"RBC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور عالمی برادری

جب بھی ہمارے وزیر ِ اعظم کسی اہم ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو میڈیا اورسیاسی گفتگو میں ایک سوال ہی غالب دکھائی دیتا ہے کہ ہمیں اُس ملک سے کس طرح کی اور کتنی مدد ملنے کی توقع ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ امریکی دورے کے دوران بھی یہی سوال زیر ِ گردش رہا۔ میں نے یہ کبھی نہیں سنا کہ کسی نے سوال اٹھایا ہو کہ پاکستان اُس ملک کو کیا دینے جارہا ہے۔ ہم نے پاکستان کو ایک مستقل کلائنٹ، کشکول بردار، مددکا خواہاں اور زیادہ سے زیادہ قرضوں کی تلاش میں سرگرداں ایک ایسا ملک بنا دیا ہے جسے ہمہ وقت غیر ملکی کیش کی ضرورت درپیش رہتی ہے۔
اس افسوس ناک صورت ِحال کی وجہ یہ نہیں کہ ہم کوئی غریب یا وسائل سے محروم قحط زدہ ملک ہیں،بلکہ اس کی وجہ ناقص پالیسی سازی، بدعنوانی، مشکل فیصلے کرنے سے گریز،نااہلی اور معیشت اور وسائل کی غلط منصوبہ بندی ہیں۔ ملکی اشرافیہ کو غیر ملکی دولت چاہیے، لیکن ستم یہ ہے کہ ملنے والے قرض یا امداد کا ایک بڑا حصہ اُن کے ہاتھوںسے ہوتا ہوا دوبارہ بیرونی ممالک کے بینک اکائونٹس میں چلا جاتا ہے ، جبکہ ملک قرض کی دلدل میں مزید دھنس چکا ہوتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ کچھ کو استثنا ہو، لیکن مجموعی طور پر حکمران اشرافیہ کا طرز ِعمل یہی رہا ہے۔ ملک کو اس حوالے سے ایک سنگین گھائو اُس وقت برداشت کرنا پڑ ا جب 2007ء میں قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او)بنا کر اشرافیہ نے جمہوریت کے تسلسل کے نا م ایک دوسرے کی لوٹ مار کو معاف کردیا۔ جمہوریت کے نام پر ایسے''شب خون ‘‘ کی مثال شاید ہی کسی ملک میں مل سکے۔ 
اگرچہ دنیا میں ہمارے زیادہ تر دوست، جیسا کہ چین، اسلامی دنیا اور مغربی ممالک ہمیں اپنے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ترقی کرنے کا موقع دیتے ہیں، لیکن ہمارا حکمران طبقہ بمشکل ہی اس راہ پر قدم رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے لیے ایماندار اور باصلاحیت افراد کی ضرورت ہے ، لیکن شخصیت پرستی کی سیاست میں ایسے افراد کا آگے آنا دشوار ہے۔ ہماری روایتی اشرافیہ نہ تو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی طرح منظم اور نہ ہی مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کی طرح لچک دار ہے۔چین میں بدعنوانی کی بے رحمانہ طریقے سے گردن زنی ہوتی ہے تو مغربی جمہوریتوں کا انتخابی نظام بھی بدعنوان طبقے کو ایوانوںسے د ور رکھتا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں اشرافیہ جانتی ہے کہ نہ تو قانون اُن کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی ووٹ، چنانچہ وہ جو کچھ بھی کرلیں، اُن کا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔ وہ اقتدار کو اپنی مٹھی میں دبائے رکھنے کے لیے بہت سی چالیں جانتے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم احتساب کے اداروں اور قوانین کو مفلوج بنائے رکھنے کا فن ہے۔ وہ احتساب کی تلوار کو سیاسی انتقام کے پتھر پر مارکر کند کردیتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ جانتی ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ اُن کے اقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے اُنہیں من مانی کی اجازت نہیں دیں گے، اس لیے جہاں تک بس چلتا ہے ، وہ رائے دہندگان کو تعلیم سے دور رکھنے کے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اندرون سندھ اور بلوچستان میں اس پالیسی کی افسوس ناک کارفرمائی دیکھی جاسکتی ہے جہاں نسل درنسل طاقتور خاندان سے وفاداری کو ہی جمہوریت قراردیا جاتا ہے۔ آخرمیں، انہوں نے سرکاری اداروں، جیسا کہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور دیگر محکموں کو اپنے ذاتی معاونین بنانے کا گُرسیکھ لیا ہے۔ 
جو لوگ ان حکمران گروہوں کو اندر سے اچھی طرح جانتے ہیں ، وہ آپ کو بتائیں گے کہ ان کا درحقیقت پاکستان میں کچھ نہیںہے۔ وہ یہاں صر ف حکومت کرنے، لوٹ مار کرنے اور اپنی تجوریاں بھرنے آتے ہیں اور کسی اور کو باری دے کر چلے جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد عوام کی یادداشت کو چکما دے کر وہ پھر جمہوریت کے نام پر واپس آجاتے ہیں اور جہاںسے باری چھوڑی تھی، سلسلہ وہیں سے جوڑ لیتے ہیں۔ اتنی دیر میں دوسرا گروہ'' سستانے‘‘ کے لیے باہر چلا جاتا ہے۔ دنیاکی کوئی ریاست جمہوریت یا کسی بھی بہانے سے عوامی وسائل کی لوٹ مار کی اجازت نہیں دیتی۔ جرائم ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن حکومتوں کی طرف سے وسائل کی اس پیمانے پر لوٹ مار کی ہم ایک نادر مثال ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ پاکستان کوئی بنانا رپبلک نہیں، یہ محنتی اور باصلاحیت افراد، قدرتی وسائل سے مالا مال اور ایٹمی ٹیکنالوجی اور مضبوط دفاع رکھنے والا ایک توانا ملک ہے، تو پھر ایوانوں میں قحط الرّجال کیوں؟
اس وقت عالمی برادری کو پاکستان کے حوالے سے تین معاملات پر تشویش ہے: اس کی جوہری صلاحیت، آبادی کا بلاروک ٹوک پھیلائو اور مذہبی بنیادی پرستی۔ وہ جغرافیائی اہمیت اور طاقتور فوج رکھنے والے پاکستان کو کشمکش اور افراتفری کا شکار ہو کر کمزور اورپسماندہ نہیں دیکھنا چاہتے، چنانچہ وہ مقدور بھر ہماری مدد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تاہم اصل سوال اپنی جگہ پر، کیا ہماری پرورش کی ذمہ داری عالمی برادری پر عائد ہوتی ہے؟ کیا ہمیں اپنے قومی مفاد کا کوئی احساس نہیں؟ یا کیا ہم اپنی نسلوں کے لیے بنیادپرستی سے زہرناک اور افراتفری کے کانٹوںسے لہو لہان پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟کیا ہمارے سامنے عراق، مصر،شام ، لیبیااور افغانستان کی مثال موجود نہیں کہ ریاستی اداروں کے زوال،جمہوریت کی نفی، مطلق العنانی اور لوٹ مار کی آخری منزل کیا ہے؟
پاکستانی رہنما اور ان کے میڈیا میں چہکنے والے ترجمان اپنی کمزوری اور نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے غیر ملکی دشمن طاقتوں کی طرف سے کی گئی سازش کی تھیوریاں پھیلاتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیرونی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کو ناکام کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حقیقی یا فرضی دشمن تو ہر ریاست کے ہوتے ہیں لیکن یہ قیادت کا فرض ہے کہ وہ ملک کو ناکام ہونے سے بچائے، ورنہ اُس کے ہاتھ اقتدار دینے کا کیا مطلب؟ایک جدید ریاست کوئی پرندوں کا غول نہیں ہوتا جو ہلکا سا کھٹکا ہونے سے ڈرکر اُڑجائے۔ ہم ایک توانا قوم اور طاقتور ملک ہیں۔ہمیں بس یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہمارا اصل دشمن کوئی بیرونی طاقت نہیں ، وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہے۔ افسوس، ہمارے موجودہ حکمران طبقے دیگر ممالک کے حالات یا تاریخ سے سبق سیکھتے دکھائی نہیں دیتے ورنہ وہ جانتے کہ ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہمارا مسئلہ منظم بدعنوانی ہے ۔ ایسی بدعنوانی ہم نے گزشتہ تین دہائیوںسے نہیں دیکھی تھی۔ بدعنوان اشرافیہ کو جمہوریت کے نام پر حاصل استثنا ہمارا سب سے بڑادشمن ہے۔ اسی وجہ سے نہ ہمارا کشکول ٹوٹتا ہے اور نہ ہی سازش کی تھیوریاں ہماری جان چھوڑتی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں