رئوف کلاسرا سے میری شناسائی اتنی ہی ہے جتنی کالموں کے ایک رسیا یا ٹاک شو دیکھنے کے شوقین شخص کی ہوتی ہے۔ میری اس سے ملاقاتیں بھی اتنی ہی ہیں جتنی ایک عام آدمی اپنے کسی محبوب لکھنے والے سے بہانے بہانے‘ زور زبردستی سے کر لیتا ہے۔ لیکن میرا اسے پسند کرنے کا عرصہ بہت طویل ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب صحافی اور تجزیہ نگار فلمی اداکاروں کی طرح مقبول نہیں ہوئے تھے۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن ٹاک شو ڈبلیو ڈبلیو ایف ریسلنگ کا بہترین متبادل ثابت ہوا۔ اس کے آنے سے پہلے چھوٹے بڑے سب شوق سے ریسلنگ دیکھا کرتے تھے۔ ہر ایک کا اپنا پہلوان ہوتا اور وہ کمرے میں بیٹھے شخص کے بلڈ پریشر سے کھیلتا رہتا۔ جب سے میرے ملک میں ٹاک شو آئے ہیں، گھروں میں شاید ہی کوئی ریسلنگ کا چینل لگاتا ہو۔ جس طرح وہاں جینڈر بیلنس کے عالمی معیار نے خواتین کی ریسلنگ کو مقبول کروایا‘ اسی طرح ٹاک شوز میں بھی خواتین کی مناسب نمائندگی نے ہمارا سر عالمی برادری میں بلند کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ خواتین کی ریسلنگ سے جتنی میرے ملک کی دقیانوسی‘ فرسودہ اور جاہل قسم کی خواتین نفرت کرتی ہیں، روشن خیال بلکہ عموماً ایک سو سال پرانی وضع قطع رکھنے والے مرد اسے اتنا ہی شوق سے دیکھتے اور داد دیتے ہیں۔ عین اسی طرح ٹاک شوز میں خواتین کے الفاظ کے دنگل سے خواتین نفرت کرتی ہیں، لیکن مرد حضرات ان کی تحسین کے لئے تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن میں ریسلنگ کے مقبول ترین دور میں بھی اخبار میں رئوف کلاسرا کی شرلاک ہومز اور ابن صفی کے کرداروں جیسی حیران کن حقیقی داستانوں کا رسیا تھا۔ اس زمانے میں اخبارات بڑے لیڈروں اور چھوٹے ابھرتے ہوئے رہنمائوں کے بیانات سے بھرے ہوتے تھے۔ انہی میں سے سرخیاں نکالی جاتی تھیں اور ہر لیڈر کو اس کے مقام پر رکھتے ہوئے اخبار میں جگہ دینا ایک فن تصور ہوتا تھا۔ صحافیوں کی جاسوسی زیادہ تر سرعام بوس و کنار‘ منشیات کے اڈوں‘ دادِ عیش دیتے ہوئے جوڑوں‘ سمگلروں‘ چوروں اور ڈاکوئوں کے خلاف پولیس کی کامیابی اور ناکامی تک محدود تھی۔
سرکاری بددیانتی اور کرپشن عام طور پر نعرے بازی یا سیاسی بیانات کے روپ میں نظر آتی۔ کرپشن ہماری حکومتوں اور افسران میں ہمیشہ سے موجود تھی لیکن اخبارات حکومتی اشتہارات کے اتنے مرہون منت ہوا کرتے تھے کہ ایسی خبریں شجر ممنوعہ قرار پاتی تھیں۔ سیاست دانوں کے بارے میں تو کہیں نہ کہیں خبر چھپ جاتی تھی لیکن بیوروکریسی اور پولیس کے بارے میں زبان کھولنا موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا اور لکھنے والے کو موقع پر ہی ''فوری انصاف‘‘ مہیا کر دیا جاتا۔ ایسے میں جس طرح رئوف کلاسرا اندرون خانہ کرپشن کی کہانیاں لے کر آتا وہ مجھ جیسے سرکاری ملازم کے لیے دلچسپی کا سامان لاتیں، اس لیے بھی کہ وہ سب کچھ ہم جانتے ہوتے تھے۔ ہماری بیوروکریسی کا سب سے پسندیدہ مشغلہ غیبت ہے۔ محفلوں میں ایک دوسرے کے سکینڈلز کا ذکر بیوروکریسی کا بہترین ''پاس ٹائم‘‘ ہے۔ لیکن رئوف کلاسرا کی نظر ان سب تک کیسے جا پہنچتی ہے؟ کیا اس نے کوئی سلیمانی ٹوپی پہنی ہوتی ہے؟ کیونکہ افسر شاہی تو اپنے اردگرد کسی کو پھٹکنے نہیں دیتی۔ کبھی کبھی میں سوچتا کہ رئوف کلاسرا کو دور ہی ایسا ملا ہے جو کرپشن کے سکینڈلز کا دور ہے۔ یہ درست ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو بددیانت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں، لیکن اتنی تفصیل، اتنی عرق ریزی اور سکینڈل کی تہہ تک پہنچنا اس کا کمال ہے۔ میں اس کا مداح بن چکا تھا۔ میں کبھی کبھار اس سے مل بھی لیتا لیکن میں ایسی محفلوں اور ایسے شہروں سے بہت دور بلوچستان میں بیٹھا‘ نوکری کرتا‘ ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھتا اور شاعری کرتا تھا۔ پھر معلوم نہیں کیوں، ان تینوں چیزوں سے جی اکتانے لگا۔ نوکری تو رزق کی مجبوری تھی اور ڈی ایم جی کی نوکری چھوڑنے پر خوف تھا کہ دوست اور رشتے دار مجھے کسی ماہر نفسیات کے پاس علاج کے لیے نہ لے جائیں، اس لیے لکھنے کے لیے کالم نگاری شروع کر دی کہ شاعری اور ڈرامہ نگاری میں کھل کر سچ نہیں لکھا جا سکتا تھا۔ 2001-2002ء میں جب اے پی این ایس ایوارڈ کا اعلان ہوا تو میرے لیے بڑے فخر کی بات تھی کہ میرا نام رئوف کلاسرا کے ساتھ ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں شامل تھا۔ ایک کہنہ مشق صحافی اور ایک نوواردکالم نگار۔۔۔ ویسے رئوف کلاسرا آج بھی مجھے صحافی ماننے کو تیارنہیں، اس کے نزدیک صحافی صرف وہ ہوتا ہے جو خالصتاً صحافت سے رزق کماتا ہو۔ یہ اس کی بہت پاکیزہ خواہش ہے اور اس کے لیے پورے پاکستان میں بہت مشکل سے لوگ ڈھونڈنا پڑیں گے جن کی زندگی کا دارومدار خالصتاً صحافت کی کمائی پر ہو اور اس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو۔ لیکن اسے خوش کرنے کے لیے بتا سکتا ہوں کہ وہ مجھے جس قبیلے یعنی بیوروکریسی کا حصہ سمجھتا ہے وہ لوگ بھی مجھے افسر نہیں سمجھتے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے مجھ ایسے شخص کا یہی حشر ہونا چاہیے۔
میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں؟ اس لیے کہ اس سے اپنی گزشتہ اور زندگی میں سب سے طویل ملاقات کے دوران رئوف کلاسرا نے مجھے دو کتابیں پڑھنے کو دیں۔ کتاب کا ہاتھ آنا یوں بھی خوش قسمتی کی بات ہے اور پھر اس شخص کی کتابیں جسے میں گزشتہ کئی برسوں سے اس لیے شوق سے پڑھتا آیا ہوں کہ اس کی ہر کہانی کسی طلسم ہوشربا سے کم نہیں ہوتی۔ میرے ملک میں سکینڈلز کی نوعیت ہوتی ہی ایسی ہے۔ اس کی کتابوں میں حسِّ جاسوسی کا تذکرہ تو ہے ہی‘ لیکن اس میں ایک کمال ایسا بھی ہے جو کسی ماہر نفسیات دان اور قیافہ شناس کے کمال سے کم نہیں۔ کلاسرا بڑے لوگوں کی شخصیت کی پرتوں اور جہتوں کے ساتھ ایسے کھیلتا ہے کہ ان کے اندر کا وجود اور ضمیر کاغذ پر پُتلیوں کی طرح رقص کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن دوسری کتاب اس سکینڈل کے بارے میں ہے جو لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کے خلاف قتل کی جھوٹی سازش کی کہانی ہے۔۔۔۔۔''وہ قتل جو نہ ہو سکا‘‘۔ یہ میرے لیے تو شاید اتنی دلچسپ نہ ہو کہ میں ان تمام کرداروں کے افعال اور شخصیتوں سے واقف ہوں اور اس سکینڈل کی بازگشت بیوروکریسی میں اکثر سنائی دیتی رہی ہے۔ لیکن اس کہانی میں ملک کے ہر سوچنے‘ درد رکھنے والے اور محب وطن شخص کے لیے عبرت کا سامان ضرور ہے۔ یہ کتاب اس راز سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کس طرح ہماری پوری بیوروکریسی اپنے ذاتی مفاد‘ نوکری اور مراعات کے عوض اپنے آپ کو سیاست دانوں کی چوکھٹ پر گروی رکھ چکی ہے! ہم کس حد تک گر سکتے ہیں، اس کا اندازہ اس کتاب کو پڑھ کر ہی ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں جب میں بیوروکریسی کی تطہیر کے لیے اپنی پٹیشن لے کر گیا تو جہاں قانون کی کتابوں اور عدالتوں کے فیصلوں سے میرا بیگ بھرا ہوتا وہاں یہ کتاب بھی میرے ساتھ ہوتی۔ یہ کتاب ایک ایسے المیے کی نشاندہی کرتی ہے جس نے ہمارے پورے سرکاری نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے اور اگر اس نظام کو ٹھیک نہ کیا گیا تو سو سال بھی الیکشن ہوتے رہیں یہ ملک تنزل کا شکار رہے گا۔ رئوف کلاسرا اس تنزل کا نوحہ خواں ہے۔ وہ مجھے صحافی نہیں مانتا، مجھے اس پر کوئی گلہ نہیں۔ 'سکہ بند‘ مدرسے کے فارغ التحصیل علماء مولانا مودودی کو عالم نہیں مانتے تھے اور خاندانی موسیقار خواجہ خورشید انور کو عطائی قرار دیتے تھے۔ ہر پیشے کے اپنے اپنے محبتوں کے دائرے ہوتے ہیں اور اپنی اپنی فخر کی وجوہ‘ لیکن رئوف کلاسرا جیسے صحافی کے ہوتے ہوئے مجھے اس شعبے سے دور کے تعلق پر بھی فخر کرنا چاہیے۔