی نویلی دلہن کو طلاق سے ہوتی ہے۔ اگر یہی ''فیشن‘‘ عام ہو گیا تو پھر ہر پولیس والا، کسٹم والا یا عام سکیورٹی ایجنسی والا بھی اپنے مطلوبہ افراد کا یہی حشر کرنا شروع کر سکتا ہے۔ ایک عام آدمی بھی کسی کو شخص کو اٹھا کر جنگلوں میں لے جائے گا اور انتقام کی آگ سرد کر لے گا۔ لوگ ایک جتھہ بھی بنا سکتے ہیں جو اسی ''فیشن‘‘ کے مطابق ظالموں، ڈاکوئوں اور قاتلوں کو خود کیفر کردار تک پہنچانے لگے۔ اگر خود ہی ملزم بنانا، خود ہی گرفتار کرنا، خود ہی غائب کرنا اور پھر خود ہی لاش ویرانے میں پھینک دینا اصولِِ انصاف کے مطابق ہے تو پھر طالبان اور بلوچستان کے جنگجو کون سی انوکھی بات کر رہے ہیں۔ ریاست پانچ یا سات لاکھ سکیورٹی فورسز یا جدید اسلحہ و بارود کے ذخیرے سے نہیں قانون کی حکمرانی سے چلتی ہے۔ اگر ریاست بھی ایسے ہی انتقام پر اتر آئے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا۔ سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں فرمایا: ''اقضیٰ کم علی‘‘ یعنی عدل کرنے میں علی ؓ بہترین ہیں۔ انہی کا قول ہے: '' اگر سو گناہگار چھوڑے جانے کا خطرہ ہو تو پھر بھی ایک بے گناہ کو سزا نہیں دی جا سکتی‘‘۔ لیکن ہم کتنے ہی بے گناہوں کی آہوں اور سسکیوں پر ریاست کی عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں