سیاسی جماعتوں کے اندر شدت پسندی کا بڑھتا رجحان معاشرے کے لیے زہرِ قاتل کے مترادف ہے۔ فوری طور پر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو رشتے ناتے محفوظ رہیں گے اور نہ ہی کسی کا گریبان محفوظ رہے گا۔ اہلِ سیاست اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے نوجوانوں کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ ہم مذہبی شدت پسندی کا رونا روتے تھے‘ اب سیاسی شدت پسندی اس سے دو ہاتھ آگے نکل گئی ہے۔ پاکستان کی پچھترسالہ تاریخ میں سیاسی تنازعات کی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں؛ تاہم پچھلے چند ماہ کے دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا مطلب ہے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا۔ ریاست کو کمزور کرکے کیسی سیاست؟ نوجوان جب عملی سیاست کا حصہ بن جائیں گے تو ان کا تعلیمی مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ لاہور پولیس نے گرفتار تین کم عمر طالب علموں کو ورثا کے حوالے کر دیا ہے تاکہ ان کا مستقبل داؤ پر نہ لگے۔ اس اقدام کی تحسین کی جانی چاہیے۔ والدین نے پولیس کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے بچے آئندہ اس کے طرح کی پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوں گے۔ والدین فکر مند ہیں کہ جن بچوں نے ان کے خوابوں کو پورا کرنا تھا‘ وہ ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے سیاست دانوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں۔ ان نوجوانوں میں غالب اکثریت ایسوں کی ہے جو خان صاحب سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں۔
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد خان صاحب نے سیاسی طور پر اپنی پارٹی اور کارکنان کو متحرک رکھا۔ وہ نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ایک سازش کے تحت ان کی حکومت ختم کی گئی۔ خان صاحب کے اس بیانیے پر نوجوانوں نے ان سے دلیل طلب نہیں کی۔ اس بیانیے کی بدولت خان صاحب کی مقبولیت پہلے سے بھی بڑھنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں تیرہ سیاسی جماعتیں ہیں مگر خان صاحب سب پر بھاری دکھائی دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خان صاحب اپنے سیاسی اہداف اور مقاصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فوری الیکشن کا انہیں بھرپور فائدہ ہو گا۔ خان صاحب نے جن نوجوانوں کو شعور اور بولنے کے لیے آواز دی ہے‘ یہ اپوزیشن جماعتوں کے خلاف بولنے تک محدود نہیں رہیں گے۔ یہ نوجوان سوال اٹھائیں گے اور جب بحران ختم نہیں ہوگا تو یہ آوازیں خان صاحب کا بھی پیچھا کریں گی کیونکہ ان نوجوانوں کو سیاسی تربیت سے پہلے میدان میں اتارا گیا ہے۔
تحریک انصاف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے بھی جو لوگ خان صاحب کی حمایت کر رہے تھے‘ وہ اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ اس لیے تحریک انصاف کو انتخابی میدان میں اترنے میں تامل نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اتحادی جماعتوں کو مختلف صورتحال کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) گوکہ ایک بڑی جماعت ہے لیکن اسے حکومت میں ہونے کی وجہ سے مسائل کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔ چند روز پہلے تک کہا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) سیاسی بیانیے کی تلاش میں ہے مگر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نئے بیانیے کے ساتھ میدان میں اتر چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے خان صاحب کی طرف سے عدالتوں میں عدم پیشی اور لاہور و اسلام آباد میں پُرتشدد واقعات کو جواز بنا کر یہ بیانیہ قائم کیا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور نائب صدر مریم نواز نے تو پی ٹی آئی کو کالعدم تنظیم قرار دینے کا مطالبہ تک کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) عوام کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ خان صاحب کسی قاعدے قانون کو نہیں مانتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو اس بیانیے کا فائدہ ہوگا۔ دریں حالات خان صاحب کو اگر نظام انصاف سے ریلیف مل بھی جاتا ہے تب بھی عدالتوں میں عدم پیشی کا تاثر زائل نہیں ہو سکے گا ‘ پی ٹی آئی کو اس کی سیاسی قیمت بہرحال چکانا ہی پڑے گی۔
خان صاحب سے لاکھ اختلاف سہی مگر پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کے مطالبے کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ مسلم لیگ (ن) جیسی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کو ٹیکنیکل طریقے سے باہر کریں۔ باچا خان‘ عبدالصمد خان اچکزئی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ بینظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زردای جیسے سیاست دان جمہوریت کے حقیقی چہرے تھے جو جمہوریت پسند‘ آئین پسند بھی تھے اور قانون کو ماننے والے سیاستدان تھے۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ انہوں نے سر جھکا کر اسے تسلیم کیا اور انارکی پیدا نہیں ہونے دی۔ ملک کی کسی راز کو افشا نہیں کیا۔ عمران خان کا معاملہ لیکن دوسرا ہے۔ ہماری شدید خواہش ہے کہ خان صاحب غیر جمہوری قوتوں کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہوں تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت رائج ہو اور عوام کے حقوق کو غصب کرنے والوں کا انجام ہمارے عہد ہی میں ہو۔ لیکن اگر کوئی حادثہ ہو گیا تو سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز ہیں‘ گو ان کا سیاسی تعلق تحریک انصاف سے ہے مگر ان کا عہدہ و منصب غیر جانبداری کا متقاضی ہے۔ صدرِ مملکت خان صاحب کی آخری امید بھی ہیں‘ اسی لیے وہ انہیں خط لکھتے ہیں اور جب معاملہ پیچیدہ ہو تو ملاقات کیلئے طلب کرتے ہیں۔ صدرِ مملکت اپنے تئیں مذاکرات کی بھی کوشش کر چکے ہیں۔ اب انہوں نے سیاسی جماعتوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو بحران سے نکالیں کیونکہ موجودہ صورتِ حال میں کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ اس حادثے سے کیا مراد ہے‘ انہیں کھل کر اس پر بات کرنی چاہیے۔ اگر صدرِ مملکت کچھ ایسا محسوس کر رہے ہیں تو اس حادثے کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے؟
باقی صدیقی نے ایسے ہی موقع کیلئے کہا ہے :
ہر نئے حادثے پہ حیرانی پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی
اقوام عالم نے حادثوں سے ہی سیکھا ہے بلکہ حوادث قوموں کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن ہم ایک حادثے کے بعد دوسرے حادثے کے منتظر رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بھی مشہور ہے کہ حادثے ہوتے نہیں بلکہ اپنے مفادات کیلئے کروائے جاتے ہیں۔بقول شاعر:
رنگینیٔ حیات بڑھانے کے واسطے
پڑتی ہے حادثوں کی ضرورت کبھی کبھی
خان صاحب کی جدوجہد کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ بظاہر طوفان کی مخالف سمت میں کھڑے ہیں۔ کیا وہ طوفان گزرنے تک یونہی کھڑے رہیں گے یا جو وہ ظاہر کر رہے ہیں‘ اس کے پیچھے الگ ہی کہانی ہے؟ ہمارے خدشات کی وجہ خان صاحب کا ماضی ہے۔ خان صاحب جن کے سہارے اقتدار تک پہنچے تھے کیا اب وہ انہی کے خلاف کھڑے رہ سکیں گے؟