توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری عمل میں آئی تو ایک طبقے کی طرف سے کہا گیا کہ کیس کمزور ہے‘ اپیل میں اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف مل جائے گا۔ اگر توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو ریلیف مل بھی جاتا ہے تو باقی مقدمات کا کیا ہو گا؟ فارن فنڈنگ اور القادر ٹرسٹ کیس کی تلوار اب بھی لٹک رہی ہے جس سے بچ نکلنا مشکل ہو گا۔ آنے والے حالات کا منظر نامہ یہی دکھائی دے رہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کسی نہ کسی مقدمے میں زیر حراست رہیں گے اور دیگر مقدمات کی سماعت جیل میں ہی ہو گی۔ گرفتاری سے یہ تبدیلی آئی ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک شجر ممنوعہ سمجھنے جانے والے اب قانون کے سامنے سرنگوں ہیں۔ ذرا تصور کریں‘ جب پولیس کا زمان پارک کے قریب جانا بھی مشکل بنا دیا گیا تھا‘ سینکڑوں کارکنان اور پارٹی رہنماؤں کو چیئرمین پی ٹی آئی کی حفاظت پر مامور کیا گیا اور ٹکٹ کو پہرہ داری سے مشروط کیا گیا۔ پولیس متعدد بار گرفتاری کے وارنٹ لے کر پہنچی مگر شدید مزاحمت کے بعد ناکام لوٹی۔ یہ تاثر دیا گیا کہ چونکہ چیئرمین پی ٹی آئی مقبول لیڈر ہیں‘ اس لیے انہیں گرفتار کرنا مشکل ہے۔ نو مئی کے بعد مگر حالات بدلے اور پانچ اگست کو بغیر کسی مزاحمت کے ان کی گرفتاری عمل میں آ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں کی جانے والی غلطیوں کی قیمت سود سمیت چکانا پڑتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چیئرمین پی ٹی آئی نے سیاسی غلطیوں کی کوئی قیمت نہیں چکائی تھی۔ اقتدار میں رہتے ہوئے وہ دھڑلے اور پورے اعتماد کے ساتھ ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرتے رہے۔ توشہ خانہ کیس کو ہی دیکھ لیں‘ انہوں نے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود ہی قیمت مقرر کرکے انہیں خرید لیا حالانکہ قانون کی رُو سے تحائف کی قیمت کا تخمینہ متعلقہ کمیٹی لگاتی ہے۔ تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا گیا‘ یہ خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ قارئین یاد کر سکیں تو میاں نواز شریف کو بھی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپانے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ آپ دوسروں سے مختلف ہیں پھر آپ نے موقع ملتے ہی بہتی گنگا میں اشنان کیوں شروع کر دیا‘ غالباً ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے آپ پُراعتماد تھے کہ کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ معاملہ تحائف چھپانے کا نہیں بلکہ اس خود اعتمادی کا ہے جو اہلِ سیاست اکثر اقتدار میں آنے کے بعد دکھاتے ہیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کے پاس اپیل کا حق موجود ہے ورنہ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کے پاس اپیل کا حق بھی نہیں تھا کیونکہ انہیں سپریم کورٹ نے سزا سنائی تھی جبکہ آپ کو ٹرائل کورٹ نے سزا سنائی ہے‘ آپ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری اور نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد انتخابات مقررہ مدت پر یقینی طور پہ نہیں ہوں گے‘ طے یہ ہونا ہے کہ تین ماہ میں نہیں ہوں گے یا دو سال تک نہیں ہوں گے۔ نگران حکومتیں طویل عرصہ تک معاملات نہیں چلا سکیں گی‘ اسمبلی کی عدم موجودگی میں قانون سازی نہیں ہو سکے گی‘ اس لیے معاملات بہت ہی گمبھیر ہو جائیں گے اور عملی طور پہ حکومت مقتدرہ کی ہو گی۔ ماضی کے تجربات اور دنیا کی تاریخ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کہیں بھی کوئی بھی ایسی حکومت کبھی کامیاب نہیں ہوئی جسے براہِ راست یا پوشیدہ شکل میں مقتدرہ چلائے۔ اس ملک کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وقت پہ انتخابات ہو جائیں اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہانتخابات منصفانہ ہوں۔ گو کہ ایک سیاسی جماعت کی انتخابات میں ممکنہ عدم شمولیت سے انتخابات کے منصفانہ ہونے پہ سوال تو پہلے ہی اٹھ چکا ہے لیکن بچے کھچے نظام میں گڑ بڑ نہ کی جائے اور جو بھی جیتے اسے خود حکومت بنانے دی جائے تو کچھ نہ کچھ سسٹم چل پڑے گا۔ ماضی کے تجربات کی طرح ٹیکنوکریٹ کی حکومت کا تجربہ بھی ناکام ہو گا کیونکہ غیر آئینی حکومت دنیا میں پہلے کہیں کامیاب ہوئی ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی کامیاب ہو جائے گی لیکن ایسا ممکن نہیں‘ جس سیٹ اَپ کی بنیاد ہی غیرآئینی اور نظریۂ ضرورت پہ ہو تو وہ کوئی بھی ضرورت پوری نہیں کرے گا۔
پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی گرفتاری کے بعد پارٹی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ نااہل شدہ لیڈر نے قیادت پیدا ہی نہیں ہونے دی اور اب جو قیادت رہ گئی ہے اس پر کوئی اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں۔ شاہ محمود قریشی پہ پہلے ہی پی ٹی آئی لیڈر کو شک ہے۔ اسی طرح چوہدری پرویز الٰہی کو بھی قیادت نہیں سونپی جائے گی۔ ابھی تو الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کا کہا ہوا ہے جو اب ممکن نہیں‘ اس کا مطلب یہ کہ پارٹی تو اس بنیاد پہ بھی الیکشن سے باہر ہو جائے گی اور موجودہ انتخابی نشان بھی واپس لے لیا جائے گا۔ فارن فنڈنگ کیس بھی واضح کیس ہے اور اس میں بھی پی ٹی آئی لیڈر کا بچنا انتہائی مشکل ہے۔ فارن فنڈنگ ہو یا القادر ٹرسٹ کیس‘ ایک عام آدمی کو بھی سمجھ آتی ہے کہ کرپشن ہوئی ہے۔ سائفر کے معاملے پر سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر نو مئی کے واقعات میں تو کم و بیش ساری پی ٹی آئی لیڈر شپ ہی ملوث نظر آتی ہے۔ اس لیے اگلے چار پانچ سال پی ٹی آئی کا مستقبل زیادہ تابناک نظر نہیں آ رہا۔ اگر پارٹی قائم رہی تب بھی کون ٹکٹ لے گا اور کون الیکشن لڑے گا؟ پارٹی کے اکثر سرکردہ رہنما الگ ہو چکے ہیں باقی یا جیل میں ہیں یا روپوش ہیں۔ الیکشن کے لیے تو سامنے آنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کی بحالی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جب پی ٹی آئی چیئرمین اگلے کچھ عرصہ میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیں تو ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی ہو جس میں تمام جماعتیں شامل ہوں۔
اقتدار چلے جانے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے اعتراف کیا کہ اصل حکومت کسی اور کی تھی۔ مطلب یہ کہ انہوں نے جو فیصلے کیے وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ کسی اور کی ایما پر کیے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے اعتراف میں دراصل ہمارے ہاں رائج جمہوریت کی پوری داستان موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ اہلِ سیاست بالعموم اقتدار چھن جانے کے بعد پورا سچ بولتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں جو سیاسی غلطیاں چیئرمین پی ٹی آئی نے کیں وہی غلطیاں اتحادی جماعتیں بھی کرنے جا رہی ہیں؟ عام تاثر یہ تھا کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کی قیمت بھی چکائی ہے اور ان سے سبق بھی سیکھاہے تاہم موجودہ حالات سے لگتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو ایک بار پھر دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر اس مفروضے میں صداقت ہے تو جیسے چیئرمین پی ٹی آئی آج اپنی سیاسی غلطیوں کی قیمت چکا رہے ہیں بالکل ایسے ہی کل اتحادی جماعتوں میں سے کوئی اپنی غلطیوں کی قیمت چکا رہی ہو گی۔ بروقت اور غیر متنازع انتخابات ہی دیرپا حل ہیں۔ انتخابات میں تاخیر ہرگز مسائل کا حل نہیں ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو استقامت کے ساتھ قانون کا سامنا کرنا ہو گا‘ ان کے فوری باہر آنے کے بظاہرکوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے ہیں‘ لیکن جب وہ باہر آئیں تو انہیں سیاسی جماعتوں کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔