پچھلے بیس برسوں سے کراچی، خاک و خون میں تڑپ رہا ہے۔ اُس پر بارہا فوج کشی بھی ہو چکی، رینجرز کے دستوں نے بھی آپریشن کئے اور پولیس نے تو ہر سڑک کے موڑ پر مسلسل ناکہ لگائے رکھا۔ لیکن امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے، خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ نفرت کی آگ میں جلتے اور سُلگتے اس شہر میں لأ اینڈ آرڈر مکمل طور پر دم توڑ چکا ہے۔ نہ کہیں نظم کا وجود نظر آتا ہے اور نہ کہیں ضبط کا نشان! خوف سے تھر تھراتی اور کپکپاتی پولیس، اپنے بِلوں میں گھُسی پڑی ہے۔ رہیں سیاسی قوتیں تو وہ ریڑھ کی ہڈی کے بغیر، ایک نیم جان لوتھڑے کی مانند، آہ و بکا میں مشغول ہیں اور ایک دوسرے کو کوسنے دینے میں مصروف بھی! لسانی اور نسلی بنیادوں پر اس شہر کی تقسیم، بیروت کا نقشہ پیش کر رہی ہے، جہاں کسی زمانے میں فلسطینی کمانڈوز، لبنانی فوجیوں، ولید جنبلاط کے دروز قبائلی لشکر اور عیسائی ملائشیا کے مابین چاند ماری ہوا کرتی تھی۔ جس طرح ایک عام معمولی سی پھنسی مسلسل کھُرچنے اور علاج نہ ہونے کے سبب، کینسر میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے، بالکل اُسی طرح حکومتوں کی بے حسی کے باعث، بدامنی کا کینسر، کراچی کے سارے جسم میں سرایت کر گیا۔ اگر اس کا بروقت علاج کر دیا جاتا تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ 1947ء کے بٹوارے کے دوران، اہلِ زبان نے محدود پیمانے پر پاکستان (کراچی) کی جانب ہجرت کی۔ لیکن تقسیم کے تین چار سال بعد، وسطِ ہند (یو پی، سی پی) سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے مہاجرین کا ایک نیا ریلا اُمڈا۔ یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے تخلیقِ پاکستان کے لئے بے پناہ جدوجہد کی لیکن قیامِ پاکستان کے بعد، وہ اپنے گھر ہی میں بے گھر اور بے وطن ہو کر رہ گئے۔ ملک کے بٹوارے سے پہلے، اُن میں سے اکثر اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پاکستان تک آنے جانے کے لئے ہند کی سرزمین سے ایک محفوظ راستہ (Safe Corridor) تقسیم کے پلان میں شامل ہو گا۔ لیکن ایسا کوئی راستہ، پلان کا حصہ نہیں تھا۔ لہٰذا نہ تو انہیں پاکستان تک رسائی مل پائی اور نہ ہندوستان انہیں اپنا وفادار شہری تسلیم کرنے پر تیار تھا۔ نتیجہ یہ کہ یو پی اور سی پی کے ہر گھر سے ایک دو افراد نے پاکستان کی جانب ہجرت کا آغاز کیا۔ انہیں پاکستان میں آتے ہی ملازمت مل گئی اور پاکستان کو اُن کی صورت میں پڑھے لکھے اور تجربہ کار دفتری میسر آ گئے۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کی آمد پر نہ کہیں شور اُٹھا اور نہ کہیں سے احتجاج کی کوئی لہر بلند ہوئی۔ لیکن جوں جوں شرح تعلیم میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اسی مناسبت سے دوسرے صوبوں میں پڑھے لکھے مہاجرین کی دفاتر میں تعیناتی کے خلاف ردِعمل پیدا ہونے لگا۔ بالخصوص سندھ میں یہ ردِعمل بڑا شدید تھا۔ کیونکہ مہاجرین کی اکثریت کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں میں آباد تھی۔ ملازمتوں میں تفاوت کی اس خلیج کو پُر کرنے کے لئے سندھ میں کوٹہ سسٹم کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ مہاجرین کی اکثریت نہ تو تاجر تھی اور نہ کھیتی باڑی اور زمینداری سے اُن کا کوئی تعلق یا واسطہ تھا۔دفتری ملازمت اُن کا واحد ذریعۂ روزگار تھی۔ 1972ء میں پیپلز پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد، جونہی کوٹہ سسٹم کا اجرأ ہوا، مہاجرین، اُردو زبان کی بقأ، ملازمتوں، میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر داخلوں کے خلاف، سراپا احتجاج ہو گئے۔ 1980ء کے وسط میں ایم کیو ایم کی پیدائش کا اصل پسِ منظر، مہاجرین کے اذہان پر چھایا ہوا، یہی خوف تھا اور مہاجرین میں اِس تنظیم کی حیرت انگیز کامیابی کا اصل سبب بھی یہی صورتحال تھی۔ یہ محض ضیاء الحق کا کارنامہ نہیں تھا، جس نے ایک ہی رات میں ایم کیو ایم کو آسمان پر پہنچا دیا…بلکہ جنرل ضیاء الحق نے تو سلگتی ہوئی چنگاری پر محض پیٹرول پھینکا تھا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ تب تک مہاجرین کی قیادت جماعتِ اسلامی اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسے افراد کے ہاتھ میں تھی، جنہوں نے کوٹہ سسٹم سے خوفزدہ مہاجرین کے مسائل کا کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے،اپنے شانوں پر ساری اُمتِ مسلمہ کا بارِ گراں اُٹھا رکھا تھا۔ اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران، وسطِ ہند کے شہری کلچر سے تعلق رکھنے والے اِن مہاجرین اور وڈیرہ شاہی کی کوکھ سے جنم لینے والے سندھی کلچر کے درمیان نہ تو آشتی اور مفاہمت ہو سکی‘ اور نہ اُن کا ادغام یا انضمام ہی ممکن ہو پایا۔ اگر یہ ادغام’’ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ جیسے ترانے گانے، اسلامی وحدت کا درس دینے، نظریۂ پاکستان کا اعادہ کرنے سے ہو سکتا‘ تو آج ہمیں کراچی میں نہ شاہی سید نظر آتا اور نہ کہیں ایم کیو ایم کا وجود ملتا! 1960ء سے کراچی میں پشتونوں کی آمد کے سلسلے نے زور پکڑا۔ وہ بھی مہاجرین کی مانند، اپنے مخصوص علاقوں میں آباد ہونے لگے۔ اِس وقت انہوں نے کراچی میں اپنا پشتونستان آباد کر رکھا ہے۔ کراچی میں آباد پنجابی، اپنی مقامی قیادت نہ ہونے کے سبب، آہستہ آہستہ ایک غیر مؤثر کمیونٹی میں بدلتے چلے گئے۔ لہٰذا فی الوقت کراچی میں تین مؤثر نسلی اور لسانی گروہ پائے جاتے ہیں… یعنی اہلِ زبان، پشتون اور مکرانی اور سندھی! اگر کراچی کا مسئلہ صرف امن کی اپیلوں، آتشیں بیانات، سندھیوں پر تنقید کرنے، پنجابیوں کو گالی دینے، مہاجروں کو خوفزدہ کرنے یا فوج اور رینجرز کے آپریشن سے حل ہو سکتا تو کب کا ہو چکتاکہ یہ کام تو ہم پچھلے کئی عشروں سے کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کا تنا، اقتصاد کی سرزمین سے پھوٹا ہے۔ ملک کے کچلے ہوئے طبقات، پسماندہ قومیتیں، لسانی اور علاقائی گروہ، چھوٹے اور بڑے صوبے، ایک نئی ہم آہنگی کے متلاشی ہیں۔ تاریخ کے اس انتہائی اہم اور نازک موڑ پر اپنے اپنے باہمی سیاسی اختلافات کے باوجود، ساری سیاسی قوتوں کو اِن سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی مشترکہ حل اور فارمولا دریافت کرنا ہو گا…ورنہ اتنی دیر ہو چکی ہے کہ تاریخ کے سمندر میں گرتے ہوئے، وقت کے دریائوں کے پانی کو، واپس لانا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔