جب سیاسی‘ سماجی اور معاشی حالات ابتر ہوں اور ہر طرف گھس بیٹھیوں کا راج ہو تو کس کا جی چاہے گا کہ اَن گنت اور دیکھنے میں نہ قابلِ حل مسائل میں سر کھپاتا رہے۔ ابرار الحق نے کیا کمال کی فقرہ بندی کی ہے اور کیسا لیبل لگایا ہے۔ اس سے میں اتفاق کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس کررہا ہوں کہ ہم کمزور دل لوگ ہیں‘ طاقتور احباب کو ہم ابرارالحق کے لیے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ بے شک یورپ‘ امریکہ اور چین سے کوئی کیمیکل لے آئیں‘ اب یہ ماتھے پر چپکا ہوا لیبل اتر نہیں سکے گا۔ تاریخ کے صفحوں پر جلی حروف سے درج ہو چکا ہے۔ ہماری ساری قوم جس کرب اور ہیجان سے گزررہی ہے وہ آپ جانتے ہی ہوں گے۔ استاد اگر پڑھانے میں لذت محسوس کرتے ہیں اور اس ذمہ داری کے تمام پہلوئوں کا خلوصِ نیت سے خیال رکھتے ہیں تو شاید سر کھجانے کی بھی فرصت نہ ملے۔ تقریباًپچاس سال سے ایک ہی کام کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہر کلا س کی تیاری کی ضرورت ہے۔ مزید پڑھنا لازم ہے کیوں کہ ہر موضوع پر نئے لکھنے والے اور نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ دو گھنٹے کی دن میں دو کلاسیں ہوں تو کلاس روم سے باہر نکلتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی روح اور جسم کا رشتہ منقطع ہوجائے گا۔ شاید عمر کا تقاضا ہے کہ بہت تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوان استاد بھی یہی کہتے ہیں۔ طلبہ کو مشورے دینے کے لیے دفتری اوقات‘ جامعہ کی طرف سے کچھ انتظامی ذمہ داریاں اور ہر روز کوئی سیمینار‘ کانفرنس اور مکالمے بھی جاری رہتے ہیں۔
دنیا میں ایک روایت یہ پڑ چکی ہے کہ تعلیمی سال کا دورانیہ نو ماہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور اس دوران بھی کم از کم دو وقفے ضرور ہوں۔ مغرب میں تو دسمبر کا آخری عشرہ اور جنوری کے تقریباً پہلے دو ہفتے چھٹیوں کے ہوتے ہیں۔ اس میں کرسمس کی سرگرمیاں‘ نئے سال کی آمد‘ چھوٹے دن‘ لمبی راتیں‘ پارٹیاں‘ گھرسجانے‘ دوستوں اور رشتہ داروں سے ملاقاتیں کرنے میں صرف ہوجاتے ہیں۔ جاڑے کے دنوں میں ہمارا اپنا شیڈول اس سے مختلف نہیں۔ بھلا ہو ہماری جامعہ کا کہ ہر کام وقت پر شروع ہوجاتا ہے‘ اور وقت پر ختم ہوتا ہے‘ اس لیے ہمیں سال کے دو سمسٹروں کے درمیان ایک ماہ کی چھٹی مل جاتی ہے۔ ہم اپنے آپ کو تازہ کرنے کے کے لیے دریائے سندھ کا رخ کرتے ہیں۔ آج کل اپنے خود اگائے ہوئے جنگل کے وسط میں جھونپڑی میں کتابوں کو صاف اور ترتیب سے رکھنے کی مشق کررہے ہیں۔ جاڑوں کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھنا کس کو اچھا نہیں لگتا۔ ایسا اچھا موسم ہمیں اور کہاں ملے گا۔ اور ساتھ اگر کچھ مالٹوں کے پودے بھی لگے ہوئے ہوں۔ اس دفعہ تو عجیب ہوا ہے کہ پودے تو بڑے ہوگئے ہیں مگر پھل بازار سے خریدکرلاتے ہیں۔اس علاقے میں سب کا یہی حال ہے۔ موسمی اثرات سے کوئی محفوظ نہیں رہتا۔ ہمیں تو مغرب میں رہنے کا وسیع تجربہ ہے۔ نہ جانے کتنے جاڑے وہاں گزرے۔ وہاں سردی ہمارے جیسے لوگوں کی ہڈیوں سے بھی پار ہوجاتی ہے۔ جب برف پر چلتے اور برفیلی ہوا میں سانس لیتے تو وطن کی یاد اور بڑھ جاتی تھی۔ ہم کتنے خوش قسمت ہیں‘ کتنی اچھی ہماری زمین‘ ہمارے دریائوں کا پانی اور چار موسم ہیں۔ کیا کچھ نہیں اُگا سکتے‘ اور کیا کچھ یہاں پیدا نہیں ہوتا۔ اس موسم میں ساگ‘ مولیاں‘ شلجم اور پالک اپنے ہی کھاتے ہیں۔ کسی کھاد یا دوائی کے بغیر اُگے ہوئے۔ سبزیاں اور خصوصاً سردیوں کی سبزیاں اگانے میں کچھ بھی نہیں کرنا ہوتا‘ صرف کچھ زمین صاف کرکے بیج ڈال دیں اور پانی لگاتے رہیں۔ باقی موسم پر چھوڑ دیں۔ جاڑوں کے دنوں میں ہم زیادہ تر ان سبزیوں پر ہی گزارہ کرتے ہیں، بلکہ عیاشی کرتے ہیں۔ دیہات میں جائیں تو لوگوں کوبغیر مانگے مشورہ دیتے ہیں کہ کھیتوں کے کناروں پر کچھ شلجم‘ مولی اور سرسوں کے بیج ڈال دیں آپ کی گندم کی فصل کو کچھ نہیں ہوگا۔ بہت کم ہیں جو ہم درویشوں کی باتوں پر غور کرتے ہیں۔ ہم جیسے سیاست پر بات کرنے سے باز نہیں آتے۔ آسان اور سادہ زندگی گزارنے پر کیوں خاموش ہوجاتے ہیں ؟ یقین جانیں جو مزہ ہمیں دال اور سبزی کھانے میں آتا ہے پُر تکلف دستر خوانوں میں نہیں آتا۔
ہمارے دیہات میں تب گوشت خوری بالکل نہیں تھی۔ اکثر شادیاں بھی سادہ ہوا کرتی تھیں۔ فقط گڑ والے چاول‘ زردہ یا کچھ سبزی روٹی‘ کبھی کبھار گوشت بھی پکتا‘ سارے گھر کے لیے صرف ایک پائو‘ اور ہماری اماں اس میں بھی موسمی سبزی کی بھرمار کرتیں۔ گندم جس اندازمیں آج کے زمانے میں کھائی جا رہی ہے‘ آج سے چالیس سال پہلے تو ہمارے ہاں صرف چند ہی ماہ چلتی تھی‘ باقی مہینوں میں جوار‘ باجرہ اور چاول کی روٹی بناتے۔ جاڑوں میں تو باجرہ اور سرسوں کا ساگ کئی دن تواتر سے دوپہر اور شام کو موجود ہوتے۔ تقریباً سارے علاقے میں یہی سادگی تھی۔ کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی کو شوگر‘ فشارِ خون یا کوئی اور دل کی بیماری ہے۔ لسی کے مٹکے تھے۔ دالیں مقامی طور پر ہی اگائی جاتی تھیں۔ مرغیاں گھر وں میں پالتے تھے۔ انڈے بھی اورکبھی کبھار مرغی کا گوشت بھی مل جاتا۔ زمانہ بدل گیا ہے لیکن لوگ ابھی نہیں بدلے‘ نہ بدلنے کا خیال ہے۔ یہ بات تو وثوق سے کہتا ہوں کہ امریکہ ہو یا یورپ‘ دانش منداور ماحول دوست لوگوں کا رجحا ن سادگی کی طرف ہے۔ سادہ کھانا اور آسان زندگی گزارنا بھی فن ہے‘ جسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جو عادتیں راسخ ہوجاتی ہیں انہیں تبدیل کرنا آسان نہیں۔ ہمارا جو بھی شہر ہو‘ روزانہ فرصت کے وقت کہیں چل کر کچھ دیر کے لیے الگ ضرور بیٹھتے ہیں۔ کوئی کتاب پڑھ لی‘گھر میں پھول لگا لیے‘ لگے ہوئے ہیں تو ایک ایک کے قریب جا کر ان کی رنگت‘ خوشبو اور نزاکت کی دنیا میں کھو گئے۔ جو بھی موسم ہو اس کا اپنا مزہ ہے۔ ساری دنیا کو اس بیکار نمود و نمائش‘مسابقت اور دولت جمع کرنے کے جنون سے باہر آناچاہیے۔ اس جنون نے زندگی کو نڈھال کر رکھا ہے۔
سادہ فطری زندگی گزارنے کا ڈھنگ ہم صنعتی دور میں بھول چکے ہیں۔ تنہائی اور فرصت کی ہمیں اب قدر نہیں رہی۔ رفاقتیں‘ دوستیاں اور ملنا جلنا بھی ضروری ہے مگر اپنے لیے وقت نکالنا اور مشاغل میں کھوجانا زندگی کا سلیقہ ہے۔ ہمیں تو ہر وقت کی گہما گہمی‘ شور شرابا‘ خصوصاً سیاسی جنگ وجدل ہر گزپسند نہیں۔ اس نوعیت کے جنگجو جس رنگ اور نسل کے بھی ہوں یا جو بھی سیاسی رنگ ہوں‘ ہم اُنہیں دور رکھتے ہیں۔ جاڑے کے دن ہوں یا راتیں‘ جنگلوں‘ پارکوں اور ٹریکوں پر چلنے پھرنے اور رات کا کچھ حصہ کتابیں کھنگالنے میں گز ر جائے تو روح اور جسم دونوں تازہ ہو جاتے ہیں۔
ہم پرانے طریقے کے لوگ ہیں‘ ہمارا سونا‘ اٹھنا اور کھانا پینا سورج کے طلوع وغروب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ آزما کے دیکھ لیں‘ جاڑوں میں کہیں بھی واک کریں تو جی رکنے کو نہیں کرتا۔ہم دوسروں سے زیادہ خوش قسمت ہیں کیونکہ ہمیں پہاڑیاں‘ پہاڑ اور کھیت ارد گرد میسر ہیں۔ ہر طرف زمین پر مختلف رنگوں کی چادر بچھی ہے‘ اس لیے ہم ایک ساتھ مختلف درخت لگانے کا مفت مشورہ دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ قوسِ قزح کے رنگ آسمان سے زمین پر اُتر رہے ہیں۔ جس طرف نظر اٹھاتا ہوں تو فطرت کی روح پرور رنگینوں کو ہر طرف دعوتِ نظارہ دیتے پاتا ہوں۔