قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلیوں کی جن 16نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوا اس میں پنجاب اسمبلی کی 12جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کی دو‘ دو نشستیں شامل تھیں۔ ضمنی الیکشن کے اگرچہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر کوئی اثرات نہیں ہوں گے ‘تاہم نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں پر جس پارٹی کی حکومت تھی اسے وہاں کامیابی حاصل ہوئی۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں میں سے ( ن) لیگ دو نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے‘ جبکہ پیپلز پارٹی ایک حلقے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی جانب سے چھوڑی گئی سیٹ پر سنی اتحاد کونسل کے امیدوار اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بھائی فیصل امین گنڈا پور کامیاب ہوئے ہیں۔ ان نشستوں کے نتائج کو دیکھا جائے تو قومی انتخابات میں جس پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی اور بعدازاں ایک سیٹ کے علاوہ باقی سیٹیں چھوڑنی پڑی تھیں‘ اسی جماعت نے ضمنی الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں کا احوال کچھ یوں ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے این اے 44پر عام انتخابات میں علی امین گنڈا پور نے مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی‘ بعدازاں انہوں نے صوبائی نشست رکھ لی اور قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے ‘ اب اس نشست پر علی امین گنڈا پور کے بھائی کامیاب قرار پائے ہیں۔ان کے مدمقابل پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالرشید خان کنڈی دوسرے نمبر پر رہے ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف نے ڈی آئی خان سے درحقیقت اپنی ہی سیٹ واپس حاصل کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے این اے 194 لاڑکانہ کی نشست برقرار رکھی اور این اے 196 قمبر شہداد کوٹ کی نشست خالی کر دی‘اب پیپلز پارٹی کے خورشید احمد جونیجو نے اس نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 119سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کامیابی حاصل کی تھی‘ اُن کے مدمقابل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہزاد فاروق تھے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد مریم نواز نے این اے 119 کی نشست خالی کر دی۔ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے علی پرویز اسی نشست پر کامیاب ہوئے ہیں۔یوں اس نشست پر بھی کچھ نیا نہیں ہوا۔ قصور سے این اے 132 کی نشست میاں شہباز شریف نے جیتی تھی‘ اُن کے مدمقابل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سردار محمد حسین ڈوگر تھے۔وزیر اعظم شہبازشریف نے باقی نشستیں چھوڑ کر لاہور این اے 123 کی نشست برقرار رکھی۔ اب مسلم لیگ (ن) نے اپنی جیتی ہوئی نشست پر دوبارہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس نشست پر بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے ملک رشید احمد خان عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گئے تھے‘ مگر لیگی امیدوار نے ضمنی انتخاب میں بھاری مارجن سے کامیابی حاصل کی ہے۔
البتہ این اے 8 باجوڑ کے نتائج پی ٹی آئی کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں۔ عام انتخابات میں باجوڑ کے حلقہ این اے 8 کے امیدوار ریحان زیب کے قتل کی وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی پر الیکشن ملتوی ہوگیا تھا۔ اس نشست پر مقتول ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب نے آزاد حیثیت میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پی ٹی آئی مبارک زیب کی جیت کو اپنی فتح قرار دے رہی ہے حالانکہ پی ٹی آئی نے باجوڑ میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پارٹی کے مقتول کارکن ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب کے خلاف گل ظفر خان کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔پی ٹی آئی سے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد مبارک زیب نے علی امین گنڈاپور سمیت پی ٹی آئی قیادت کے خلاف بیان بھی دیا تھا اورپی ٹی آئی امیدوار کے خلاف انتخابی میدان میں اترنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ الیکشن نہ لڑنے کے بدلے انہیں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے سات کروڑ روپے اور سرکاری نوکری کی آفر کی گئی تھی۔غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اسمبلی کی 12 میں سے 10 سیٹوں پر برتری حاصل ہوئی ہے جبکہ اتحادی جماعتیں( ق) لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی نے بھی ایک ایک صوبائی نشست حاصل کی ہے۔ اس تناظر میں جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ضمنی الیکشن کا ایک مرحلہ تھا جو گزر گیا‘ جس سے قومی و صوبائی حکومتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ تحریک انصاف‘ جو عام انتخابات کی شفافیت پر اعتراض کر رہی تھی‘ اسے اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کیلئے نئے مواقع ضرور حاصل ہو گئے ہیں۔
ایسے موقع پر جب پاکستان معاشی بحران سے نکلنے کیلئے بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کوشاں ہے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا وزیر خارجہ‘ کابینہ اراکین‘ اعلیٰ حکام اور تجارتی وفدکے ساتھ دورۂ پاکستان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ایرانی صدر کا دورہ اگرچہ پہلے سے طے شدہ ہے لیکن کچھ ممالک اس دورہ کو خطے کے حالات کے تناظر میں دیکھیں گے۔ ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو تبدیل ہوتے حالات ہماری خارجہ پالیسی پر بھی اثرانداز ہوتے تھے‘ تاہم اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ریاست کے وسیع تر مفاد میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔ پاک ایران تعلقات کئی حوالوں سے ہمارے لیے مفید ہیں۔ گیس پائپ لائن منصوبے ہی کو دیکھا جائے تو ہماری بڑی مشکل اس منصوبے کی تکمیل سے حل ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان توانائی کی شدید کمی سے دوچار ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی ترقی کیلئے توانائی کی دستیابی ہمارے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایران سے درآمد کی جانے والی قدرتی گیس توانائی کے حصول کاایک قابلِ اعتماد اور سستا ذریعہ ثابت ہو گی۔ اس سے نہ صرف بجلی کی پیداوار کا خرچہ کم ہو گا بلکہ گھریلو اور صنعتی استعمال کیلئے بھی گیس کی دستیابی میں اضافہ ہو گا۔ سستی توانائی کا مطلب ہے کم لاگت والی پیداوار‘ اس سے ہماری صنعتوں کی بین الاقوامی سطح پر مسابقت کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہو گا‘ نئے کاروبار قائم ہوں گے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا اور مجموعی طور پر ملکی معیشت کو فروغ ملے گا اور ہماری زندگیوں کا معیار بلند ہو گا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ صرف پاکستان اور ایران کیلئے ہی فائدہ مند نہیں‘ پورے خطے کیلئے اس کے مثبت اثرات ہوں گے۔ یہ منصوبہ خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دے گا اور علاقائی تعاون اور اتحاد کو مضبوط کرے گا۔ ایران ہمارا اہم پڑوسی ملک ہے۔ اس منصوبے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بھی اضافہ ہو گا اور اعتماد پیدا ہو گا۔ یہ خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے میں بھی مدد دے گا۔
ان حقائق کے ساتھ ساتھ یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ اس منصوبے کے کچھ چیلنجز اور خدشات بھی ہیں۔ یہ خدشہ موجود ہے کہ امریکہ اس منصوبے کی مخالفت کر سکتا ہے کیونکہ امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں‘ تاہم پاکستان حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد میں فیصلے کرنے کا حق رکھتی ہے۔ کچھ لوگوں کو ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں بھی خدشات ہیں‘تاہم جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان خدشات کو دور کیا جا سکتا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایک ایسا موقع ہے جسے ہمیں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ منصوبہ نہ صرف ہماری معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے بلکہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بھی مضبوط بنا سکتا ہے۔ ہمیں اس منصوبے کو آگے بڑھانے کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے اور روشن مستقبل کی تعمیر کرنی چاہیے۔ امریکہ کے ساتھ کشیدگی پیدا کیے بغیر بہترین سفارتکاری سے اس مسئلے کو حل کرنا اہم ہو گا۔