الیکشن کمیشن نے جنوری 2024ء کے آخری ہفتے انتخابات کا اعلان کیا ہے‘ تاہم یہ حتمی تاریخ نہیں ہے کیونکہ باضابطہ تاریخ کی صورت میں باقاعدہ طور پر انتخابی عمل کا آغاز ہو جاتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن57 کے تحت پولنگ کی تاریخ کے اعلان کے بعد انتخابی شیڈول جاری کیا جانا چاہیے‘ جو پورے انتخابی عمل کو متحرک کرتا ہے۔ اس میں کاغذات ِنامزدگی جمع کرانا‘ ان کی جانچ پڑتال اور ان کے قبول یا مسترد ہونے پر فیصلے اور اپیلیں شامل ہیں۔ انتخابات کا ہر مرحلہ ایک مقررہ ٹائم لائن کے تحت مکمل کرنا ہوتا ہے‘تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کی ممکنہ تاریخ کے اعلان کا فائدہ یہ ہے کہ طویل عرصہ تک انتخابات نہ کرانے کے خدشات ٹل گئے ہیں۔بہرحال الیکشن کمیشن نے انتخابات کی جو تاریخ دی ہے اس میں عملی طور پر انتخابات ممکن دکھائی نہیں دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جلد انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابات میں جانے سے کیوں خائف ہیں اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ بے پناہ مہنگائی ہے۔ اتحادی حکومت میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کو خوف لاحق ہے کہ سولہ ماہ کی کارکردگی کے ساتھ عوام کے سامنے کیا پیش کریں ؟ الیکشن میں پی ٹی آئی کے حصہ لینے یا نہ لینے کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا‘ اس لئے بھی تمام سیاسی جماعتوں کو خوف لاحق ہے۔ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی کے بعد چونکہ سیاسی جماعتیں اور ادارے سمجھتے ہیں کہ ہر صورت الیکشن کرانا ہوں گے‘ مگر کوئی بھی فرنٹ لائن پر جا کر ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں۔ سپریم کورٹ چاہے گی کہ ایسی صورتحال میں سیاسی معاملات کو سیاستدانوں پر چھوڑ کر فیصلے کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں جانے سے پہلے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا تو کورٹ کے فیصلے کو ہر صورت تسلیم کرنا پڑے گا۔ بہرحال الیکشن ہر صورت ہوں گے‘ ممکن ہے جنوری کے آخری ہفتے کی جو تاریخ دی گئی ہے بات اس سے چند دن آگے چلی جائے‘ فروری کے آغاز میں بھی انتخابات ہو سکتے ہیں۔ ملک کے بعض شدید سردی اور برف باری والے حلقوں میں الیکشن کچھ مدت کیلئے آگے بھی جا سکتے ہیں‘ مگر الیکشن کرانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔
ادھرلندن میں ہونے والی لیگی قیادت کی بیٹھک کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ لندن سے آنے کے محض 48 گھنٹے بعد شہباز شریف اچانک دوبارہ لندن روانہ ہوگئے جس سے یہ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ وہ کوئی خاص پیغام لے کر گئے ہیں۔ لندن اجلاس کی تفصیلات تو سامنے نہیں آ سکیں البتہ میاں نواز شریف کی ملک واپسی اور ان کے جارحانہ بیانات نے نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ میاں نواز شریف نے 2017ء میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کو طے شدہ سازش کا نام دیا ہے اور اس پر وہ احتساب کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے چند روز پہلے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز سے آن لائن خطاب میں بعض سابق اعلیٰ عہدیداروں کا نام لے کر کہا تھاکہ جب تک ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اسی نشست میں میاں صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ آئندہ انتخابات وہ ہی جیتیں گے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں کچھ لوگ میاں نواز شریف کو مشورہ دے رہے ہیں کہ جارحانہ بیانیے سے گریز کریں۔ ایسی سوچ رکھنے والوں میں سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کے سخت بیانیے سے ہلچل پیدا ہوئی جس کے بعد لندن میں اجلاس طلب کیا گیا۔ ہماری دانست میں اس مفروضے میں حقیقت نہیں کیونکہ میاں نواز شریف اس بار کسی پیغام رساں پر اعتماد نہیں کر رہے‘ ان کا براہ راست رابطہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ شخصیات کے خلاف کارروائی پر با اختیار حلقوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں؛چنانچہ اگر کوئی سیاسی لیڈر ماضی کے اُن کرداروں کا نام لیتا ہے تو اس پر کسی جانب سے اعتراض کا تاثر پیدا ہونے کا امکان نہیں۔اب تو سپریم کورٹ بھی ایکٹو ہے اور فیض آباد دھرنا کیس نظر ثانی کیلئے مقرر ہو چکا ہے جس کے حقائق سامنے آنے پر بہت سے چہروں سے نقاب اتر نے کی امید ہے۔ اس کیس کا پس منظر سب جانتے ہیں کہ 2017ء میں ایک مذہبی جماعت نے جڑواں شہروں کی اہم گزرگاہ پر دھرنا دیا اور کئی روز تک راستے بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کو بہت اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالت عظمیٰ نے شہریوں کی زندگی متاثر ہونے پر ازخود نوٹس لیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی دھرنا ختم ہو گیا‘ دھرنا ختم کرانے اور احتجاجی فریق سے معاہدہ کرنے پر سوال اٹھنے لگے کہ جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے کسی اور کی جانب سے یہ اقدامات کیوں کئے گئے۔ 2021ء میں اس کیس کا تفصیلی فیصلہ آیا تو اس کیس کے فیصلے کے دو اہم نکات تھے‘ پہلا شہریوں کے حقوق سے متعلق تھا جبکہ دوسرا دھرنے کے ذمہ داروں کے متعلق ۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ حق اس وقت تک تسلیم کیا جانا چاہیے جب تک اس سے دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ اسی طرح عدالت نے اداروں کو بھی ان کے فرائض اور ذمہ داری کا احساس دلایا۔مذکورہ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج قاضی فائز عیسیٰ اب چیف جسٹس ہیں‘ 28 ستمبر کو کیس کی سماعت ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ اس کیس کا کیا فیصلہ کرتی ہے۔ بہرکیف یہ واضح ہے کہ موجودہ حالات میں اگر نواز شریف کسی سابق اعلیٰ عہدیدار کے احتساب کا مطالبہ کر تے ہیں تو اس سے کسی فرد یا افراد کے قانون سے ماورا ہونے کا تاثر بھی ختم ہو گا اور اس نقطہ نظرسے اس مطالبے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
میاں نواز شریف اب جبکہ احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اس موقع پر ان کا ملک میں موجود ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لئے اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سپریم کورٹ سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد نواز شریف شاید واپس آنے کا فیصلہ مؤخر کر دیں۔ جب الیکشن طے ہیں تو میاں نواز شریف کی واپسی بھی لازمی ہو نی چاہیے‘ بھلے انہیں مقدمات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے یا جیل جانا پڑے۔ ان حالات میں اگر وہ واپس نہیں آتے ہیں تو یہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا۔مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کی سولہ ماہ کی کارکردگی چونکہ تسلی بخش نہیں‘ جس کا ادراک لیگی قیادت کو بھی ہے‘ اس لئے میاں نواز شریف اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ ناانصافی کو بیانیہ بنا کر سیاسی مہم کا حصہ بنانا چاہتے ہیں‘ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جب سیاسی قیادت کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر شواہد کے ساتھ ماضی کے بعض بڑے کرداروں کے احتساب کا مطالبہ کر رہی ہے۔