ایک طوفان برپا ہے۔ گالیوں کا ایک جم غفیر ہے کہ خطوط، ای میلز اور سوشل میڈیا پر میرے مہربانوں کے عظیم تحفے کے طور پر مجھے مل رہا ہے۔ مجھے اس معصوم بچی سلینہ کریم پر بھی ترس آرہا ہے جس نے پاکستان کے سب سے متنازع اور قابل نفرت چیف جسٹس منیر کا جھوٹ پکڑا کہ کیسے اس نے قائداعظم کے رائٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں اپنی طرف سے سیکولر جمہوریت کے مفہوم والے فقرے ڈالے اور اسے ایک سرکاری رپورٹ'' منیر انکوائری رپورٹ1954ء‘‘ میں شامل کیا۔ یہ پاکستان کی واحد سرکاری رپورٹ ہے جو تین زبانوں اُردو، انگریزی اور بنگالی میں شائع اور ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کی گئی تا کہ سرکاری طور پر قائداعظم کے بارے میں جھوٹ بول کر عام کیا جائے۔ خطا تو میری تھی کہ میں نے سلینہ کریم کی اس تحقیقی کاوش۔۔۔ Secular Jinnahکا ذکر کالم میں کر دیا اور سوشل میڈیا پر بیٹھے حقوقِ نسواں کے مشعل بردار اس بچی پر مغلظات بکنے لگے۔ گیارہ اگست والی تقریر کی بات بھی کمال کی ہے، ایسے لگتا ہے کہ جیسے میں نے اُن کی دُکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہو۔ دلیل کے طور پرگزشتہ دو دہائیوں سے سرکاری طور پر اسمبلی کی روداد میں چھپنے والا متن اور ہندو اخبار کی خبر مختلف ویب سائٹس پر ایک دفعہ پھر گھوم گئی۔ دعویٰ یہ ہے کہ اسے سرکاری طور پر شائع کیا گیا تھا۔معاملہ تو ہے ہی سرکاری دستاویز پر اعتماد کا۔جب تک اس کی دوسرے ذرائع سے تصدیق نہ ہو، میںاسے مکمل سچ کے طور پر تسلیم نہیں کر سکتا۔میں سرکاری دستاویز پر یقین بھی کر لوں لیکن اس حیرت کو کہاں لے جائوں کہ 12اگست1947ء کے اخبارات میں اس تقریر کے بہت سارے مندرجات تو موجود ہیں لیکن وجہ تنازع وہ فقرے نظر نہیں آتے جن پر سیکولرازم کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ جس ہندو اخبار کی خبر نیٹ پر گردش کر رہی ہے اس کا پورا صفحہ موجود نہیں، بس خبر کا ایک تراشہ ہے۔ اس سے تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ ہندو اخبار کا تراشہ ہے بھی کہ نہیں۔ ہندو اخبار کی ویب سائٹ پر جائو تو وہاں1990ء سے پہلے کے اخبارات کے آرکائیوز موجود نہیں۔ آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کے پاس قائداعظم کی تقاریر کا تمام ریکارڈ موجود ہے اور انعام اللہ خواجہ نے اپنی کتاب The Creation of Pakistan میں اس کی ساری تفصیل دی ہے، لیکن ریڈیو کے ریکارڈ میں 11 اگست1947ء کی تقریر ہی موجود نہیں ہے۔
اب آئیے اس اسمبلی کی روداد کی طرف جو پنجاب اسمبلی کی لائبریری میں موجود ہے اور جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ قائداعظم کی زندگی میں چھپ گئی تھی ۔ اس کتاب کو دیکھ کر میرے شکوک حیرت میں بدل گئے۔کتاب ہے Constituent Assembly of Pakistan Debates ۔۔۔ یہ 10اگست سے14اگست تک کی کارروائی کی رپورٹ ہے ، لیکن آپ حیران ہوں گے کہ اس کارروائی کو شائع کرنے کے لیے باقاعدہ قائداعظم کی وفات کا انتظار کیا گیا۔ اس کی تاریخ اِشاعت9اکتوبر1948ء ہے یعنی ان کے انتقال سے ایک ماہ بعد کی۔ اس دوران گورنمنٹ پرنٹنگ پریس نے ہزاروں دستاویزات شائع کیں جن کا ریکارڈ تفصیل سے پنجاب آرکائیوز میں موجود ہے لیکن اسمبلی کی کارروائی چھاپناان کو بالکل یا د نہ آیا۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات اس کتاب پر پنجاب اسمبلی کی لائبریری کی مہر ہے۔ یہ مہر آپ ان کاغذات پر بھی دیکھ سکتے ہیں جو میرے مہر بانوں نے نیٹ پر شائع کیے ہیں۔ پوری کتاب میں چار مہریں ہیں اور وہ بیچ میں سے خالی ہیں ، لیکن پہلے صفحے کی مہر کے اندر ا یک اور تاریخ والی مہر ہے جس پر تاریخ 13جولائی1948 درج ہے۔ لائبریری کی باقی کتابوں پر تاریخ ہاتھ سے لکھی گئی ہے ، اس پر مہر ہے ۔کیا کمال کی جادو گری ہے کہ کتاب9اکتوبر1948ء کو چھپتی ہے اور تین ماہ قبل ہی عالم ارواح سے پنجاب اسمبلی کی لائبریری میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ کسی ایسے مہربان کا کرشمہ ہے جو اس رپورٹ کو مزید مصدقہ بنانا چاہتا تھا اوراس نے بیچ میں تاریخ والی مہر ثبت کر دی،لیکن تاریخ اشاعت پڑھنا گوارا نہ کیا کیونکہ تاریخ اشاعت آخری صفحے میں بہت باریک چھپی ہوئی ہے۔اس تقریرکا ریڈیو ریکارڈ کسی کے'' با کمال‘‘ ہاتھوں نے تلف کر دیا تھااس لیے آخری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اخبارات میں ویسا کیوں رپورٹ نہیں ہوا جیساسرکاری تقریر میں ہے۔ اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے22جون1981ء میں ویو پوائنٹ میں حامد جلال نے ایک مضمون لکھا کہ اصل میں اس تقریر کو بیورو کریسی نے پریس میں جانے سے روکا تھا، لیکن ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے دھمکی دی کہ ہم اس کی شکایت قائداعظم سے کردیں گے اور پھر یہ جنگ الطاف حسین نے جیت لی اور تقریرڈان میں چھپ گئی۔
یہ ایک اور بڑا لطیفہ ہے۔ ڈان کا پہلا شمارہ کراچی میں پندرہ اگست1947ء کو شائع ہوا ،دلی کادفترتوڑ پھوڑ کی وجہ سے بند ہو چکا تھا یعنی ڈان اخبار کی پیدائش سے تین دن پہلے ہی تقریر شائع ہوگئی۔ حیرت یہ ہے کہ اس پورے واقعے کو ضمیر نیازی جیسے ''عظیم‘‘ سپوت نے ایک مصدقہ واقعہ سمجھ کر اپنی کتاب The Press in Chains میں صحافت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ معاملہ صرف اس تقریر پر نہیں رکتا،ریڈیو پاکستان کے تقاریر کے خزانے میں قائداعظم کی 25 جنوری1948ء کی وہ تقریر موجود ہے جو انہوں نے سندھ بار ایسوسی ایشن میں کی اور جس میں انہوں نے پہلی دفعہ آئینِ پاکستان کے خدوخال بتائے۔ ان کے یہ الفاظ اس تقریر میں گونجتے ہیں۔۔۔"Islamic Principles have no parallel, today these are as applicable in actual life as they were 1300 year ago"۔۔۔یعنی ''اسلام کے اصولوں کا کوئی نعم البدل نہیں ، وہ آج بھی اسی طرح ہماری اصل زندگی میں نافذ العمل ہو سکتے ہیںجیسے1300 سال پہلے ہوتے تھے‘‘۔ اس پوری تقریر میں قائداعظم ان سیکولر قوتوں کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ لوگ یہ شرارت اور پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ہم شرعی قوانین نافذ نہیں کریں گے۔ قائداعظم نے شریعہ لاء(Shria Law) کا لفظ استعمال کیا۔ یہ تقریر26جنوری1948ء کے ڈان اخبار میں چھپی لیکن جس سرکاری دستاویز کا حوالہ دیا جاتا ہے اور جسے مستند کہا جاتا ہے ، اس کی بددیانتی کا عالم یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے1948ء کے آخر میں ایک کتاب The Speeches of Quaid-e-Azam as Governor Generalگورنمنٹ پرنٹنگ پریس سے شائع کی ۔اس کتاب میں25جنوری 1948ء کی تقریر غائب کر دی گئی۔ یہ تھا بددیانتی کا عالم جو ان سرکاری دستاویز کے ساتھ اس طبقے نے روا رکھا، جو اس وقت تمام اداروں میں براجمان تھا۔اس قدر بددیانتی کے عالم میں سرکار کی دستاویزکو مستندکیسے مان لیں؟
یہ طبقہ کون تھا جوآج بھی ہے؟ یہ طبقہ انگریزکی تیارکردہ وہ بیورو کریسی ہے جو لارڈ کارنوالس نے خالصتاً سیکولر اور مغربی اقدارکی بنیاد پر استوار کی تھی اور جس کو اکیڈیمی کی ٹریننگ سے لے کر نوکری کے کلچر تک انگریزوں کی طرح چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، ہنسنا، رونا اور خواب تک دیکھنا سکھایاگیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس ملک کی تقدیر سے بلا شرکتِ غیرے1958 ء تک کھلواڑ کیااور پھر اپنے جیسی انگریز کی تیارکردہ فوج کو بھی ساتھ ملایا۔انہی کی مغرب زدہ آغوش سے غلام محمد، سکندر مرزا اور محمد علی بوگرہ جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اس ملک کی قسمت کے ساتھ وہ کھیل کھیلا جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ یہ لوگ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ قائداعظم کے منہ سے نکلنے والے 'شریعہ لاء ‘کے لفظ زبانِ زدِ عام ہو جائیں۔ یہ وہی ڈپٹی کمشنر اور سیکرٹری یا ایس پی تھے جو 14اگست 1947ء سے پہلے انہی عوام پر ڈنڈے بر ساتے تھے اور انہیں قید کرتے تھے جو پاکستان کا مطالبہ کرتے تھے اور اب وہ اس پاکستان کے ہر ادارے کے مالک و مختاربن گئے تھے۔ انہوں نے اس صفائی سے اپنے مطلب کے فقرے ہر اس سرکاری دستاویز میں ڈالنے کی کوشش کی جس تک ان کی پہنچ تھی ۔ جو لوگ یہ منصوبہ بندی کر سکتے ہوں کہ علامہ محمد اسد کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کو کیسے نذر آتش کرنا ہے اور اس کے ریکارڈ کوآرکائیوز تک نہیں پہنچنے دینا، جو قائداعظم کے رائٹرکو انٹرویو میں ایک جھوٹا فقرہ ڈال کر پاکستان کی تاریخ کی ایک بہت بڑی سرکاری دستاویز شائع کریں اور اس جھوٹ کو سرکاری حیثیت دے دیں،جو ریڈیو پاکستان سے اصل ریکارڈنگ تک ضائع کر دیں تا کہ تقریر میں جو فقرے ڈالنے ہیں،اپنی مرضی سے ڈال سکیں، ایسے لوگوں کی موجودگی میں کوئی سرکاری دستاویز مستند کیسے ہو سکتی ہے جب تک اس کی دیگر ذرائع سے تصدیق نہ ہو؟ اس تقریرکا جوڑ جسٹس منیر کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ پاکستان میں 11ستمبر کی تقریر پر سب سے پہلے بحث کا آغاز منیر رپورٹ میں کیا گیا اور پھر اس تصور کو بحث کا موضوع بنا دیا گیا۔ یہ جنگ ازل سے ہے۔ قائداعظم تو ابھی کل کی بات ہے، سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ذخیرے میں محدثین نے باقاعدہ ''موضوع‘‘ یعنی گھڑی ہوئی احادیث کا باب باندھا ہے۔ ملا علی قاری کی کتاب موضوعاتِ کبیر ان گھڑی ہوئی احادیث کا مجموعہ ہے۔ یہ سب احادیث کا دامن صاف کرنے کے لیے کیا گیا۔کاش کوئی پاکستان کی تاریخ کا دامن بھی آلائشوں سے پاک کردے۔ باقی رہی طعن و تشنیع اور مغلظات تو میرے اللہ نے اپنے بندوں کی ایک پہچان بتائی ہے کہ '' وہ نہیں ڈرتے ملامت سے اور ملامت کرنے والوں سے۔ یہ تو ان پر اللہ کا فضل ہے جو دیتا ہے جسے چاہے‘‘۔ (المائدہ:54) اس راستے میں ملامت ، طعن و تشنیع اور گالیاں تو اللہ کا فضل ہیں۔