"RS" (space) message & send to 7575

تضادات ،سیاست سے قومی شعار تک

سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور قیادت کی صاف گوئی کی بدولت عوام میں مقبول ٹھہرتی ہیں‘ کیونکہ منشور میں ترقیاتی منصوبوں اور پالیسی کو واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر عمل کی پابندی ہوتی ہیں تاکہ الیکشن سے پہلے عوام سے کئے وعدوں کو حکومت میں آنے کے بعد پورا کیا جا سکے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتیں حکومت چلانے کا ہوم ورک مکمل کر لیتی ہیں۔ جب امیدوار اپنے متعلقہ حلقوں میں انتخابی مہم کیلئے جاتے ہیں تو عوام کے مجمع کے سامنے انہیں حکومت میں آنے کے بعد کا پورا پروگرام پیش کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران عوام امیدوار سے مختلف نوعیت کے سوالات بھی کرتے ہیں‘ امیدوار کو اپنی اہلیت کے ساتھ ساتھ پارٹی کی اہلیت بھی ثابت کرنا پڑتی ہے‘ کئی بار حریف امیدواروں کو آمنے سامنے بٹھا کر مباحثہ کرایا جاتا ہے‘ اس مباحثے میں جس امیدوار کا پلڑا بھاری ہو عوام اس کی حمایت اس بنا پر کرتے ہیں کہ اس امیدوار کے پاس مسائل کا حل موجود ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت حکومت میں آ جاتی ہے تو فوری طور پر ان وعدوں کی تکمیل کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے جو انتخابی مہم اور منشور میں بیان کئے گئے ہوتے ہیں۔کوئی حکومت اپنے منشور یا وعدوں پر پورا نہ اتر سکے تو عوامی عدالت میں غیر مقبول ٹھہرتی ہے۔ مغربی معاشروں میں سیاسی قائدین کے قول و فعل کے تضاد کو نہایت معیوب تصور کیا جاتا ہے۔جن سیاسی رہنماؤں کے قول و فعل میں تضاد ہو ان کیلئے اقتدار تک رسائی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام ایسے افراد کی بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاستدانوں میں یہ صفت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے‘ منشور میں جن امور کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس پر عمل کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ حیرت ہے عوام سے کئے گئے وعدوں اور منشور پر عمل نہ ہونے کی صورت میں عوام بھی استفسار نہیں کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی ہیئت تو جمہوری خواہشات اور تلخ حقائق کے درمیان معلق رویے کی اسیر ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی سکوت اور اعتماد مختلف حکومتوں میں کارکردگی کے اعتبار سے مختلف رہا ہے۔ قومی شناخت کے عوامل بھی یہی ہیں تاہم سماجی اور فکری سطح پر بھی تضادات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے‘ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ تضادات ہمارا قومی شعار بن چکے ہیں۔ سیاستدانوں کے تضادات کو سمجھنے کیلئے تین جمہوری ادوار کا جائزہ کافی ہو گا۔
مئی 2006ء میں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے میثاقِ جمہوریت کیا تو اس کے نتیجے میں پرویز مشرف کو جانا پڑا تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ 2008ء سے لے کر تاحال ملک میں جمہوریت قائم ہے۔میثاقِ جمہوریت کے بعد ہونے والے 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سادہ اکثریت حاصل ہوئی تھی‘116 نشستوں کے ساتھ پیپلزپارٹی سب سے آگے تھی۔ اس کے بعد مسلم لیگ( ن) کو 88 مسلم لیگ (ق) کو 54 ‘ایم کیو ایم کو 25 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کو 13 نشستیں حاصل ہوئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو محض دو ماہ ہوئے تھے‘ مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے چونکہ زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں اس لئے حکومت بنانے کا حق اسے حاصل ہے یوں اتحادیوں کی مدد سے پیپلزپارٹی نے حکومت قائم کر لی اور صدارت کا عہدہ زردای صاحب نے سنبھال لیا۔مارشل لاء کا طویل دور ختم ہونے پر سیاسی جماعتیں خوش تھیں کیونکہ وہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی تھیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری فخر سے کہا کرتے تھے کہ اتحادیوں کے تعاون سے ان کی حکومت قائم ہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ دیگر چھوٹی جماعتیں بھی شریکِ اقتدار تھیں جبکہ مسلم لیگ (ن) فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتیں اقتدار کے ثمرات سے مستفید ہو رہی تھیں لیکن جمہوریت بحالی مہم میں عوام سے کئے گئے وعدے ایفا نہ ہو سکے۔ اس دور میں سیاسی قیادت کے قول و فعل میں تضاد کا اندازہ لگانے کیلئے زرداری صاحب کا وہ بیان کافی ہے‘ جب نواز شریف نے انہیں ججوں کی بحالی سے متعلق وعدہ یاد دلا کر ایفا کا مطالبہ کیا تو زرداری صاحب نے کہا کہ معاہدے قرآن حدیث نہیں ہوتے کہ بدلتی ہوئی صورتحال کے ساتھ ان میں تبدیلی نہ لائی جا سکے۔ پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں توانائی بحران نے سر اٹھا لیا اور معاشی بحران بھی شدت اختیار کر گیا۔ پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت کا اختتام ایسی حالت میں ہو رہا تھا کہ توانائی بحران سر چڑھ کر بول رہا تھا‘ مسلم لیگ (ن )نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے توانائی بحران کو منشور اور انتخابی مہم کا حصہ بنا لیا۔یہ نعرہ عوام میں کلک کر گیا کیونکہ بجلی کے بحران کی وجہ سے نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا اور انڈسٹری تباہ حال تھی‘ سو عام انتخابات 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کو کامیابی حاصل ہو گئی۔
مسلم لیگ (ن) نے انتخابات 2013ء میں کامیابی کے بعد وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان میں حکومت قائم کی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی جبکہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) نے توانائی بحران پر توجہ دی اور قلیل مدت میں توانائی کا گمبھیر مسئلہ حل کر دیا‘ تاہم ترقیاتی کاموں کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں اضافہ ہو گیا۔ تحریک انصاف جو انتخابات 2013ء میں دھاندلی پر احتجاج کر رہی تھی اس نے بیرونی قرضوں کو ساتھ جوڑ دیا۔ عمران خان نے احتجاج کیا مگر انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو اپریل 2016ء میں پانامہ سکینڈل سامنے آیا‘ عمران خان نے جس کا فائدہ اٹھایا ۔عمران خان نے نواز شریف پر منی لانڈرنگ‘ کرپشن اور دیگر الزامات عائد کئے‘ سپریم کورٹ میں ایک سال تک کیس چلتا رہا اور فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا۔ نواز شریف وزرات عظمیٰ کیلئے نااہل قرار پائے مگر ان کی حکومت چلتی رہی اور اپنی آئینی مدت پوری کی‘ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ہی عمران خان نے عوامی حمایت حاصل کر لی تھی۔ انہوں نے کرپشن کا خاتمہ‘ بیرونی قرضوں میں کمی‘ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان کیا۔ عمران خان یہ دعوے اس قدر پختہ یقین کے ساتھ کر رہے تھے کہ عوام میں اکثر لوگوں نے ان پر یقین کر لیا اور یہاں تک پوچھنا گوارہ نہ کیا کہ یہ دعوے کیسے پورے ہوں گے؟انتخابات 2018ء میں تحریک انصاف کو کامیابی حاصل ہوئی‘ سندھ کے علاوہ باقی تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو گئی۔ جب نوے روز گزر گئے اور کرپشن کا خاتمہ نہ ہو سکا تو کچھ حلقوں کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ قوم سے کیا وعدہ پورا نہیں ہوا۔ عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ برسوں کی خرابی چند دنوں میں ٹھیک ہونے والی نہیں ہے۔بہت سے لوگوں نے عمران خان کے مؤقف کی حمایت کی کہ واقعی معاملات کو درست ڈگر تک لانے میں کچھ وقت لگے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات درست ہونے کے بجائے مزید خرابی کی طرف گئے اور عوام سے کیا گیا کوئی وعدہ بھی پورا نہ ہو سکا۔
تین جمہوری ادوار کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے 15 سال کی مدت کم نہیں ہے۔ اگر سیاسی قیادت کے قول و فعل میں تضاد نہ ہوتا تو یقیناً ہم ترقی کی منازل طے کر چکے ہوتے۔ اہلِ سیاست نے قول و فعل کے تضاد کی جو روش اپنائی وہ اب قومی شعار بن چکی ہے۔ من حیث القوم جب تک ہم تضادات سے نکل کر قول و فعل پر پورا اترنا یقینی نہیں بناتے‘ ہم مسائل کی دلدل میں یونہی پھنسے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں