"RS" (space) message & send to 7575

خیبرپختونخوا میں سیاسی قیادت کی ٹارگٹ کلنگ

فروری 2008ء کے عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے صوبائی سطح پر 31 جبکہ قومی اسمبلی کی 10نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ آزاد امیدوار اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تعاون سے صوبے میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت جن اتحادیوں کے تعاون سے قائم تھی عوامی نیشنل پارٹی ان میں نمایاں تھی۔ اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو پرانی اتحادی جماعتیں بھی کہا جاتا ہے‘ 1988ء کے انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں نے صوبائی اور وفاقی سطح پر اتحاد قائم کیا تھا۔ آصف زرداری سمجھتے تھے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ زیادہ عرصے تک اتحاد برقرار نہیں رہ سکے گا‘ ان کا خدشہ سچ ثابت ہوا کیونکہ 2010ء میں ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی کی حکومت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی اتحاد سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ ایم کیو ایم کی دستبرداری کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اے این پی حکومت کیلئے کس قدر اہم اتحادی تھی۔ امن‘ جمہوریت اور ترقی اے این پی کا نعرہ ہے مگر زمینی حقائق اس کے خلاف تھے۔ جتنے خودکش حملے اے این پی کے دور حکومت میں ہوئے ہیں دوسرے ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اے این پی کا شدت پسندی کے خلاف دو ٹوک مؤقف تھا جس پر وہ اب بھی قائم ہے‘ اس اصولی مؤقف کی وجہ سے اے این پی کی قیادت کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا‘ اے این پی میں بلور خاندان کی بہت اہمیت ہے۔ بشیر بلور‘ ان کے بیٹے ہارون بلور اور میاں افتخار حسین کے جوان سال بیٹے میاں راشد حسین سمیت درجنوں اہم رہنماؤں کو راستے سے ہٹانے کیلئے خودکش حملے کیے گئے۔ میاں افتخار حسین ابھی بیٹے کی تجہیز و تکفین سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ اگلے ہی روز ان کے گھر پر خودکش حملہ کر دیا گیا‘ جس میں آٹھ افراد جاں بحق ہوئے۔ یوں دیکھا جائے تو اے این پی کی سیاسی تاریخ آزمائشوں سے عبارت ہے۔ وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے حالانکہ صوبے میں مثالی تاریخی ترقیاتی کام کروائے تھے مگر اس کے باوجود جن حالات میں اے این پی نے 2013ء کی انتخابی مہم کا آغاز کیا وہ اس کیلئے سازگار نہ تھے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ اے این پی کو 2013ء میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی‘ صوبائی اور وفاقی حکومت میں اس کا حصہ نہ تھا۔
2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے اس کا فائدہ اٹھایا اور ایسا بیانیہ دیا جو خیبرپختونخوا کے عوام نے قبول کر لیا۔ عمران خان نے ایک طرف خیبرپختونخوا کے عوام کے حقوق کی بات کی جبکہ دوسری طرف ڈرون حملوں کی مخالفت کی۔ اس دوران انہوں نے یہ مؤقف بھی اپنایا کہ اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ یہ مؤقف اے این پی کے برعکس تھا لیکن صوبے کے عوام امن چاہتے تھے جو عمران خان کے بیانیے میں انہیں دکھائی دینے لگا تھا‘ یوں خیبرپختونخوا میں عمران خان کو پسند کیا جانے لگا اور 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ اے این پی کے دورِ حکومت میں شدت پسند عناصر کے خلاف آپریشنز اور افواج پاکستان کی قربانیوں کے بعد امن قائم ہوا تو تحریک انصاف نے اپنے بیانیے کی وجہ سے اس کا فائدہ اٹھایا۔ اسی بنا پر صوبے میں دوسری مرتبہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی مگر اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں حال ہی میں پیش آنے والے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور عوامی نیشنل پارٹی پر ہونے والے حملوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی ملک لیاقت علی کو اگلے روز گھات لگا کر نشانہ بنایا گیا ۔ ان کے ساتھ موجود ان کے بھائی‘ بھتیجا اور دو پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے تاہم وہ شدید زخمی ہیں۔ ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ طالبان کو بھتہ نہ دینے کی بنا پر ملک لیاقت علی کو نشانہ بنایا گیا۔ نوشہرہ سے پی ٹی آئی میں حال ہی میں شمولیت اختیار کرنے والے معتصم باللہ کی گاڑی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس میں وہ اپنے بھائی سمیت شدید زخمی ہوئے۔ اس سے قبل آفتاب شیئر پاؤ اور ان کے خاندان‘ انجینئر امیر مقام اور ان کے خاندان‘ اسفند یار ولی اور ان کے خاندان و قریبی رفقا اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے خاندان اور قریبی رفقا کو عسکریت پسندوں اور ٹارگٹ کلرز نے کئی بار نشانہ بنایا ہے۔ افغانستان سے چند خودکش بمباروں کی پاکستان میں داخل ہونے کی اطلاعات بھی ہیں جو سکیورٹی کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا دورۂ خیبرپختونخوا کئی طرح کے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے امریکی سفیر سے ملاقات میں اقتصادی ترقی‘ تجارت‘ تعلیمی شراکت اور سرمایہ کاری کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر امریکی سفیر اور یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر نے پختونخوا کے محکمہ صحت کو 36گاڑیوں کا عطیہ دیا‘ اس سے قبل یو ایس ایڈ پشاور میں پاکستان کا سب سے بڑا برنز اور پلاسٹک سرجری سینٹر بھی تعمیر کرا چکا ہے‘ مگر دوسری طرف تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے امریکی سفیر کے دورہ پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے امریکی سفیر کے دورہ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ''امریکی سفیر اور ان کا گینگ طورخم کی راہ میں پاکستان کے حساس علاقوں پر پرواز کرتے ہوئے زمین کا معائنہ کر رہے ہیں جبکہ موصوف کو سرکاری بریفنگ بھی میسر ہے اور قدم رنجہ کرنے کو سرخ قالین بھی! ان علاقوں میں تو عام پاکستانی بھی قدم نہیں رکھ سکتے کیا ہم غلام ہیں؟‘‘ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے قول و فعل کے تضاد کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو یو ایس ایڈ کے تعاون سے صحت اور تعلیم کے کئی منصوبے چلا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف سیاست بھی کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح عمران خان کے بیانیے سے ماضی میں فائدہ اٹھا کرصوبے میں حکومت قائم کی گئی تھی اب بھی دہرا معیار اپنا کر سیاسی فوائد حاصل کیے جائیں۔
ہماری دانست میں تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے اصل ایشوز اور چیلنجز پر قابو پانے کے بجائے بے مقصد امور میں الجھی ہوئی ہے۔ صوبے میں سکیورٹی مسائل ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ افغانستان میں ایمن الظواہری پر ڈرون حملہ‘ اسی طرح پاکستان اور ٹی ٹی پی میں جاری مذاکرات کے اہم کردار اور طالبان کمانڈر عمر خالد خراسانی کی افغانستان کے صوبے پکتیا میں مارے جانے کی اطلاعات ہیں‘ ان واقعات کے بعد خیبرپختونخوا کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیرستان اور باجوڑ میں بھی پے در پے جمعیت علمائے اسلام کے نو قائدین کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی مگر جمعیت علمائے اسلام نے اس پر ردعمل دینے کے بجائے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں نے شدت پسندوں کے حوالے سے مصلحت سے کام لیا اور ایسی ہی غلطیاں کیں جیسی ماضی کی سیاسی شخصیات کر چکی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد عسکریت پسندوں نے انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا‘ افواج پاکستان کی قربانیوں اور طویل جدوجہد کے بعد بھتہ خوری کا خاتمہ اور امن قائم ہو گیا تھا مگر اسے برقرار رکھنا اہم ہے۔ جو غلطی ماضی میں سیاسی جماعتوں نے کی اب تحریک انصاف بھی اسی کا اعادہ کر رہی ہے‘ نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اہم رہنما عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عام انتخابات میں کچھ ہی وقت باقی ہے‘ اگر تحریک انصاف نے امن و امان اور اس سے جڑے عناصر کو سمجھنے کی کوشش نہ کی تو خدشہ ہے جس طرح عوامی نیشنل پارٹی کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا تحریک انصاف کو بھی ویسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ اس صورت میں تمام تر مقبولیت کے باوجود تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں