گلگت بلتستان سے راولپنڈی آنے والی بس پر ہفتے کی شب چلاس میں شدت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں دو فوجیوں سمیت 9افراد شہید جبکہ 27 زخمی ہو گئے۔ بس ڈرائیور فائرنگ کے باوجود ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل بس چلاتا رہا لیکن پھر یہ سامنے سے آنیوالے ٹرک میں جا ٹکرائی جس سے ٹرک میں آگ بھڑک اٹھی۔ اگر ڈرائیور جرأت کا مظاہرہ نہ کرتا تو زیادہ جانی نقصان کا اندیشہ تھا۔ یہ حملہ اُس دہشت گردی کا تسلسل ہے جو کئی دہائیوں سے ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔ دراصل پاکستان دہشت گردی کے چیلنجز سے1980ء کی دہائی کے اواخر سے ہی نبرد آزما ہے‘ تاہم اس مسئلے نے شدت 2001ء میں نائن الیون کے حملوں کے بعد اختیار کی۔ 2007ء سے2014ء تک ملک میں دہشت گردی میں تیزی آئی۔ اس دوران سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات 2009ء میں ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ جونہی افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہو گا‘ پاکستان میں بھی امن قائم ہو جائے گا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی ایسے ہی تجزیے کیے گئے‘ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ گزشتہ ماہ‘ نومبر میں دہشت گردی کے واقعات میں اکتوبر کے مقابلے میں 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف ایک ماہ کے دوران 63 دہشت گرد حملوں میں 83 افراد جاں بحق ہو گئے۔
ملک میں بعض حلقوں کو زعم تھا کہ افغان طالبان دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان کا ساتھ دیں گے‘ سو اس حوالے سے طالبان کی عبوری حکومت کے سامنے ٹھوس شواہد رکھتے ہوئے یہ کوشش بھی کر کے دیکھ لی گئی مگر کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہ ہوا۔ پھر یہ خیال آیا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے لہٰذا پاکستان کے جید علما کو افغان طالبان کی قیادت سے مذاکرات کیلئے بھیجا جائے کیونکہ بہت سے افغان طالبان رہنما پاکستان کے مدارس سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کیلئے مفتی تقی عثمانی صاحب کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح وفد افغانستان گیا مگر دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہ آئی۔ دہشت گردی کے واقعات میں چونکہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی شہریوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود تھے‘ اس لیے غیرقانونی شہریوں کو ملک سے بے دخل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اگرچہ اس فیصلے پر افغانستان نے ناگواری کا اظہار کیا مگر پاکستان نے اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اس فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔ غیرقانونی افغان شہریوں کی وطن واپسی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ لیکن اسکے باوجود دہشت گردی کے واقعات تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دہشت گردی کے عوامل کیا ہیں اور اس کا مستقل سدباب کیسے ہو سکتا ہے؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستانی معیشت پر گہرا اثر ڈالا ہے‘ جس سے اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات سے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے بلکہ معیشت کے مختلف شعبوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ 2001ء سے2023ء تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو مجموعی طور پر تقریباً 150ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دہشت گردی سے اگرچہ ہمارا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے‘ لیکن عالمی سطح پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اعتماد کے فقدان کا ازالہ شاید دہائیوں تک نہ ہو سکے‘ اس لیے پاکستان کی معاشی پسماندگی کی اصل وجہ دہشت گردی ہے کیونکہ جس وقت ہم دہشت گردی کا سامنا کر رہے تھے‘ بالکل اسی دورانیے میں خطے کے دیگر ممالک نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ بدامنی کی وجہ سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری رُک گئی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امن سرمایہ کاری کیلئے نہایت اہم ہے جب کسی ملک میں امن و امان کا ماحول ہوتا ہے تو سرمایہ کار اپنے پیسے اور خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور وہ ملک میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ملک کی معیشت ترقی کرتی ہے۔ اس کے برعکس جب کسی ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی ہے تو سرمایہ کار پیسہ لگانے سے گریز کرتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں اس ملک کی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ دہشت گردی کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص متاثر ہوا تو سیاحت کے لیے پاکستان آنے والوں کی تعداد کم ہو گئی جس سے پاکستان کو ہر سال اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات سے ملکی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی۔ ملکی مصنوعات کی عالمی مارکیٹ میں مانگ کم ہو گئی۔ ہم لاکھ تسلیاں دیتے رہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے سازگار ملک ہے لیکن سرمایہ کار ہماری بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھے‘ یہاں تک کہ برادر اسلامی ممالک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہ تھے۔ اس بات سے اندازہ کیجئے کہ گلف کوآپریشن کونسل (GCC) نے 19برس سے زیر التوا تجارتی معاہدے کی اب توثیق کی ہے۔ جی سی سی میں سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ عمان‘ قطر اور کویت شامل ہیں۔ اگست 2004ء میں پاکستان اور جی سی سی نے ایک آزاد تجارتی معاہدہ کر نے کے امکانات پیدا کرنے کے لیے ایک فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے تھے‘ تاہم اس کے بعد چند ایک مذاکراتی دور ہی ہو سکے۔ اب خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرانے میں عسکری قیادت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرمایہ کار محفوظ ماحول کی ضمانت کے بعد آمادہ ہوئے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو دہشت گردی نے ملکی معیشت پر مجموعی طور پر منفی اثر ڈالا ہے اور معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ افواجِ پاکستان شدت پسند عناصر کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر برسرپیکار ہیں اور اس سلسلے میں قبائلی اضلاع سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں آپریشنز بھی ہوئے لیکن اب بھی ملک میں دہشت گردوں کی کارروائیاں جاری ہیں۔ افغانستان میں جب امریکی سرپرستی میں نیٹو افواج موجود تھیں تو اسے پراکسی وار کا نام دیا گیا اور یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ جونہی افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا ہو گا‘ پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا لیکن افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے باوجود پاکستان میں بدامنی برقرار ہے جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے وہ خفیہ عناصر سرگرم ہیں جو پاکستان کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے۔ عالمی منظر نامے میں پاکستان مسلم امہ کیلئے مؤثر آواز ہے کیونکہ پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے‘ استعماری قوتیں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ معاشی طور پر مستحکم پاکستان ان کیلئے کتنا بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔ہمارے ہاں بالعموم معاشی معاملات سے لے کر ہر ناکامی کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہرانے کی روایت پائی جاتی ہے۔ منتخب عوامی نمائندوں کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی چاہیے مگر جب تک ہم بیرونی عوامل کو تلاش کرکے اس کا سدباب نہیں کریں گے‘ ہم مسائل کے گرداب سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے جب بھی حالات سازگار ہوتے ہیں تو سکیورٹی مسائل شدت اختیار کر جاتے ہیں؟ گورنر خیبر پختونخوا امن و امان کی خراب صورتحال میں انتخابات کے انعقاد کو مشکل قرار دے رہے ہیں۔ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد انتخابی سرگرمیاں بڑھنے سے سکیورٹی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس موقع پر نگران حکومت بیرونی سرمایہ کاری پر توجہ مبذول کیے ہوئے ہے اور سکیورٹی فورسز مختلف محاذوں پر مصروف ہیں۔ ان چیلنجز کی موجودگی میں اہداف کا حصول آسان نہیں رہے گا۔ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے سول و عسکری قیادت کی کوششیں لائقِ تحسین ہیں مگر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ سرمایہ کاری کیلئے سکیورٹی چیلنجز کا مستقل حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ بڑی جدوجہد کے بعد سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے متوجہ ہوئے ہیں جنہیں سازگار و محفوظ ماحول فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔