"RS" (space) message & send to 7575

داعش‘ دنیا کے لیے مشترکہ چیلنج

دنیا عراق پر امریکی حملے کے بعدشدت پسند گروہ داعش سے متعارف ہوئی۔ دھیرے دھیرے یہ گروہ عراق اور شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے لگا۔ 2014ء میں داعش نے عراق اور شام کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا اور اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس دوران داعش نے بے رحمانہ تشدد کا مظاہرہ کیا۔ اس کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی وحشیانہ کارروائیاں اور اُن کی تشہیر ہے۔ داعش نے جدید ٹیکنالوجی‘ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسندی کے نظریات پھیلائے اور نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل ہونے کیلئے اُکسایا۔ اس نے دنیا بھر میں حملے کرکے خوف کا ماحول پیدا کیا اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ ایک ناقابلِ شکست قوت ہے۔ چند سال پہلے تک داعش کو صرف مشرقِ وسطیٰ کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا تھا مگر اس نے کچھ ہی عرصے میں ایشیائی اور مغربی ممالک تک دائرہ کار بڑھا لیاہے۔ ترقی یافتہ ممالک عام طور پر یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ جغرافیائی طور پر داعش کے زیر اثر علاقوں سے دور ہیں اس لیے ان پر براہِ راست حملے کا خطرہ کم ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انکے پاس مضبوط انٹیلی جنس ایجنسیاں اور سکیورٹی فورسز ہیں جو کسی بھی بڑے حملے کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ ممالک اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ ترقی یافتہ معاشروں میں داعش کے انتہا پسندانہ نظریات کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہو گی مگر روسی دارالحکومت ماسکو میں ایک کنسرٹ ہال میں اندوہناک فائرنگ کا واقعہ ترقی یافتہ ممالک میں پائی جانیوالی اس سوچ کی تردید کرتا ہے۔ 2015ء میں پیرس میں ایک کنسرٹ ہال‘ فٹ بال سٹیڈیم اور دیگرمقامات پر داعش سے وابستہ شدت پسندوں کے حملوں میں 130 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2016ء میں برسلز کے ایئر پورٹ اور ایک میٹرو سٹیشن پر داعش کے خودکش حملوں میں 32 افراد مارے گئے۔ 2017ء میں مانچسٹر ارینا میں ایک کنسرٹ کے دوران داعش سے وابستہ حملہ آور نے خود کو بم سے اُڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس لیے یہ سوچ سراسر غلط ہے کہ داعش صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود دہشت گرد تنظیم ہے۔ یہ گروہ دنیا بھر میں اپنی نام نہاد خلافت قائم کرنے کیلئے کوشاں ہے اور اس مقصد کیلئے وہ دنیا کے کسی بھی گوشے کو نشانہ بنا سکتا ہے‘ لہٰذا یہ سمجھنا غلطی ہو گی کہ ترقی یافتہ ممالک داعش کے خطرے سے محفوظ ہیں۔
یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ افغانستان میں داعش مضبوط ہو کر نہ صرف اس ملک بلکہ پورے خطے کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ داعش افغانستان میں نئی ہے۔ داعش کا ایک گروہ جسے داعش خراسان کہا جاتا ہے‘ افغانستان میں پہلے سے موجود ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور داعش خراسان درحقیقت ایک ہی گروہ ہے اور حالیہ عرصے میں اس گروہ کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ داعش کے افغانستان میں مضبوط ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ اور عدم استحکام داعش جیسے شدت پسند گروہوں کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے داعش حکومت مخالف گروہوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے۔ داعش نے افغانستان کے بعض علاقوں‘ خاص طور پر مشرق اور جنوب مشرق میں اپنی موجودگی مضبوط کر لی ہے۔ افغانستان میں داعش کا بڑھتا ہوا اثر نہ صرف اس ملک بلکہ پورے خطے کیلئے خطرناک ہے۔ داعش کی کارروائیاں افغانستان میں عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتی ہیں اور خطے میں نئی لڑائیوں کا آغاز بھی کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ داعش خطے کے دیگر ممالک میں بھی پھیلنے کی کوشش کر سکتی ہے جس سے پورے خطے کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ یہ صورتحال افغانستان کے پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی برادری کیلئے بھی ایک سنگین چیلنج ہے اس لیے داعش کے خلاف لڑنے کیلئے ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ تعاون‘ انتہا پسندی کے خلاف لڑائی اور خطے میں سلامتی و استحکام لانے کی کوششیں شامل ہوں۔ اگر داعش کو افغانستان میں مضبوط ہونے سے روکا نہ گیا تو یہ نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہونے اور داعش سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کے سرگرم ہونے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت شدید متاثر ہوئی ہے۔ افغانستان کی خراب سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کمپنیاں افغانستان جانے سے کترا رہی ہیں۔ عدم استحکام کی وجہ سے بیمہ کمپنیاں افغانستان جانے والی ترسیلات کی انشورنس دینے سے گریزاں ہیں جس سے تاجروں کو مالی نقصان کا خطرہ لاحق ہے۔ ان چیلنجوں کے باوجود پاکستان افغانستان کیساتھ تجارت جاری رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔ پاکستان کی وزارتِ تجارت کا دو طرفہ تجارتی امور پر تبادلہ خیال کرنے اور پاکستان و افغانستان کے درمیان سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر ٹرانسپورٹرز اور تاجروں کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے اور مشترکہ اقدامات کرنے کیلئے اعلیٰ سطح وفد کا دورۂ کابل انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ گزشتہ کالم میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ افغانستان کی غذائی ضروریات کا بڑا حصہ پاکستان سے پورا ہوتا ہے‘ اسے افغان وزیر تجارت اخوند زادہ عبدالسلام جواد نے تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ایک سال پہلے پاکستان سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 1500 سے 2000 ٹرک افغانستان میں داخل ہوتے تھے لیکن پاکستان کے سرحدی و تجارتی حکام کی جانب سے غیرضروری پابندیوں اور نئے قوانین نے کاروبار کو تقریباً ناممکن بنا دیا جس سے افغانستان آنے والے پاکستانی ٹرکوں کی تعداد تقریباً 700 تک محدود ہو گئی ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ پاکستان سے جانے والے کنٹینرز کی تعداد کا کم ہونا افغانستان کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ بظاہر افغان قیادت پاکستان کے ساتھ تجارت کی خواہاں ہے مگر جب تک سلگتے مسائل حل نہیں کرلیے جاتے‘ تجارت کو فروغ دینا مشکل ہو گا۔ افغان قیادت کو اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ امن پر اتفاقِ رائے کے بغیر تجارت جاری رکھنا ممکن نہیں۔ افغان سرزمین پر مسلح گروہوں کی موجودگی بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جو کسی بھی وقت کارروائی کرکے دوطرفہ تعلقات کو سبوتاژ کر سکتے ہیں‘ سو تجارتی روابط ضرور بڑھائیں مگر سلگتے ہوئے مسائل کو پہلے مرحلے میں حل کرنے کی کوشش کریں۔
افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی آر ٹی اے کے ایکس اکاؤنٹ پر افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبۃ اللہ اخونزادہ کے آڈیو بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نامساعد حالات کے باوجود اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ''ہم اہلِ مغرب کو کہتے ہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ 20 سال جنگ کی ہے اور مزید 20 سال بلکہ اس سے بھی زیادہ لڑ سکتے ہیں... آپ کے نزدیک عورت کو پتھروں سے مارنا اس کے حقوق کا سلب ہونا ہے‘ ہم تو آنے والے وقت میں رجم (سنگسار) کی سزا بھی دیں گے۔ ہم حدود نافذ کریں گے اور کوڑے ماریں گے‘ یہ سب کچھ آپ کی جمہوریت کے خلاف ہے‘‘۔ چونکہ طالبان اور داعش دونوں اسلامی نظام کے نفاذ کا دعویٰ کرتے ہیں‘ یہی امر انہیں مشترکہ مؤقف پر جمع کرتا ہے۔ افغانستان میں موجود دیگر مسلح گروہوں کا بھی یہی مؤقف ہے اس لیے شدت پسند تنظیموں کے خلاف لڑائی ایک پیچیدہ چیلنج ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش کے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر ہم انہیں عالمی مسئلہ اور مشترکہ چیلنج قرار دیتے ہیں جس کا مقابلہ کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک نے داعش کے خطرے کو محسوس نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ ممالک بھی اسی طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں ہوں گے جس طرح آج پاکستان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں