یہ اس خطے کے لوگوں کے مستقبل سے کھیلنے اور انہیں زیور تعلیم سے محروم رکھنے کا دوسرا مجرمانہ کھیل تھا جو انگلش میڈیم سکولوں کی چکاچوند‘ خوبصورت یونیفارم اور نرسری گیتوں کی صورت میں ایک میٹھے زہر کی صورت میں گزشتہ تیس برسوں سے اس قوم کی رگوں میں اتارا جا رہا تھا۔ آج اس کے خوفناک نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ مجھ جیسے دقیانوسی‘ فرسودہ اور قدیم خیالات والے شخص کی باتوں پر یقین نہ کریں، لیکن ایک عالمی ادارے کی رپورٹ تو آپ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ یہ عالمی ادارہ یونیسکو ہے‘ جس میں مدرسے کے پڑھے ہوئے‘ عرف عام میں جاہل ملّا یا پھر مجھ جیسے ماضی پرست شخص کا کوئی گزر نہیں ہو سکتا۔ اس میں سب کے سب اس ''مہذب‘‘ دنیا کے عالمی معیارِ تعلیم سے آراستہ درس گاہوں سے پڑھے ہوئے لوگ موجود ہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم‘ شرح خواندگی‘ تخلیقی صلاحیت اور فنی استعداد سب کے وہی معیارات ہیں جو مغرب زدہ لوگوں کے ذہنوں اور ان کی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ اس عالمی ادارے نے پاکستان کی تعلیمی حالت پر اپنی 2012ء کی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مندرجات خوفناک حد تک دہلا دینے والے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اس ملک کی تعلیم کے زوال کی تصویر نظر آتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2012ء میں پاکستان میں سب سے زیادہ ناخواندہ یعنی ان پڑھ افراد نوجوان ہیں جن کی عمریں 15 سال سے 24 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے 72 فیصد نوجوان مکمل طور پر ان پڑھ ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ آگے بڑھتے جائیں تو جو لوگ عمر میں جتنے زیادہ ہیں ان میں ناخواندہ یا ان پڑھ لوگوں کی تعداد اتنی ہی کم ہے۔ 25 سال سے 44 سال تک کی عمر کے لوگوں میں ان پڑھ افراد کی تعداد 57 فیصد ہے اور 45 سال سے 54 سال کی عمر کے لوگوں میں ان کی تعداد 46 فیصد ہے۔ وہ لوگ جو اس دور میں پیدا ہوئے جب اس ملک میں صرف چند ایک انگلش میڈیم سکول تھے‘ جب ٹاٹ یا چٹائی پر بیٹھ کر پڑھنے والے محنتی اور مخلص استاد سے فرسودہ سے اردو میڈیم سکول میں پڑھتے تھے اور اس وقت جن کی عمریں 55 سال سے 64 سال کے درمیان ہیں‘ ان میں ان پڑھ لوگوں کی تعداد صرف 38 فیصد ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں 62 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں یعنی آج کے نظامِ تعلیم میں جتنے لوگ ان پڑھ ہیں اس دور میں پیدا ہونے والے افراد اتنے ہی پڑھے لکھے تھے۔ اس وقت 55 سال کی عمر کو پہنچنے والا شخص 1958ء میں پیدا ہوا ہو گا۔ اس دور میں چند ایک عیسائی مشنری سکولوں کے سوا کوئی اور انگلش میڈیم سکول نہ تھا۔ پورے ملک میں آکسفورڈ اور کیمرج کے ''او‘‘ اور ''اے‘‘ لیول کے امتحانات کا بھی کوئی رواج نہیں تھا۔ پورے ملک میں شاید ہی چند سکول ہوں جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے، یہاں تک کہ مشنری سکولوں میں بھی لڑکیوں اور لڑکوں کے علیحدہ سکول ہوا کرتے تھے۔ چند انگلش میڈیم سکولوں کے طالب علم اور اردو میڈیم کے لاکھوں طلبہ‘ سب کے سب ایک ہی بورڈ سے امتحان دیتے تھے۔ فرق صرف یہ
تھا کہ وہ دونوں اپنا پرچہ الگ الگ زبانوں میں حل کرتے تھے۔ دونوں کے ہاتھوں میں سرکاری محکمہ تعلیم کی سند ہوتی تھی اور یہ سلسلہ یونیورسٹی کی تعلیم تک جاری رہتا تھا۔ اس دور میں ملک کے کونے کونے میں ایسے سکول تھے جن کی چٹائیوں اور ٹاٹ پر ایک ڈپٹی کمشنر‘ بریگیڈئر‘ ایم این اے یا بڑے جاگیردار کے بچے عام گلی کوچوں میں رہنے والے انسانوں کے بچوں کے ساتھ پڑھتے تھے۔ پورے ملک میں چند لوگ ایسے تھے جو اپنے سرمائے کے بل بوتے پر بچوں کو ملک سے باہر بھیجتے تھے۔ ایچی سن جیسے اداروں میں خاندانی وجاہت اور نسلی تفاخر کی بنیاد پر بچوں کو داخلہ دیا جاتا تھا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ انگریز کے بنائے ہوئے حکمران طبقوں کی اولادوں کو زیورِ تعلیم سے اس طرح آراستہ کیا جائے کہ وہ انہی کے رنگ ڈھنگ سیکھ کر اس ملک کے عام لوگوں پر حکمرانی کریں۔ یہ تھی اس ملک کی تعلیمی صورت حال، یہ تھی وہ نسل جس کی عمر آج 55 سے 64 سال کے درمیان ہے اور اس میں شرح خواندگی 62 فیصد ہے اور اس میں ان پڑھ لوگ صرف 38 فیصد ہیں۔
اب اس نسل کی طرف آئیں جو موجودہ نظامِ تعلیم اور اس کے معیار کا پھل کھا کر جوان ہوئی ہے۔ وہ جن کی عمریں 15 سے 24 سال کے درمیان ہیں۔ 24 سال قبل یعنی 1989ء میں اس ملک میں انگلش میڈیم سکولوں کا فیشن عام ہو چکا تھا۔ چند بڑے سکول سسٹم قائم ہوئے جن میں ایک خاص طبقے نے اپنے بچے داخل کروانا شروع کیے۔ اس کے بعد ہر گلی کے کونے پر ایک گھر کرائے پر لے کر‘ اس کی دیواروں پر مغرب زدہ کارٹونوں کی تصویریں بناتے ہوئے ایک مشکل سا انگریزی نام رکھ کر سکول کھولا گیا۔ نصاب کی جو کتاب کسی پبلشر یا کتابوں کے تاجر نے کسی بھی ملک سے منگوائی اسے بغیر سوچے سمجھے نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ بدترین حد تک نقالی کی گئی کہ بچوں کو السلامُ علیکم کی جگہ گُڈ مارننگ اور گُڈ آفٹرنون جیسے آداب سکھائے گئے۔ اسّی کی دہائی وہ عرصہ تھا جس میں اس ملک میں تعلیم ایک کاروبار بن گئی۔ غریب والدین‘ جو اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے‘ کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے تعلیم کو قومیانے کی پالیسی سے پہلے اس ملک میں ہزاروں پرائیویٹ سکول تھے لیکن نہ ان میں نصاب مختلف ہوتا تھا اور نہ ہی ان کی فیسیں سرکاری مدرسوں سے زیادہ ہوتی تھیں۔ ہر قصبے اور قریے میں مخیر حضرات نے سکول کھولے ہوئے تھے، جن کے پاس کہیں سے چند لاکھ روپے آ جاتے اور انہیں کوئی کاروبار نہ سوجھتا تو وہ ایک سکول کھول لیتا۔ ان سکولوں میں اساتذہ کی تعلیم اور تربیت کا یہ عالم تھا کہ جس گھر میں کوئی بچی یا بچہ میٹرک یا ایف اے کا امتحان دے کر نتیجے کا انتظار کر رہا ہوتا اسے بھی استاد بنا دیا جاتا اور بڑے بڑے سکولوں میں تو اعلیٰ سول اور فوجی افسران کی بیویاں بغیر کسی تربیت کے استاد کی کرسی پر جا بیٹھیں۔ پورے ملک میں امیر اور مڈل کلاس نے ان سکولوں کا رخ کیا تو سرکاری اردو میڈیم سکول ریڑھی والوں‘ مزدوروں‘ کلرکوں‘ خوانچہ فروشوں اور مفلوک الحال انسانوں کے بچوں کے لیے رہ گئے۔ یہ سکول پھر ایسے اجڑے کہ ان کی ویرانی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ ان کا نصاب جدا‘ ان کے ہاتھ میں کتاب علیحدہ‘ ان سے علم حاصل کرنے والوں کے پاس ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ مختلف۔ یوں تباہی کی وہ داستان لکھی گئی جس کا نتیجہ یونیسکو کی یہ رپورٹ ہے۔
یہ حملہ اس خطے پر دوسری دفعہ ہوا ہے۔ پہلی دفعہ جب 1857ء میں انگریز نے اپنی حکومت کو پورے ہندوستان پر وسعت دی تو برصغیر میں موجود تعلیمی نظام کی کمر توڑنے کے لیے اپنا مغربی نظام تعلیم رائج کیا۔ 1879ء میں ہر ضلع کے گزیٹر لکھے گئے۔ یہ تمام گزیٹر پنجاب آرکائیوز میں موجود ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ہندوستان کی شرح خواندگی 90 فیصد سے اوپر تھی اور پھر جب انگریز 1947ء میں یہ ملک چھوڑ کر گیا تو اس کی شرح خواندگی پندرہ فیصد تھی۔ پہلے اس ملک کی تعلیم کو گورے انگریز نے تباہ کیا اور اب کالے انگریزکر رہے ہیں۔